اسد محمد خان : ایک طلسماتی داستان گو


میں د وران سفر زیادہ سامان ساتھ رکھنے کا قائل نہیں ہوں‘،یہ کہتے ہوے ان کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ دوڑ گئی، ’ ماسوائے ایک جوڑا کپڑے، راستے کے لیے کچھ بسکٹ، اور یہ چند کاغذ‘،اس گفتگو کے دوران وہ اپنا مختصر سامان ایک طرف ہٹا کر اپنے ساتھ ہی میری جگہ بنا چکے تھے۔ ایئر پورٹ کے ایسے بھیڑ بھڑکے میں ان کا مل جانا مسیحا وخضر سے ملاقات کے مترادف تھا۔ ان کے ساتھ کئے ہوے اسلام آباد، لاہور اور دہلی کے سفر کی وجہ سے میں پہلے ہی جانتا تھا کہ شاعر،نثر نگار اسد محمد خان جیسے ہمسفر کے ساتھ جہاز کے علاوہ وقت بھی پر لگا کر اڑتا ہے۔بقول شخصے، وہ کہیں اور سنا کرے کوئی!

اب جہاز اڑنے میں ہونے والی عمومی تاخیر، ائیرپورٹ پر ہونے والے کریہہ الصوت اعلانات، لمبی قطاروں یا شناختی مراحل ان سب چیزوں سے میں بے غم تھا کیوں کہ ان کے ساتھ کیا گیا چھوٹا سا سفر بھی بجائے خود ایک مکمل افسانہ ہوتا ہے۔ اسد بھائی کے بیانیے کی یہ معمولی تفصیلات اتنی اہم ہیں کہ جن سے ہم کولرج کی نظمAncient Mariner میں موجود “wedding guest” کی طرح صرف نظر نہیں کر سکتے۔

پرواز کے دوران ان سے گفتگو میں میری بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھ کر ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر نے کمال شائستگی سے مجھے نشست تبدیل کرنے کی پیشکش کی، اسد صاحب اب حفاظتی پیٹی باندھ کر، جم کے بیٹھتے ہوئے مجھے کہانی کے امکانات کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ایک کہانیوں کی کتاب جو انہوں نے اپنی پانچویں جماعت میں پڑھنے والی پوتی سے لے کر پڑھی تھی، اس کے بارے میں بتاتے ہوئے کہنے لگے،’وہ عموماً مجھے اپنی کتابیں پڑھنے کے لیے دیتی ہے، لیکن اس کہانی کو پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا‘ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی کوند گئی۔

’اس 100صفحوں کی کتاب میں 32سے زیادہ کردار ہیں اور وہ مجھے بڑے مزے سے فرداً فرداً ان کے بارے میں ساری تفصیلات بتا دیتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ سب کردار ایک بچہ ایسے مزے سے کیونکر پہچان پاتا ہے، درختوں میں رہنے والی ننھی پریاں، قنطورس (آدھا گھوڑا آدھا انسان) ، بونے، یونی کارن (ایک سینگ والا گھوڑا)، یہ تو بھئی تخیل کو مہمیز کرنے والے وہ کردار ہیں کہ جنہیں میں عمر عزیز کی تیسری دہائی میں اور انگریزی ادب کا حافظ ہونے کے بعد جان پایا تھا‘۔ اسی دوران گفتگو کا رخ دیو مالا، اساطیر، براق، ققنس ، نظریہ اضافت، پرانے کراچی سے ہوتا ہوا بھوپال کے ان شاعرکی طرف مڑ گیا جن کا تخلص ققنس تھا اور انہیں گزر اوقات کے لیے نواب سے وظیفہ ملتا تھا۔ یہ بھی یقیناً ان کے بیان کردہ چیستانِ تاریخ کا ایک لاینحل معمہ تھا!

’میں وندھیا چل کی آتما‘ …. موسیقیت سے لبریز یہ نظم کئی سال تک ہمارے اسد صاحب بھوپالی کی پہچان بنی رہی۔ انہوں نے بھوپال سے میٹرک کرنے کے بعد، بمبئی(حالیہ ممبئی)کے جے جے سکول آف آرٹس سے ڈپلومہ لیا۔ تقریباً 17 سال کی عمر میں وہ لاہور بلکہ درحقیقت کراچی آئے اور ایک لمبے اور کٹھن سفر کا آغاز کیا۔ پرانی یادوں کو دہراتے ہوئے بولے،’ کراچی یونیورسٹی آج بھی میری یادوں میں اپنے بکھرے ہوئے تمام شعبوں کے ساتھ موجود ہے، جو فی الحقیقت پرانے کراچی میں تھے، اور وہ ، پروفیسر مایا جمیل، کیسے اپنا لیکچر شروع کرنے سے پہلے کسی کو نیچے بھیجا کرتی تھیں کہ جاﺅ اور ٹال والے سے کہو کہ آرا چلانا بند کرے!ژ

خیر، اب تو یہ نیا اجاڑ، بیابان، شہر سے کوسوں دور موجود کیمپس اس کی جگہ لے چکا ہے۔

انہوں نے ایم ۔اے میں داخلہ لیا مگر پہلا سال ہی تھا کہ ان کے بڑے بھائی کا جو فوج میں ہوتے تھے، اپنڈکس کی وجہ سے دوران جراحت انتقال ہو گیا۔ ’ وہ صحیح معنوں میں میرے لئے بہت بڑا بحران تھا اور مجھے خود کو سنبھالنا تھا۔میں نے کراچی پورٹ ٹرسٹ میں کام کرنا شروع کر دیا، اور کوشش کرتا تھا کہ پڑھائی اور نوکری میں توازن قائم رکھوں، میں نے ریڈیو کے لیے بھی لکھنا شروع کر دیا‘۔ انہوں نے بڑے مزے سے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ایک اسکٹ لکھنے کے انہیں 15 روپے ملتے تھے لیکن وہاں سلیم احمد اور عزیز حامد مدنی جیسے کام کرنے والے لکھاریوں کی مسلسل حوصلہ افزائی شامل حال رہی۔

وہ بطور گیت کار جانے جاتے تھے اور بعد میں ان کے کچھ گانے بہت زیادہ مشہور ہوئے جن میں انوکھا لاڈلا، دیا جلائے رکھنا ، وغیرہ شامل تھے۔انہوں نے بتایا، ’اطہر نفیس اور افتخار عارف نے مجھے قائل کیا کہ میں ٹی وی کے لیے کچھ لکھوں‘۔ یہاں سے ان کی شہرت اور کامیابی کے دوسرے دور کا آغاز ہوا، ٹی وی سیریل اور ڈرامے۔ ان کے ڈرامے آج تک ان لوگوں کو بھی بڑے ذوق و شوق سے یاد ہیں جو ان کے ادبی کمالات سے کما حقہ واقف نہیں۔ اسی دور میں انہوں نے مشہور رسالوں کے لیے کہانیاں اور افسانے بھی لکھے۔ ’میں نے ہمیشہ اپنے کمرشل اور ادبی کام کے درمیان ایک حد فاصل رکھی ہے اور اسے کبھی خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اب تو خیر یہ کام میں ویسے ہی چھوڑ چکا ہوں، میرے بچے اب ماشاللہ برسرروزگار ہیں‘ وہ ایام رفتہ سے بہت مطمئن نظر آئے۔

شمس الرحمان فاروقی انہیں ’خان خاناں‘ جب کہ عمومی طور پر نئے نثر نگار انہیں احتراماً اسد بھائی کہتے ہیں۔ ہماری واپسی کی پرواز کے دوران گفتگو کا سلسلہ انہوں نے دوبارہ شروع کیا۔ ’میں اپنی زندگی میں فکشن کی طرف بڑی دیر سے متوجہ ہوا، میری پہلی کہانی ’باسودے کی مریم‘ تھی، میں نے یہ کہانی اطہر نفیس کو سنائی تو وہ بہت اداس ہو گئے، رونے لگے، خود میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ انور مقصود نے اسے میری زبانی سنا اور کئی پیرا گراف زبانی یاد کر لیے۔ اس کے بعد میں نے ’مائی دادا‘ لکھی، احمد ندیم قاسمی نے اسے  “فنون” میں چھاپا اور یوں میں مستقل لکھنے لگا‘۔

پرشکوہ انداز بیان جسے ان کا وسیع تجربہ جلا بخشتا ہے، اور اس سے بھی بڑھ کر ان کی کہانیوں میں ان کے ذاتی احساسات کی جھلک اور ایک مسلسل غصے کی بھرپور بنت نظر آتی ہے۔ “A Harvest of Anger” کے نام سے ان کی منتخب کہانیوں کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا ہے، جسے ہم ان کے مزاج کا بہترین عکاس کہہ سکتے ہیں۔ اس میں شیر شاہ سوری پر لکھی گئی ان کی 12 کہانیاں شامل ہیں۔

’میں اس کی طلسماتی شخصیت کا بچپن سے ہی اسیر تھا، ہم لوگ قلعہ راے سین جایا کرتے تھے، جہاں اس نے تاریخی محاصرہ کیا تھا۔ بعد میں جب ٹیلی ویژن کے ایک ڈرامے کے لیے میں اس کی زندگی پر تحقیق کر رہا تھا، مجھے پروفیسر حسین خان کی لکھی ہوئی ایک شاندار کتاب ملی، وہ پشاور یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے صدر تھے۔ ان کی کتاب مندرجات کے لحاظ سے بہت زیادہ تحقیقی صحت کی حامل تھی۔ اسی میں کچھ تفصیلات مجھے ایسی ملیں جنہیں بعد میں خود میں نے تراشا خراشا اور کہانی کی شکل دی‘۔

شیر شاہی دور سے دلچسپی کا سبب بتاتے ہوئے کہنے لگے، ’اس نے تقریباً ساڑھے چار سال حکومت کی، لیکن آپ اس کے دور کی کامیابیاں ملاحظہ کیجیے۔ جرنیلی سڑک(جی ٹی روڈ)، کہ جس کے بغیر آپ آج، اس دور میں بھی کہیں جانے کا سوچ نہیں سکتے۔ اس نے نوکر شاہی میں اصطلاحات متعارف کرائیں اور اس دور کے سکے پرایک طرف کلمہ طیبہ اور دوسری طرف دیوناگری رسم الخط کی تحریر ہوتی تھی۔ میں نے یہ تفصیلات اپنی کہانی ’روپالی‘ میں استعمال کی ہیں‘۔ پھر شرارتی انداز میں بولے، ’مت بھولیے صاحب کہ وہ اسی دھرتی کا ایک بیٹا تھا اور پھر میری طرح پٹھان بھی‘۔

شیر شاہ سوری کے بعد باتوں کا رخ پھر ان کی طرف ہو گیا، وہ بتانے لگے کہ ایک وقت تھا وہ راتوں میں دو بجے تک کام کرتے تھے اور یہ کہ اب بہت جلد تھک جاتے ہیں لیکن اپنی یادداشت سے کہانیوں کی کھوج تب بھی جاری رہتی تھی اور اب بھی جاری ہے۔ اتنی دیر میں حفاظتی بند باندھنے کے اعلانات ہونے لگے اور ہم جہازکے اترنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اسد بھائی، خدا انہیں زندگی دے، ہمیشہ ایک نئی کہانی کے ساتھ ملتے ہیں!

روزنامہ ڈان کے لئے یہ انٹرویو مکرمی آصف فرخی نے کیا تھا۔ اردو ترجمے کے لئے ’ ہم سب‘ حسنین جمال کا شکر گزار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).