اسد محمد خاں سے باتیں (دوسری قسط)


 سوال: آپ کا بچپن بھوپال میں گزرا، کچھ بتائیے وہاں کے واقعات، کیا اقدار تھیں، کیا لوگ تھے؟

اسد محمد خاں: ہمارے دادا کی ٹھیک ٹھاک جاگیر تھی لیکن وہ دربار کے پروٹوکول کے قائل نہیں تھے۔ ان سے کچھ غلطی ہو گئی اور اس کے بعد ان سے جاگیر واپس لے لی گئی اور وہ پھر سے کسان ہو گئے ،ٹھیکے پر کاشت کاری کرتے تھے، ان کو اٹھارہ برس کی عمر میں جاگیر ملی تھی جو واپس لے لی گئی۔ پھر انہوں نے بٹیا( سرائیکی لفظ مستاجری اس لفظ کے مفہوم سے قریب تر ہے۔ راقم ) پر زمین کاشت کرنا شروع کر دی کیونکہ ریاست نے تین نسلوں کے بعد ان سے زمین واپس لے لی تھی۔ انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ ہم دیکھتے تھے کہ وہ کسانوں کی طرح سخت محنت سے کام کرتے تھے۔ وہ بہت ہی فعال شخص آدمی تھے اور حقیقی معنوں میں کسان تھے۔ کسانوں کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ ا ن کی باتیں سنتے تھے۔ ایک خاص بات ہم نے نوٹ کی بھوپال میں بھی، اور وہاں زمینوں پر بھی۔ زمینوں پر تو ہم زیادہ نہیں گئے کیونکہ ہم بہت چھوٹے تھے۔ لیکن زمینوں پروہاں ، کسان سارے بیٹھتے تھے فرش پر ،داداکے کسان فرش پر نہیں بیٹھتے تھے۔ سٹول، بینچ وغیرہ انہوں نے رکھے ہوئے تھے ۔اگر کوئی نیا آدمی آتا تھا اور نیچے بیٹھنے کی کوشش کرتا تھا تو وہ اسے ڈانٹ کے کہتے تھے کہ جا چلا جا یہاں سے۔ پھر لوگ اسے سمجھاتے تھے کہ انہیں برا لگتا ہے تم نیچے نہ بیٹھو، یہاں بیٹھ جاؤ جہاں سب بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہ ان کا مزاج تھا۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ پورا ماحول وہاں جاگیرداروں کا تھا اور جاگیرداروں کے ہاں جو ہوتا ہے، مجرے وغیرہ ،میرے دادا کے ہاں ایسا کوئی تماشا نہیں ہوتا تھا۔ فارسی کی کتابیں تھیں ان کے پاس جس میں سے وہ صوفیاکا کلام پڑھتے رہتے تھے اور انہوں نے اپنی ساری زندگی ایک کسان کی طرح گزاری جتنی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔یہ ہم میں بھی آیا اور والد جو تھے وہ کانگرسی تھے، اور ہندوستان چھوڑ دو (کوئٹ انڈیا )تحریک میں کافی سرگرم رہے تھے اور ایسا بھی ہوا کہ ایک مرتبہ نوکری بھی خطرے میں پڑ گئی تھی حالانکہ اس زمانے میں ابھی نئی نئی ان کی تقرری ہوئی تھی لیکن ریاست تھی اس لیے لوگوں نے کچھ زیادہ ان کے ساتھ نہیں کیا۔ تو یہ بات کہ اپنی بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے، اُنہیں سے سیکھی۔ اگر آپ کے ہاں کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے اور آپ کے ملک پر کوئی قابض ہے تو اس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے۔ بعد میں وہ مسلم لیگی ہو گئے تھے، وہاں کے مراٹھوں کے رویے سے۔ کیونکہ ریاست گوالیار بھی مراٹھوں کی ریاست تھی۔ وہاں شدت پسندی جناح صاحب نے بھی محسوس کی تھی جس پر خود گاندھی پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ ان شدت پسند لوگوں ہی نے پاکستان بنوایا۔ اس طرح ہماری تربیت ہوئی۔

سوال: ایک سوال اور تھوڑا اس تناظر سے ہٹ کر، کہ ساقی فاروقی نے آپ کا ذکر اپنی آپ بیتی میں کیا اور بڑے مزے کے انداز میں کیا۔ کچھ ان سے متعلق آپ یادیں شیئر کرنا چاہیں گے جو ان سے رہ گئیں۔ کیونکہ میرے خیال میں یہ بہت اچھا اضافہ ہو گا ۔

اسد محمد خاں: ساقی سے میری برہمی چند برس رہی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے جو خودنوشت اپنی لکھی ہے وہ انہوں نے کہا تھا کہ تم اس کی پروف ریڈنگ کرو اور اس کے بارے میں جو تم کہو گے میں وہی کروں گا۔ تو میں نے اس سے کہا کہ پروف ریڈنگ میں نے کر لی ہے ، اس کی نگرانی بھی کر لی ہے ۔ یہ سب ٹھیک ہے۔ 18 صفحات فلاں صفحے سے لے کر فلاں صفحے تک یہ آپ نکال دیجئے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس میں جو باتیں بیان کی گئی تھیں وہ مناسب نہیں تھیں۔ نام تو چھپائے تھے انہوں نے ، لیکن وہ لوگ فوت ہو چکے ہیں۔ساقی وہ آدمی ہے کہ جس نے میری پہلی نظمیں سنیں اور اس نے کہا کہ تمہارے ہاں نظم کا جو شعور ہے وہ کمال ہے ، تو اس نے کہا کہ تین دن کے بعد ہم پھر ملیں گے اسی ہوٹل میں اور اگر مزید کوئی نظم نہیں آئی تو میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ یہ اس کی محبت کا ایک انداز تھا، جھگڑے وہ کرتا رہتا تھا۔ وہ واحد آدمی ہے جس نے کہا کہ تم شروع کرو۔ پہلی نظمیں جب میں نے اس کو سنائیں تو وہ تو کھل اٹھا اور اس نے کہا ارے بسم اللہ بہت ہی کمال بات ہے یہ۔ اور وہ نظم پھر چھاپی بنگلور کے ایک بہت ہی بڑے ادبی پرچے نے۔ جس کا دفتر ایک نو منزلہ بلڈنگ میں تھا۔ جس پر اس نے ریڈیو پر دھوم مچا دی کہ جاؤ ڈھونڈ کے لاؤ ایسی نظمیں کہنے والا اور لفظوں کو برتنے والا لاؤ دوسرا، اور باقاعدہ جھگڑا کیا اس بات پر لوگوں سے۔ میں نے اسے کہا کہ یہ تو کیا کر رہا ہے تو کہنے لگا کہ فلاں صاحب نے تمہاری نظموں پر اعتراض کیا تھا تو میں اس کی طبیعت صاف کرنے گیا تھا۔ شدت تو اس کے ہاں تب بھی موجود تھی اور محبت بھی وہ کرتا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس سے تعلقات اس لیے منقطع کر دیے کہ وہ خط لکھتے وقت ابے تبے جیسے الفاظ استعمال کرتا تھا۔ شمس الرحمن نے کہا تھا کہ آپ خط نہ لکھا کریں تو اس نے کہا کہ میں تو لکھتا رہوں گا، آپ اس کو ایک نظر دیکھ کر کاٹ دیا کریں۔ یہ سب تماشے کرتا رہتا تھا۔ میں نے بھی اس کو دھمکیاں دیں اور اس کا واحد خط جو میں نے چھپنے کو دیا تھا گلزار صاحب نکالتے ہیں راولپنڈی سے ایک پرچہ ، گلزار صاحب نے اس پرچے میں جس کا میں نام بھول رہا ہوں بہت لمبا انٹرویو چھاپا تھا۔ سب کے انٹرویوز آئے ہیں اس میں ۔ تو اس میں وہ خط چھاپا اور تقریباً26 ٗ 27 شخصیات کے چھپے ، اسد الرحمن سے لے کر نیئر مسعود تک۔ تو ساقی کا خط بھی انہوں نے چھاپا۔میری دھمکیوں کے بعد اس نے خط میں ایسی زبان لکھنا چھوڑ دی۔ تو یہ جو کرائسِس پیدا ہوا وہ ان اٹھارہ صفحوں کا تھا جو میں نے کہا تھا کہ یہ نکال دو گے تو ٹھیک رہے گا جو اس نے نہیں نکالے اور مبین مرزا کو اس نے دھمکیاں دیں اور کہا کہ یہ پراجیکٹ میں ختم کر دوں گا کیونکہ رائٹر تو میں ہوں۔ تو اسد کو میں منا لوں گاان صفحات کے لیے۔ کئی برس ہو گئے ، تقریباً آٹھ برس میں نے اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی جو بہنیں تھیں وہ میری بھی بہنیں ہیں ۔ ان کی بہن نے کہا کہ قاضی سعید صاحب بیمار ہیں، بھائی فلاں دن ان کے ہاں جائیں گے ، آپ بھی اس دن وہاں آجائیں، تو میں نے اس سے کہا کہ بیٹا ان کی وکالت مت کرو۔ وہ کہنے لگیں کہ میں کروں گی کیونکہ میں بہن ہوں۔ اور آپ کو بھی کرنی چاہیے ان کی وکالت، غصہ چھوڑ دیجئے۔ میں نے کہا کہ اچھا چھوڑ دیا چلو جاؤ بس ختم کرو۔اس کو میں نے تسلی دی اور وہ خوش ہو گئی۔ لیکن بات بنی نہیں۔ بات خود ہی ایسے بنی کہ مبین نے مجھ سے کہا ساقی بیمار ہے ، اور ایسی خبریں آ رہی ہیں کہ وہ خودکشی کرنا چاہتا ہے بلکہ اس نے بھی یہ کہا ہے کہ وہ خودکشی کر لے گا۔ میں نے کہا کہ وہ کہتا ہے لیکن کرے گا نہیں۔ انشاء اللہ وہ فطری موت مرے گا جب بھی اس نے مرنا ہے پچاس، ساٹھ ، ستر سال کے بعد۔ پھر مجھے خیال آیا کہ غصے کی ایک حد ہوتی ہے میں 80 کراس کر چکا ہوں۔ ساقی مجھ سے تین چار سال چھوٹا ہے۔ اب وہ 80 کی طرف آرہا ہے۔ تین سال میں ہو جائے گا 80 کا۔ اگرچہ وہ شراب نہیں چھوڑ رہا ، سموکنگ چھوڑ دی ہے اس نے۔ تو پھر میں نے اس سے کہا اب یہ دو مضامین ہیں ساقی کے سلسلے کے یہ تم چھاپو ، مبین سے میں نے کہا۔ وہ چھاپ رہے ہیں ۔اس کی کتاب پر میں نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس کی ڈکٹیٹرانہ محبت، چاہت جو وہ کرتا ہے دوستوں سے اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ اب جورسالہ آئے گا یہ سب اس میں چھپے گا۔ فراز صاحب سے بہت ناراض تھا ایک زمانے میں ، اس پر میں نے اس سے کہاکہ فراز صاحب کی ایک ڈومین الگ ہے اور تمہارا طریقہ کار الگ ہے ، تم الجھن کیوں محسوس کر رہے ہو، وہ کہنے لگا کہ یہ نظم یا اردو نظم کے ٹھیکیدار نہیں ہیں۔ یہ کوئی سپریم کورٹ نہیں ہے کہ جہاں جو آپ بولیں وہی ہو گا۔ تو آپ یہ چھوڑیے محبت کرنے والے ہندوستان، پاکستان اور برطانیہ اور پوری دنیا میں بہت ہیں ۔ آپ کو شوق سے وہ پڑھتے ہیں یہ آپ چھوڑیں۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔ فراز کا اپنا کنٹری بیوشن ہے اس کا نہ کوئی مٹا سکتا ہے ۔ اور فراز میں اب بہت تبدیلی آگئی تھی آخری دنوں میں۔ اب ان میں ایک وضع داری تھی ۔

سوال: انتظار صاحب، نیئر مسعود صاحب ،فاروقی صاحب، موجودہ فکشن کے بڑے اور محترم نام، کوئی تقابل نہیں، لیکن ان میں سے کس کے اُسلوب نے آپ کو متاثر کیا؟

اسد محمد خاں: صاحب نیئر مسعود میرے استاد ہیں۔ انہیں ایک روحانی استاد کہوں گا میں۔ ان کا اپنا ایک سٹائل ہے اور میں نے شایدچند ماہ پہلے اس سے لکھنا شروع کیا تھا۔ ان کی چھ آٹھ کہانیوں کو ، نہ صرف اردو کی بلکہ عالمی ادب کی بڑی کہانیوں میں شمار کرتا ہوں۔ اور وہ کرافٹ جس طرح کا کرتے ہیں تو میں نے خط انہیں جو لکھے ہیں بے شمار، تو ان کا جواب اجمل(کمال) کو انہوں نے پکڑایا تھا وہ اجمل نے سنبھال کے رکھا ہے شاید کہیں چھپوایا بھی ہے یا نہیں ۔ نیئرصاحب نے کہا ۔ یہ کون صاحب ہیں میں تو ان کا فین ہوں ، اور یہ باتیں جو ہیں، یہ اگر اسد صاحب کر رہے ہیں تو نیئر مسعود کوئی اور شخص ہوں گے جن کی یہ تعریف کر رہے ہیں۔ تومیں بہت حیران ہو ں کہ اس طرح کی محبت کی باتیں انہوں نے کی تھیں۔ کہنے لگے کہ اصل میں تو میں ان کا فین ہوں یہ تو بعد کی خبر ہے وہ میرے فین ہو گئے۔ تو میں طے شدہ طور پر ان کو اردو کا اہم افسانہ نگار سمجھتا ہوں۔

سوال: وہ جو چھ سات افسانے تھے ، ان میں سے کسی ایک آدھ کے نام اگر آپ کے ذہن میں ہوں؟

 اسد محمد خاں: میری یادداشت کمزور ہے ، میں بعد میں آ پ کو فون پر بتا دوں گا۔ اجمل نے جو چھاپے ہیں افسانے ان میں سے کم از کم چھ سات افسانے ایسے ہیں کہ وہ اردو کی آبرو ہیں۔

سوال: انہوں نے کافکا کا بھی ترجمہ کیا، اس میں وہ اثر نہیں تھا، متاثر نہیں کر سکے اس میں ، کیا کہیے گا؟

اسد محمد خاں: دیکھئے۔ نیئر مسعود جب لکھتے ہیں اپنا تو بس وہ نظر آتا ہے۔ بعض لوگ ان کو کافکا ئی رائٹرکہتے ہیں۔ کافکا کا طریق کار دوسرا تھا۔ وہ آپ کو بغیر کچھ کہے لے جاتا تھا مسٹری میں، اور اب بھی لے جاتا ہے ،جب اسے پڑھیے ۔ اس کے پرت آپ کو خود کھولنا پڑتے تھے۔ نیئر مسعود کا کرافٹ اتنا کمال کا ہے کہ بہت معمولی سے اشاروں میں وہ کہانی آپ کو دے دیتے ہیں۔ کافکا تو بعض اوقات کھلتا ہی نہیں ہے۔ نیئر مسعود صاحب تو اپنی روح کا احوال بیان کرتے ہیں۔ کافکا اپنے ذہن کی کیفیات بیان کرتا ہے۔وہ بہت بڑے رائٹر ہیں۔ انتظار صاحب جس وقت لکھ رہے تھے اور ان کی جو بے مثال کہانیاں ہیں زرد کتا، وہ ہماری تربیت کا زمانہ تھا۔ جس شوق سے ہم اس وقت پڑھتے تھے اسی شوق سے ہم اب بھی پڑھتے ہیں۔ حالانکہ انہیں ایڈیشن کرنے کا مزید اضافہ کرنے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے انہیں جو کرنا تھا وہ کر چکے۔ ان کا ایک مقام ہے۔ استادوں کی طرح میں ان کی طرف نظر کرتا ہوں۔ کل پرسوں بھی وہ مجھے نظر آئے تھے اور اسلام آباد میں ایک کانفرنس تھی پتہ نہیں ، چھ مہینے پہلے یا کب پتہ نہیں تو چھڑی دیکھ کر میں نے ان سے کہا تھا کہ نہیں آپ یہ چھڑی رکھئے۔ تو میری اور دوسرے دوستوں کی ضد پر انہوں نے کہا کہ اچھا بھئی لاؤ۔ تو میں نے کہا کہ دیکھئے اب آپ کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔اب میں نے دیکھا کہ وہ ذرا سا سٹاپ کرتے ہیں تو اس سے سہارا مل جاتا ہے۔ اب ماشااللہ 90 کے قریب ہیں وہ۔

سوال : یہ فرمائیے گا کہ سب رنگ اور دوسرے رسالوں کے لیے آپ نے جو کچھ لکھا، اس میں کچھ فرق تھا؟

اسد محمد خاں: میں نے سب رنگ اور دوسرے رسالوں کے لیے جو کام کیا ۔ سب رنگ کا مسئلہ تو بالکل الگ تھا کہ جون (ایلیا) کے دوست ہیں بھائی شکیل۔ اور اطہر نفیس لے گئے تھے مجھے کہ بھائی شکیل کے ہاں تم چلو اور سب رنگ کے لیے لکھنا شروع کرو۔ سب رنگ کے لیے میں نے دوسرے یعنی کمرشل رائٹنگ کے مقابلے میں بہت الگ ہو کر لکھا ۔ اس لیے کہ بھائی شکیل کہانی کو سمجھتے بھی ہیں اور خاص طور پر ادب میں اس شعبے کو وہ بڑے اچھے سمجھنے والے ہیں۔ تو مجھے ان کے ہاں لکھ کر مزہ آیا لیکن سب رنگ کی چیزوں کو۔ جیسے کہ اور رسالوں کے لیے بھی میں نے لکھا۔تو اُن کہانیوں میں سے اپنے مطلب کا حصہ لے کر میں نے اس کونئی کہانی میں ڈھال دیا۔ فرض کیا ایک پیراگراف میں نے وہاں سے لیا اور اس کی ایک کہانی بنا لی۔ تو وہ اپنی جگہ پر ہے وہ ایک ایسے قاری کے لیے لکھا ہوا تھا جس کو ہم ایک خاص سطح تک لا سکتے تھے(سب رنگ کا قاری) اور اپنی اس دنیا میں لے جا سکتے تھے کہ جہاں سے دلوں اور دماغوں کو روشن کرنے والے فکشن شروع ہوتی ہے۔ عام رسالوں میں ایک سادہ بیانیے کے ساتھ ایک عام کہانی پسند کرنے والے قاری کے لیے میں نے لکھا۔زیادہ میں اس میں علامتوں میں تو گیا ہی نہیں اور ایک آسان بیانیہ کے ساتھ میں نے وہ کہانیاں لکھیں جس میں اندرون کا احوال تو تھا لیکن بہت زیادہ دو تین پرت جو ایک کہانی میں رکھتا ہوں میں ، وہ نہ تھا۔ مثلاً، سیلو ن ، میری ایک کہانی ہے جس میں بظاہر یہ لگتا ہے کہ ایک لڑکا ہے جس کی پرورش ہوئی ہے کوٹھے پر اور وہاں وہ ایک لکڑی کی ٹال کے مالک جو استاد ہدایت اللہ بہاولپوری کے نام سے مشہور ہیں اور ان کے مسائل دیکھتا ہے کہ وہ کسی گانے بجانے والی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ دیکھ لیتے ہیں تو وہ گالیاں دیتے ہیں۔ اور پھر ایک روحانی ٹرانسفرمیشن ان میں آئی ۔یعنی ایک عجیب بات ہے کہ ان کا مرشد جو ہے وہ نوجوان آدمی ہے اور وہ ایک سیلون چلاتا ہے ہیئر کٹنگ سیلون۔ اور جو ان سے فیض پانا چاہتے ہیں وہ کٹنگ سیکھ کر ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور پھر فیض حاصل کر کے ان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اور وہ صاحب سیلون کوٹھوں کے محلے میں یعنی گانے بجانے والیوں کے محلے میں کھولتے ہیں اور جاتے آتے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں ۔ جو وہاں سے شب بسری کے بعد واپس آر ہا ہو تا ہے اس کو وہ مل مل کے نہلاتے ہیں ۔ ایک عجیب طرح کا۔ اور اندر کی صفائی کا کام خود بخود ہوتا جاتا ہے تبلیغ کے بغیر۔ جارج نام کا ایک عیسائی بہت پرانا طوائف باز ہے ۔ وہ بھگا دیا جاتا ہے اور طرح طرح کے مسائل سے گزرتا ہے اور کورٹ کچہری کی طرف بھگا دیا جاتاہے تو اس کو اٹھا کے اپنے سیلون میں لے جاتے ہیں ۔ اور پھر وہاں وہ دکھاتے ہیں ایک 72 برس کی ناچنے والی کو۔ جسے گھنٹیا ہے جس کے کھانے کی کوئی سبیل نہیں ہے اور جو کوٹھے کے دلال اور گانے ناچنے والیاں شب بسری کے لیے اپنا کلب کھولے ہوئے ٹائپ کی عورتیں ، آٹھ آنے دیتے ہیں جس سے وہ سروائیو کر رہی ہیں اور زندہ ہیں۔ وہ اگر نہ دیں تو وہ عورت مر جائے۔ وہی کیئر کرتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جب وہ گزر رہی ہوتی ہیں تو وہ مرشد جو پینتیس چالیس برس کے ہوں گے ،معاف کرتے ہیں ہدایت اللہ کو کہ ہدایت اللہ تم اب تو یہاں آکر ہاتھ باندھے کھڑے ہو۔ تو ٹھیک ہے یہ تمہارے شاگردوں نے تحفے میں سیب بھیجے ہیں تو میں پوچھ رہا تھا اس بچے سے کہ کیا یہ حلال کی کمائی کے سیب ہیں۔ تو ہدایت اللہ کیا یہ حلال کی کمائی کے سیب ہیں ، اگر حلال کے ہیں تو میری ماں جا رہی ہے اسے یہ سیب دے دو۔تو کس سطح پر انہوں نے اس کی تربیت کی۔ اس کو کون سپورٹ کر رہی ہیں وہی گانے بجانے والیاں۔ تمہاری طرف تو گھس نہیں سکتیں کیونکہ ناچتی ہیں۔ یہ کہا نہیں انہوں نے یہ Between the Lines ہے۔ انہوں نے بس یہ کہا کہ وہ میری ماں جا رہی ہیں یہ سیب انہیں دے دو۔ اور وہ خاتون وہی ہے جو ان کی کمائی پہ پلتی ہے۔ اور وہ خود بھی یہی کام کرتی تھیں ، ناچتی تھیں۔ تو وہ اسے سر پر ٹوکری کو رکھ کے لے جاتے ہیں ہدایت اللہ اور اماں ، اماں کہہ کر پکارتے ہیں تو وہ خاتون رکتی ہیں کیونکہ کوئی اسے اماں اماں کہہ کر نہیں پکارتا تو وہ دیکھتے ہیں حیران ہو کر تو وہ رکتی ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ اماں تمہارے لیے یہ سیب لایا ہوں۔ وہ کہتی ہیں میرے لیے تو کہتے ہیں ہاں۔ اور جب وہ لے لیتی ہیں تو قلندروں کی طرح ایک ہاتھ اٹھا کر ناچتے ہیں اور پھر اس کے بعد ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمیں نہیں بتایا کہ اس ایک عورت کے لیے اور کیا کیا گیا۔ دوسرے جو آتے ہیں تماش بینی کرنے۔ لیکن وہ وہاں چھ آٹھ مہینے رہتے ہیں اور پھر اگلے کوٹھے پر۔ اب وہ آخری منظر یہ ہے استاد جاتے نہیں تھے محلے میں ہدایت اللہ۔ ہدہ واحد پوری جاتے ہیں اور اس ٹال کے لیے سال میں سردیوں میں دو تین ٹھیلے بھر کے پہنچاتے ہیں اور ایک پیسہ بھی نہیں لیتے ۔ وہ کسی اور کے پاس ہے اب سیلون جہاں حمام وغیرہ ہے۔ گویا وہ بھی کچھ چھوڑ گئے اس میں اصلاح کی صورت میں جو ان کے مرشد چھوڑ گئے ہیں۔ تو وہاں کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ یار اللہ بڑا بے پرواہ ہے ۔ پتہ نہیں کب استاد جیسوں کو پھر بھیج دے تب یہ جو جارہے ہیں مجھ جیسے بھٹکے ہوئے ان کو میرا مرشد پھر اٹھا لے اور رستہ دکھائے صحیح جیسے جارج کو اٹھا لیا تھا کچرے میں سے جیسے مجھ برے کو اٹھا لیا تھا۔ تو ایسی کہانیاں کچھ خاص تھیں۔

سوال: انوکھا لاڈلا۔ اس کے پیچھے کیا وارداتِ قلبی تھی۔ بندش تو وہ بہت پرانی تھی؟

اسد محمد خاں: انوکھا لاڈلا میں ، میں نے جو اس کی آٹھویں قسط ہے ، ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی کی، میں لکھتا ہوں۔اس میں سب ہوتے ہیں خط بھی ہیں ، اور کہانی بھی ہے ، گیت بھی ہیں اور تراجم بھی ہیں۔ تو اس میں میں نے یہ لکھا ہے کہ عاشق علی خان کا کہ عاشق علی خان کی کمپوزیشن تھی ، خیال گائیکی کے گانے والے بڑے استاد آدمی تھے وہ۔ انتقال کر گئے بڑے بے مثال آدمی تھے۔ تو ان کی فرمائش تھی کہ دربار ی آ پ لکھیں گے اور ریجنل لائن جو ہے اسے ایسے ہی رہنے دیں گے تبدیل نہیں کریں گے اس کو۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند، یہ اسی طرح رہے گا۔ اب دو ایک دن تو میں کہتا رہا علیم سے کہ بھائی استاد کہہ رہا ہے یہ ۔ میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آرہی یہ تم کرو۔ بھئی میں تو اس پر تنقید شروع کروں گا کہ یہ کیا ہے۔ علیم بھی کہنے لگا ان سے کہ یہ میں کروں گا لیکن انہوں نے کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں ۔وہ ایک گائیک کے اندر کا فیصلہ تھا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے۔ تو وہ میرا گیت انورٹڈ کوماز میں تھا ، جب چھپا تو بیاض میں بھی میں نے انورٹڈ کوماز میں دیا، تاکہ معلوم ہو کہ یہ میرا نہیں ہے ۔ یہ سب سے پہلے گایا تھا بلقیس نے ،واہ واہ کیا گایا تھاانہوں نے محنت سے۔ اور مجھے یاد ہے کہ بلقیس کو عاشق علی نے رلا رلا دیا تھا۔ باقاعدہ سنتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھ کل تونے اچھا گایا تھا ۔لیکن آج آئی ہے تو آج تو نے یہ چیز اس طرح کہی ہے ، کیا تھکی ہوئی ہے یا لڑ کر آئی ہے کسی سے؟ تو وہ کہتی نہیں استاد ایسی کوئی بات نہیں۔ تو عاشق علی کہتے کہ تو ایسا کر کہ آج تو چھٹی کر۔ اور کل اس کو اس طرح سے کر کے بیٹھنا اور رات کو کچھ کم کھانا پینا تاکہ تجھے کچھ تھوڑی سی بھوک بھی ہو۔ اور بارہ بجے کے بعد یا کسی وقت اس کو اس اس طرح سے کہنا ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے محنت کرنے کے بعد اس نے پھر وہ کیا۔ پھر اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا ہاں ہاں اب تو نے ٹھیک کیا ہے۔ چل بھائی ریکارڈنگ شروع کر۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کے بعد ٹینا ثانی نے بھی گایا۔ وہ اچھی آرٹسٹ ہیں، انہوں نے بھی اچھا گایا حالانکہ ایک مصرع بھی انہوں نے بدل دیا ۔ وہ کون سا مصرع تھا۔ پیاس بجھے کب ایک درشن میں، انہوں نے ’پیاس بجھے کب ایک درشن سے‘ کر دیا تھا۔

انہوں نے تو ایک مصرع بدلا ۔ مہدی حسن نے تو پورا شعر ڈال دیا تھا فرازصاحب کی غزل میں ۔ٹینا اچھی پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ ٹینا جب تم دوبارہ ریکارڈنگ کراؤ تو اس کو ٹھیک کر لینا۔ دل بولے رکھ لوں نینن میں ، کیونکہ میں جو ہے وہ تو ایک طرح سے ردیف ہے اور اسی طرح چل رہا ہے ۔ میں نے اس کو بتایا کہ درشن ایک پورا عمل ہے ، درشن سے ، صرف ایک دفعہ دیکھنے سے نہیں ہے یہ۔ ایک درشن میں ، ایک درپن میں ، اس کیفیت میں دل کچھ کہہ رہا ہے۔ یعنی کہ یہ ٹائم فیکٹر بگڑ گیا اس سے مصرعے کا۔ سمجھ گئی وہ اور کہا کہ میں سمجھ گئی ہوں۔ لیکن بہرحال ان کی ریکارڈنگ اسی طرح ہے تبدیل نہیں کی۔ اگر کبھی دوبارہ ریکارڈنگ ہوئی ہو تو کیا پتہ انہوں نے بدل دیا ہو۔ کیا پتہ ہے ۔یہ گرامو فون کمپنی والے جب ایک دفعہ ریکارڈنگ کر لیتے ہیں کیونکہ اس وقت گانے والا ایک پراسیس میں ہوتا ہے ، اور اس وقت ریکارڈنگ میں کمپنی کا کافی پیسہ انویسٹ ہوتا ہے تووہ کہتے تو ہیں کہ ہا ں جی کر لیں گے لیکن کرتے نہیں ہیں ریکارڈ ۔ ابھی تک تو مجھے یہی معلوم ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain