اسد محمد خاں سے باتیں (پہلی قسط)


پار سال اسد محمد خاں ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور تشریف لائے، پہلی بار ملاقات ہوئی، بہت شفیق اور وضع دار شخصیت، نہایت اطمینان سے گفتگو کرتے اور اس گفتگو میں اُن کی آنکھیں اور چہرے کے تاثرات ایسے مزے سے شامل رہتے کہ ہم مسلسل اِسی دبدھا میں رہے کہ اُن کو دیکھیں یا اُن سے بات کریں۔ باتوں باتوں میں خیال آیا کہ کیوں نہ اِن باتوں کو آپ سب کے واسطے محفوظ کر لیا جائے، اسد صاحب سے عرض کی تو بکمال شفقت اُنہوں نے اگلے روز ناشتے پر مدعو کر لیا۔ لیجے صاحب، اگلے روز پوری تیاری کے ساتھ خاکسار حاضر، اب گفت گو جو ہوئی، وہ پیشِ خدمت ہے؛

سوال: اسد صاحب، دنیا کے حالات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور خاص طور جو صورتحال اس وقت پاکستان کی ہے اُسے کس نظر سے دیکھئے گا؟

اسد محمد خاں: عمومی طورسے میں یہ سمجھتا ہوں، کہ، یہ جو کھینچا تانی ہے، چلتی رہی ہے دنیا میں، اور چلتی رہے گی! مثلاً اب ایک ہی سپریم طاقت ہے، پہلے دو طاقتیں تھیں، جو ایک دوسرے سے توازن بھی رکھتی تھیں، بس دور سے ایک شائبہ تھا کہ یہ آپس میں بھڑی ہوئی ہیں۔ لیکن ان کا آپس میں بھڑنا صرف ایک دھمکی کی حد تک تھا۔ روس کے خاتمے کے بعد یہ دنیا یونی پولر ہو گئی ہے اور بس ایک ہی طاقت رہ گئی ہے۔ ہاں، یہ شکر ہے کہ یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ ان کے ہاں مالیاتی بریک ڈاؤن ہوا ہے جس پر اوباما بہت شور مچا رہے ہیں ۔ واللہ علم وہ ڈرامہ ہے یا کیا، کیونکہ مالیات میرا شعبہ نہیں ہے، میں اس میں زیادہ گہرائی میں نہیں جانا چاہتا۔ لیکن ہو گا یہ کہ اگر یہ سپریم پاور اس طرح کے مسئلے میں گرفتار ہواور کام کرنے والے لوگوں کو روزی نصیب نہ ہو جیسا کہ اب شروع ہو گیا ہے، تو وہی جیسے انقلاب روس یا انقلاب فرانس ہوا، کچھ نہ کچھ ایسا ہو جائے گا کہ یہ اپنے توازن میں رہیں۔

سوال : لیکن ان کے توازن میں آنے سے پاکستان پر کیا اثر ہو گا؟

اسد محمد خاں: ہمارے حالات اس وقت تک بہتر نہیں ہو ں گے جب تک ہندوستان کی طرح ہم ایک Self Respecting قوم نہ بن جائیں۔ شروع میں، ہمارے وزیراعظم کو، سب سے (امریکہ اور روس) ملاقات کرنی چاہیے تھی، نہ کی۔ صدر ایوب نے روس کا وزٹ کیا تھا اور جو پریشر ڈالا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ ایک تاریخ ہے ۔ مجبور اً یہ سب نہیں کیا گیا اور ان کو یہ دھمکی دی گئی کہ ساری امداد روک دی جائے گی اور ابھی تمہارے پاس تو مسائل ہیں مہاجروں کے اور مالیاتی مسائل، اور کچھ ہے ہی نہیں تمہارے پاس۔ ظاہر ہے ایک جما ہوا سسٹم تھا کہ جو ہندوستان کو ملا۔ یہ ایک پوری پسماندہ بیلٹ، جب بھی تھی اور اب بھی کئی حد تک ہے، یعنی پنجاب کو چھوڑ کر ۔ اور سندھ کی صورتحال تو آپ کو معلوم ہے، سندھ جو تھا، وہ بمبئی صوبے کا حصہ تھا ۔ اور ایک خودمختاری تھی جو پنجاب کے پاس موجود تھی لیکن صنعتیں اس پنجاب میں تھیں زیادہ تر، کہ جو اب 47 ء کے بعد ہندوستان کا حصہ ہے۔ ہمارے پاس مسائل بے شمار تھے۔ اب امریکہ نے ہماری طرف ہاتھ بڑھایا، روس نے بھی بڑھایا، اگر ہم ایسا کوئی توازن کر لیتے اور ان سے کہتے کہ آپ اپنے ہوش و حواس میں رہیے، ہم نہ آپ کے سائے میں آنا چاہتے ہیں نہ دوسری سپر پاور کے، تو یہ بہتر تھا، یہ کیا بھی جا سکتا تھا ۔ اس لیے، کہ میں جہاں سے آیا ہوں میں نے وہاں دیکھا کہ پہلے سٹیل مل قائم کیا روس نے، اور انہوں نے اس کا شکریہ بھی ادا کیا، لیکن اُس سے اِس طرح کی ڈیل نہیں کی کہ ان کے کہنے پر اپنے سارے معاملات سے دستبردار ہوجائیں کہ جیسی ماسکو سے خبر آئے گی ویسا ہم کریں گے ۔ انہوں نے واشنگٹن سے بھی کہا تھا کہ ہم ایک زندہ اور آزاد قوم بن چکے ہیں، تو اپنے حساب سے چلتے رہے اور کسی کا ڈکٹیشن قبول نہیں کیا ۔ مجھے یاد ہے کہ میں چھوٹا ہی تھا تو سٹیل مل کا ایک سلسلہ چل رہا تھا علیحدگی سے پہلے ہی، سروے ہو رہا تھا اور وہ سٹیل مل قائم ہو گیا شاید 50 ء میں اور جو انہوں نے جو انویسٹ کیا تھا قرضے کی صورت میں، یا جس بھی صورت تھا وہ سب واپس کیا۔ سٹیل مل اب آزاد اِدارہ ہے ۔ یہ ہم بھی کر سکتے تھے، بہت آسانی سے کر سکتے تھے! اور وہ جنگ جو جنرل ایوب خان نے لڑی امریکا کی طرف سے روس کے خلاف اور یہاں سے طیارہ بھی اڑا، وہ بھی ایک تاریخ کا حصہ ہے تو وہ ہم نے برا کیا۔ کسی بھی سپر پاور کو اتنا نہیں خفا کرنا چاہیے اورنہ دوسری کو اپنا ان داتا بنا لینا چاہیے۔ اس کو اپنی اوقات میں رکھنا چاہیے۔ اور ہم خود چونکہ ایک چھوٹی قوم تھے، ہمیں انڈسٹری کی طرف جانا چاہیے تھا فوری طور پر جو ہم نہیں گئے۔ پنجاب میں کام ہوا، بڑی اچھی بات ہے اور صدر ایوب نے کچھ صوبہ سرحد میں کام کیا ان لوگوں کو روزگار ملا۔ اب صور تِ حال یہ ہے کہ خود پنجاب اپنی انڈسٹری سے اپنے ہی لوگوں کو نہیں سنبھال سکتا، فیڈ نہیں کر سکتاکیونکہ اب سارے مسائل ہیں انرجی کے، گیس کے ہیں ۔ صنعتیں پنجاب کی مشکل میں ہیں، درجنوں کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ تو وہ کیا کرے گا صوبہ سرحد سے بلوچستان سے جا کر لوگوں نے کراچی میں صنعتیں لگائیں ۔ لیکن اب بدامنی کی وجہ سے یہ صنعتیں واپس جا رہی ہیں، انرجی کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بیوپاری باہر اپنا کام کر رہے ہیں ۔ یہ ایک الم ناک صور تِ حال ہے ۔ ہم نے بہت برا سٹارٹ لیا تھا۔ کم سے کم اپنی ایک آزادانہ روش پہلے دن سے قائم کرنی چاہیے تھی اور تعلیم پر توجہ دینی چاہیے تھی۔ تعلیم پر خاک نہیں ہوا اور طالبان نے آکر چند ہزار سکول رہنے دیے اور سندھ کے سکولوں کا حال میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ کئی سو سکول جو ہیں وہ، وڈیروں کی بھینسیں باندھنے کے کام آتے ہیں اور بلوچستان میں خدا مغفرت کرے بگتی صاحب اور دوسرے ان کے ہم عصر سرداروں کی، یہ بحث ایک زمانے میں چلی تھی کہ تم نے میرے علاقے میں چار سکول کھولے ہیں میں تمہارے علاقے میں چالیس سکول کھولوں گا ۔ تمہارا حشر نشر کر دوں گا، تو جہاں یہ حال ہو، وہاں کیا کیا جا سکتا ہے۔

سوال: آپ کی کہانیوں میں جیسے شہر کوفے کا ایک آدمی یا ایک بے خوف آدمی میں، جہاں تک میں نے محسوس کیا، آپ کے آس پاس کے لوگ، آپ کا ماحول سب نظر آتا ہے، کچھ اس بارے فرمائیے؟

اسد محمد خاں: میرے ایک بہت اچھے بلوچ دوست تھے جنہوں نے شروع سے ملازمت ہی کی، اور میری کتاب میں ان کا ذکر ہے، بلکہ ایک بلوچ اور ایک پختون بھائی دونوں کا ۔ پختون نے تو بحیثیت مزدور کام شروع کیا اورپھر ماسٹرز کیا اس نے، اور سپروائزر بھرتی ہوکر انسپکٹر ریٹائر ہواجو چنگلی سوات کا رہنے والا تھا۔ میری کتاب کا پہلا افسانہ ہے ایک بے خوف آدمی کے بارے میں ۔ تو وہ بے خوف آدمی وہی تھاہمارا دوست جو پختون تھا۔ اور دوسرے ہمارے بلوچ دوست ہیں۔ وہ سیلف میڈ آدمی ہیں عبدالغفور ۔ میں نے ایک کہانی ان کے نام کی ہے۔ عبدالغفور صاحب ایک سیلف میڈ آدمی ہیں ۔ بلوچ ہیں، اور ساری دانش، عزت نفس جیسا کہ بلوچوں میں ہوتی ہے ان میں موجود ہے۔ کراچی جیسے شہر میں انہوں نے بسوں میں سفر کیا اور فرنچ سیکھی۔ انگریزی میں ان کا بڑا اچھا معیار ہے۔ مجھے انہوں نے کمال کتابیں دیں۔ پھر انہوں نے سنسکرت بھی سیکھنا شروع کی اور بہت روانی سے وہ پڑھتے تھے۔ انہوں نے سنسکرت کے بڑے شاعروں کے مجموعے مجھے دیے۔ انگریزی سے شغل ہوا تو اسد محمد پکتھال کا جو ترجمہ ہے، وہ میرے پاس موجود تھا، ایک وہ بھی میرے لیے لے آئے تو میں نے کہا کہ بھئی غفور، یہ میرے پاس موجود ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ بھی آپ رکھئے۔ میں نے اپنا والا نسخہ پھر والد کو بھیج دیا۔ اچھا والد صاحب نے ایک ہندو دوست کی فرمائش پروہ ترجمہ اُن کو دے دیااور آخر دو سال بعد وہ صاحب مسلمان ہو گئے۔ والد صاحب کہتے تھے کہ پکتھال صاحب کو اللہ اس کا اجر دے گا، تو نے جو کتاب بھیجی تو صفحہ بہ صفحہ وہ پڑھتے رہے اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اب اصل مجھے پڑھائیے۔ اس طرح والد صاحب کے وہ دوست اور ان کی بیگم دونوں مسلمان ہو گئے۔ ایک خوف تھا۔ کیونکہ وہ اس بات پر تلے تھے کہ وہ ڈی کلیئر کریں گے اور مسجد میں علامہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کریں گے، تو لوگوں نے مصلحت سمجھائی کیونکہ کچھ بلوے ہو چکے تھے تو انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے تم نہ ڈی کلیئر کرو۔ خیر وہ مسلمان ہو گئے اور کھلم کھلا کہتے تھے کہ ہاں بھائی ہوں میں مسلمان، مجھے یہ چیز چاہیے، یہ چیز چاہئے۔ میں یہ نہیں کھاتا ۔ اپنے گاؤں والوں اور رشتہ داروں سے انہوں نے کہہ دیا تھا کہ میں اور میری بیوی بیمار ہیں، جب ہم مریں گے تو ہماری میت گاؤں لائی جائے اور مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ بھی انہوں نے طے کر لی تھی اور وہیں پر ان کو دفن کیا گیا۔ یہ چیزیں تھیں اور ان کے ڈانڈے میں جب بھی ملاتا ہوں، تو میں غفور سے کہتا ہوں کہ تم نے مجھے کتاب دی جو میں نے والد صاحب کو دی اور انہوں نے آگے دے دی اور یہ ایک اچھی بات ہو گئی۔ تو یہ وہ بلوچ دوست تھے ۔ اب۔ ۔ ۔ جس علاقے میں ہم اور وہ جاتے تھے اور سارا سارا دن چھٹی کا گزار دیتے تھے ان کے ساتھ، اب وہاں گولیاں چلتی ہیں اور جو دو گروپ ہیں، وہاں آپس میں لڑ رہے ہیں۔ وہی لیاری کا پورا جو المیہ آپ نے سنا ہو گا۔ اس شہر نے مجھے بہت سنبھالا، بہت تربیت کی میری اور ظاہر ہے کہ وہ میں نے لکھا بھی کہ کراچی میں جب آیا تو ہمارے کزن نے ایک پلاٹ خرید کر وہاں جھونپڑی بنائی اور اس کے بعد وہ ایک ایک پلاٹ ہمیں مل بھی گیا۔ وہاں ہم نے ایک کچا سا مکان بھی بنا لیا تھا ہم نے، تو خیر یہ حالات تھے۔

سوال : جو کام بھی آپ نے کیا ۔ ہر صنف میں آپ ایک نمایاں حیثیت سے نظرآتے ہیں چاہے وہ افسانہ نگاری ہو، گیت نگاری ہو، نظمیں ہوں، ڈرامہ نگاری ہو ۔ ان میں سے کون سی چیز آپ نے پوری طرح سے جم کر اور شوق سے کی، مطلب یہ کہ جس پر آپ مطمئن ہوں کہ یہ کام میرا سب سے بہتر ہے؟

اسد محمد خاں : یہ بہت دلچسپ سوال کیا ہے آپ نے۔ ایک سینئر جرنلسٹ ہیں The News کے الطاف حسین اسد۔ ا ن سے ایک زمانے میں تقریباً سات آٹھ سال پہلے جب میں روزانہ انٹرنیٹ پر آتا تھا اور تین چار گھنٹے گزارتا تھا، ای میلز کا ایک سلسلہ چلا۔ وہ انٹرویوز اپنے اخبارات کے لیے لیتے تھے تو ان کے سوالات کا سلسلہ آتا رہتا تھا۔ وہ ای میلز کے ذریعے سوالات کرتے تھے اور میں ان کو براہ راست جوابات دیتا تھا۔ وہ پھر اس کو چھاپ دیتے تھے۔ انہوں نے بھی سب سے پہلا سوال اسی بارے میں کیا تھا۔ لڑکپن میں، میں نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ مصوری تھا جو میں نے اپنے والد صاحب سے سیکھا۔ اور بعد میں جس طرح انجینئر استاد ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ ایک چھوٹا ہوتا ہے جو اوزار اٹھا اٹھا کے دیتا ہے تومیں اس وقت آٹھویں نویں کلاس میں تھااور ایک طرح سے ان کا چھوٹا تھا۔ دوسرے بھائیوں کو اس میں اتنی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اسی لیے والد صاحب مجھ پر زیادہ توجہ دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے بمبئی کے مشہور فائن آرٹس کے ادارے بھیجا ۔ بعد میں اب جا کر مجھے اس اعزاز کااحساس ہوا کہ وہاں سے میں نے ڈپلومہ کیا تھا۔ وہاں سے ایم ایف حسین بھی فاضل ہو کر نکلے تھے۔ ہاں تو ڈرامہ میں نے کمرشل کام کے طور پر کیا، جو کوئی فرمائش کر دیتا تھا، اس حساب سے کوئی کیریکٹر سٹڈی کر کے ڈرامہ لکھ دیتا تھا۔ تمام گیت اور کہانیاں، وہ میں نے اپنے شوق سے لکھے، ناول کی بہت فرمائش ہوتی ہے، ایک باب لکھا ہے، وہ دس گیارہ سال سے ویسا ہی ادھورا موجود ہے۔

ٓسوال: آپ ایک زمانے میں کمیونسٹ پارٹی سے بھی وابستہ رہے، غالباً شروع کے دنوں میں، تو کچھ فرمائیے، کیسے دن تھے، کیا تجربہ رہا؟

اسد محمد خاں: جب ہم سیاست میں پڑے تو ہم ترقی پسندوں کو پڑھتے تھے، بھوپال میں جب کمیونسٹ پارٹی بنائی گئی تو ایک صاحب آئے سنٹرل انڈیا کے ایک بڑے شہر اندور سے، اور بہت ایکٹو آدمی تھے، ان کے لیکچر چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے، تو ہم اُن کو سُن کر کامریڈ بن گئے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تمہارا اردو کا بہت اچھا خط ہے لہٰذا تم اشتہار لکھو۔ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی تھی۔ اس زمانے میں کمیونسٹوں کو فوراً گرفتار کر لیتے تھے۔ ہم لوگ انڈر گراؤنڈ تھے، بڑے بڑے لوگ اور احسن علی خان بھی رہے اور ان کا بیٹا بھی امریکا میں پڑھا ہوا اس پر بھی کمیونسٹ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ احسن علی خان اور ان کی بیگم اختر جمال صاحبہ، اللہ ان کی مغفرت کرے، جو بہت اچھی کہانی کار تھیں اور کرشن چندر کے دوستوں میں سے تھے۔ ہم ان سے بھی ملتے تھے ۔ ایک طرح سے جیسے بستہ اٹھا کے چلنا ہوتا ہے کیونکہ یہ ہم سے دو چار برس بڑی تھیں اختر جمال، تو وہ ہم سے کہتی تھیں کہ اسد فلاں جگہ پر آجاؤ تو ان کے گھر میں میٹنگز ہوتی تھیں۔ اور وہ سب کامریڈ ڈکٹیٹ کرتے تھے جو خود انڈر گراؤنڈ رہتے تھے۔ احسن علی خان خود بھی انڈر گراؤنڈ ہو گئے تھے۔ خیر ہم نے وہ پوسٹرز لکھے لیکن ان کو لگاتے ہوئے ہم پکڑے گئے، ساتھ جو ساتھی تھے وہ بھاگ گئے، لیکن ہم، وہ جیسے ایک بھوپالی اکڑ ہوتی ہے، ہم کھڑے رہے، ہاں بھئی کیا بات ہے، وہ پولیس والے تھے سادہ کپڑوں میں، انہوں نے کہا کہ ادھر آئیے، یہاں بیٹھیں، تو ہمیں پتا چلا کہ وہ پولیس والے ہیں۔ دو باتیں غلط ہو گئی تھیں ۔ ایک جو والد صاحب کے دوست تھے پولیس میں، وہ کسی معاملے میں باہر گئے ہوئے تھے اور میرے ماموں جو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے انہیں کسی اپنے ٹریننگ پروگرام میں لمبے عرصے کے لیے بمبئی بھیجا گیا تھا کہ آپ افسران کو تربیت دیں۔ بھوپال کے پولیس والوں میں یہی دو لوگ تھے جو ہم کو بچا سکتے تھے۔ تو یہ ایف آئی آر درج ہو گئی فوری طور پر ۔ اب وہ پولیس انسپکٹر جب واپس آئے تو انہوں نے سر پیٹ لیا۔ میرے والد صاحب کا نام تھا عزت محمد، انہوں نے کہا کہ یہ عزت دادا کا بیٹا ہے تم نے اسے اندر بند کر دیا۔ اب معلوم ہوا کہ سارا معاملہ جو وہاں ہوا، ایک انسپکٹر جو کہ جونیئر تھالیکن انچارج بھی تھا، اس نے رپورٹ تیار کر لی تھی۔ تو سترہ دن کورٹ میں کیس چلتارہا اور ہم حوالات میں بند رہے، حالانکہ حوالات میں اتنے دن کسی کو نہیں رکھتے۔ پانچ چھ دن کے بعد ضروری ہوتا ہے، جیل بھیج دینا۔ اب اس عرصے میں ماموں بھی آگئے۔ ایک پریشانی یہ بھی۔ انہوں نے والدہ سے کہا کہ آپا میں کیا کروں، وہ تو کچھ سنتا ہی نہیں۔ مجھے انہوں نے اپنے کمرے میں بلایا اور مجھ سے سوالات کرتے رہے۔ انہوں نے کمرے میں ایک افسر کو بٹھایا ہوا تھا جو مجھ سے یہ پوچھتا تھا کہ یہ بات کیسی ہے تو میں جواب دیتا تھا ماموں کو۔ یہ سارا معاملہ بڑا دلچسپ تھا۔ وہ پریشان کہ ہر جواب میںیہ کہتا ہے کہ میں اپنے کاز سے غداری نہیں کروں گا۔ اس طرح سولہ دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور والدہ بیمار پڑ گئیں۔ والد ایک دفعہ ملنے آئے تو وہ برہم بھی تھے کہ ہم سب کہتے تھے کہ یہ سب نہ کرو، مگر تم نے کر لیا ۔ پھر مجھے اطلاع ملی کہ بھئی والدہ بہت بیمار ہیں۔ پھر ہمارے ایک بزرگ آئے، میرے تایا، وہ رسالے دار تھے فوج میں۔ بہت کڑک آدمی تھے۔ انہوں نے بالکل دو ٹوک بات کہی پٹھانوں والی کہ یہ سب جو تم تمکنت دکھا رہے ہو یہ سب اپنی جگہ پہ، تم ابھی پورے سترہ سال کے بھی نہیں ہوئے اور تم اتنے بڑے لیڈر بن گئے ہو کہ نہ تمہیں خود اپنا خیال ہے اور نہ ہی اپنی ماں کا خیال ہے۔ وہ جانتے تھے کہ کہاں ہٹ کرنا ہے۔ بولے، انہوں نے کس طرح تمہیں پالا، کہ تمہارے والد مشتعل ہوتے تھے تمہاری شرارتوں سے او ر وہ تمہیں بچاتی تھیں۔ وہ اب بستر پر پڑی ہیں اور تمہیں کچھ خبر نہیں۔ یہ سب کہہ کروہ چلے گئے تو دوسرا جو آیا وہ بھی پولیس افسر تھا، سادہ کپڑوں میں وکیل بن کے آیا، اس نے کہا کہ یہ تمہارے تایا آئے تھے اور میں نے باتیں سنیں تھیں گزرتے ہوئے۔ تو میں نے پوچھاکہ اب اس کا کیا علاج ہے، تو وہ کہنے لگے کہ معافی نامہ لکھو اور جان چھڑاؤ اپنی۔ انہوں نے کمال مہارت سے اپنا مشورہ دیا حالانکہ انہیں Depute کیا گیا تھا میرے اوپر۔ ہم نے کہا کہ شام تک معافی نامہ لکھ دیں گے۔ اس طرح معافی نامے لکھ دیے گئے ۔ ایک ہمارے دوست تھے، میں نے ایک افسانہ بھی ان پر لکھا ہے، سید مظہر حسین ۔ وہ کٹر تبلیغی جماعت کے تھے سید بادشاہ، بڑے مزیدار آدمی تھے، محبت بھی بہت کرتے تھے۔ وہ پچاس قدم حوالات سے دور رہتے تھے۔ ایک دن بھی انہوں نے حوالات میں جھانکا تک نہیں۔ ہم دیکھتے رہتے تھے کہ یہ مظہر جا رہا ہے، تو ہم آواز دیتے تھے کہ مظہر صاحب کو بلائیے گا، تو سپاہی کہتے تھا کہ یہ نہیں آئیں گے۔ روز صبح و شام والد اور والدہ کے پاس بیٹھ کر وہ پلان بناتے رہتے تھے کہ فلاں وکیل ہے اس سے یہ کہتے ہیں وہ کہتے ہیں۔ جب ہماری ضمانت ہوئی تو ان کی بسیں چلتی تھیں، ان کے والد کا بزنس تھا۔ ضمانت والے دن وہ ایک لفافے میں کئی ہزار روپے لے کر کورٹ میں موجود تھے، میں وہاں ضمانت کے لیے ایک بنچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ میری طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔ میرے والد صاحب کو دیکھ کر کہنے لگے کہ میاں میں یہ ضمانت کے لیے پیسے لے کر آیا ہوں۔ تو میرے والد صاحب نے کہا کہ بیٹا ضمانت تو ہو گئی اور ضمانت کیش پیسوں سے نہیں ہوتی۔ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ والد صاحب کہنے لگے کہ جیتے رہو، پیسوں کو جیب میں رکھ لو، ضمانت تو ہو گئی بھائی اس کے لیے پراپرٹی کے کاغذات داخل کیے جاتے ہیں اور وہ میں نے کر دئیے بس دو منٹ میں یہ کاغذات پر دستخط کرے گا اور ضمانت ہو جائے گی۔ مظہر صاحب اسی وقت باہر گئے، تانگہ لیا اور امی کو جا کر خبر سنائی۔ اصل میں وہ ہم سے ناراض تھے اور کئی دن تک یہ کہتے رہے کہ تمہیں پتہ نہیں یہ لوگ تو اسلام سے دور ہیں، یہ کافر ہوتے ہیں، اور اگر ہندو بھی ہے تو وہ نکما اور خبیث ہے اگر وہ کمیونسٹ ہے۔ یہ کمیونسٹ تو خدا کے دشمن ہیں۔ تم کن لوگوں میں جا گھسے ہو لا حول ولا قوۃ۔ جیل میں ایک جماعت تھی جو ہماری سپورٹ کرتی تھی، جب ہم نے معافی نامہ لکھا تو اس نے دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ اب ایسے تو چھوڑتے نہیں تھے، ماموں نے والدہ کو بتا دیا تھا کہ اسے روکو کیونکہ اس کی فائل کھل گئی ہے۔ اب فائل کا یہ نتیجہ ہوا کہ ضمانت کے بعد بھی دھمکیاں ملتی تھیں کہ ہم وہ کریں گے جو ٹراؤٹسکی کے ساتھ سوشلسٹوں نے کیا تھا۔ اب دھمکیاں سیریس ہو گئیں۔ اب ہمارے عزیزوں میں ظاہر ہے کچھ لٹھ باز بھی تھے، انہوں نے کہا کہ ہم ہاتھ پیر توڑ دیں گے، کون آدمی دھمکی دے رہا ہے تو میں نے نہیں بتایا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ وہ ویسا کریں گے جیسا وہ کہہ رہے ہیں۔ ماموں نے بھی کہا کہ بتاؤ ان پر ہم کیس بناتے ہیں، یہ کیا قصہ ہے کیوں دھمکیاں دے رہے ہیں وہ۔ والد نے کہا کہ اس قضیے سے بہتر ہے کہ تم بمبئی چلے جاؤ اور اپنی ڈگری کرو فائن آرٹس میں، یا بھائی کے پاس چلے جاؤ سیالکوٹ جو مرے کالج میں اس وقت سیکنڈ ایئر کے سٹوڈنٹ تھے۔ وہ بعد میں آرمی میں چلے گئے جہاں انہوں نے اپنڈکس چھپایا اور پھر سی ایم ایچ میں ان کا انتقال ہوا اور ان کی ڈیڈ باڈی کراچی کے سی ایم ایچ میں پہنچائی گئی۔ ابھی ان کی ٹریننگ مکمل نہیں ہوئی تھی۔ پاسنگ آؤٹ والی پریڈ میں تھے۔ ان کو جب درد ہوتا تو وہ چھپا لیتے تھے اور اپنے دوستوں کو بھی نہیں بتاتے تھے۔ ان کے دوست کہتے تھے کہ یہ بے چین ہو کر باہر جا کر بیٹھ جاتا ہے کہ نیندنہیں آرہی۔ پھر وہ اتنا سیریس ہو گیا کہ انہیں بتانا پڑا کہ مجھے یہاں درد ہے ۔ میڈیکل افسر نے دیکھ کر کہا کہ یہ اپنڈکس ہے۔ میں ان کا واحد رشتے دار تھا یا کچھ کزنز تھے۔ اس وقت ایک طیارہ کچھ سامان لے کر جا رہا تھا ۔ انہوں نے انتظام کیا کہ اس میں بیڈ لگا کر مریض کو پہنچا دیں گے، وہ مریض جو ابھی وردی والا بھی نہیں ہوا، تو کراچی سی ایم ایچ میں ان کو لایا گیا اور ہمارے گھر فوراً ایک آدمی آیا۔ اس زمانے میں ٹیلی فون تو ہوتے نہیں تھے اور پھر ہم تو جھونپڑی میں رہتے تھے لیاقت آباد میں۔ وہاں ایک آدمی آیا اور اس نے بتایا کہ آپ کے بھائی کو یہاں لایا گیا ہے ۔ ان کی سرجری ہے۔ تو خیر پھر میں ملنے گیا۔ اب وہاں پاکستان نیوی کا ایک کمانڈر تھا انگریز، اس زمانے میں وہ پروموٹ ہوا تھا۔ یہ بات ہے 1951 ء کی اور ابھی وہ ریٹائر نہیں ہوا تھا۔ تو اس نے باتیں کیں ہم سے، اس نے کہا کہ گھبراؤ مت، ہے الجھا ہوا کیس لیکن زیادہ خطرے والی بات نہیں ہے۔ ہم کوشش کریں گے۔ لیکن نہیں بچ کر سکے وہ ہمارے بھائی۔

دو جوان موتیں ہوئیں میرے بھائیوں کی، دوسری حادثاتی موت تھی میرے چھوٹے بھائی کی جو بہت بعد میں آیا اور اس کی شادی میں نے اور میری بیگم نے کی۔ اس کے دو بچے ہوئے اور و ہ یو بی ایل کا سینئر منیجر ہوا، اور اس کو رکھوایا تھا مشتاق احمد یوسفی صاحب نے۔ وہ بھی بڑا دلچسپ قصہ ہے ۔ وہ لیکچرر تھا جیوگرافی کا بھوپال میں۔ یہاں بھی کالجوں نے کہا کہ ہم تمہیں پیسے تو زیادہ نہیں دیں گے لیکن بطور لیکچرار رکھیں گے، جیوگرافی پڑھاؤ، سوشیالوجی پڑھا لو، کچھ بھی پڑھاؤ ۔ لیکن وہ کہتا تھا کہ میں بینکنگ کی طرف جانا چاہتا ہوں۔ علیم (عبیداللہ علیم) سے، اللہ بخشے، میں نے کہا کہ یار اُسے ملو، ذرا دیکھو کیا کہہ رہا ہے، تو بھائی نے جو کچھ مجھ سے نہیں کہہ سکتا تھا وہ علیم سے کہہ دیا ۔ علیم نے کہا کہ ٹھیک ہے تم اس سے مت اصرارکرو، یہ لیکچرر شپ نہیں کر رہا ۔ میں نے کہا کہ ہم نہیں کہیں گے۔ علیم کہنے لگا کہ تم یوسفی صاحب سے اِس بارے میں کہو۔ میں نے کہا کہ یار کیسے کہوں۔ مجھے شرم آتی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ یوسفی صاحب بہت اچھے آدمی ہیں وہ بات مان جائیں گے۔ میں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے ۔ تو وہ کہنے لگا کہ اچھا تم میرے ساتھ چلو۔ تو میں اور علیم گئے اور بہت خوش ہوئے یوسفی صاحب۔ اس زمانے میں وہ کراچی پورٹس کے سامنے رہتے تھے۔ وہیں ان کا دفتر تھا اور وہ وہاں کے تین بڑوں میں سے ایک تھے۔ بڑے اختیارات تھے ان کے پاس۔ مجھے ان کا عہدہ تو اب یاد نہیں بعد میں تو پھر نمبر ون ہو گئے وہ۔ اب علیم گیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ بولو، میں شرمندہ سا ہو رہا تھا، انہوں نے دیکھ لیا کہ علیم مجھے کہنی مار کے اشارہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا بات ہے؟ علیم تمہارا تو مسئلہ نہیں لگ رہا، اسد سے کیا کہہ رہے ہو تم؟ علیم نے کہا کہ اس سے پوچھئے، اس کے بھائی کا کچھ مسئلہ ہے۔ مجھے پھرسب کچھ کہنا پڑا۔ تو کہنے لگے کہ کہاں ہے وہ؟ میں نے کہا کہ بھائی توکیفے میں بیٹھا ہوا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ کیفے میں کیوں بیٹھا ہوا ہے تم اسے لے کر کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا کہ بلا لیں گے، علیم نے کہا کہ میں لاتا ہوں اس کو۔ انہوں نے کہا علیم تم بیٹھو اور اپنے کسی آدمی سے کہا کہ کیفے میں اس حلیے کا ایک نوجوان بیٹھا ہوا ہے جس کا نام یہ ہے اسے بلا لاؤ۔ وہ آیا تو انہوں نے اس کو چائے پلائی اور پھر ایک سوال کیا اس سے۔ کہ میاں تمہارا بینکنگ میں تجربہ پہلے تو نہیں ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ چلو اب ہو جائے گا کل تم صبح 9 بجے آجانا یہاں، کل سے تمہاری ٹریننگ شروع ہو رہی ہے، اب چائے تم نے پی لی ہے، تم جاؤ گھر، تیاری کرو، کل آ جاؤ۔

سوال: تو ان کا ایکسیڈنٹ آپ بتا رہے تھے، وہ کیسے ہوا؟

اسد محمد خاں: اس کی پوسٹنگ حیدر آباد ہو گئی تھی۔ وہ سینئر بینکر ہو گیا تھا۔ اور اس کو انہوں نے ریکوری کا بھی کام سونپا تھا، ان قرضوں کے لیے جو لوگ لے لیتے تھے اور بہت دیر لگاتے تھے، وہ بہت کنوینسنگ تھا، اپنی بات دلیل کے ساتھ اور بڑے میٹھے انداز کے ساتھ کہتا تھا۔ پٹھان پن نہیں تھا اس میں۔ جھگڑالو یا غصے والا نہیں تھا۔ غصہ اسے آتا ہو گا لیکن میرے سامنے یا اپنے کسٹمرز کے سامنے وہ بالکل نارمل رہتا تھا۔ دو تین بڑے کیسز تھے جنہیں اس نے ٹیلی فون پر آمادہ کر لیا تھا کہ میں آپ کے پاس حاضر ہو رہا ہوں آپ لوگ اس طرح کر کے قرض واپس کر دیں ۔ وہ ٹرین سے گیا، اپنی بیوی سے وہ کہہ گیا، مجھ سے اور اپنی بھابھی سے بھی وہ کہہ گیا تھا کہ میں ٹرین سے جاتا ہوں اور ٹرین سے واپس آتا ہوں آپ پریشان نہ ہوں اس میں سفر محفوظ ہے۔ بس غلطی یہ ہوئی کہ واپسی میں ٹرین میں شاید تین ساڑھے تین گھنٹے باقی تھے اور بس تیار کھڑی تھی ۔ وہ بس میں بیٹھ گیا۔ دس میل دور چل کے حادثہ ہوا اور چار آدمی ہلاک ہو گئے۔ دو پٹھان سگے بھائی تھے اور تیسرا یہ بھی پٹھان تھا۔ اس کی جیب سے شناختی کارڈ ملا تو انہوں نے دیکھ کر کہا کہ یہ بھی ہمارا بھائی ہے، کراچی میں اس کا گھر ہمارے گھر کے قریب ہے، ہم اطلاع کر دیں گے۔ بڑے کلچرڈ انداز میں وہ آئے ۔ خود ان پر قیامت گزر چکی تھی لیکن انہوں نے آکر اطلاع دی کہ صاحب ایک حادثہ آپ کے ساتھ ہوا ہے، ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے تو آپ کے بھائی کا یہ کارڈ ہے۔ تو ہم گئے اور ان کی ڈیڈ باڈی لے آئے اور وہیں تدفین ہوئی۔

(جاری ہے)

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain