صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے سے تحریکِ کشمیر پر کیا اثرات؟


بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مسلح رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے ’خصوصی طور نامزد عالمی دہشت گرد‘ قرار دینے سے کشمیر میں جاری ہند مخالف تحریک پر تین اہم اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

1۔ کشمیری عسکریت گلوبلائز ہوسکتی ہے

حزب المجاہدین، جس کے دیرینہ سربراہ صلاح الدین ہی ہیں، کشمیریوں کی مقامی مسلح تنظیم ہے۔ حزب نے 27 سال کے دوران کبھی کسی عالمی ایجنڈا کا ذکر نہیں کیا۔ یہ تنظیم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کا انعقاد چاہتی رہی ہے اور اس نے اکثر اوقات القاعدہ اور دولت اسلامیہ کی لہر سے اعلاناً فاصلہ بنائے رکھا۔

گذشتہ چند برس سے بعض کشمیری مظاہرین دولت اسلامیہ یا داعش کا پرچم لہرانے لگے تو صلاح الدین نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ داعش نوازی کی لہر سے دُور رہیں۔ اس موقف کی وجہ سے کشمیرمیں سرگرم حزب المجاہدین کے بعض کمانڈر صلاح الدین سے ناراض بھی ہوئے۔

فی الوقت حزب کے معروف کمانڈر ذاکر موسی تو حزب سے اسی بات پر ناراض ہیں کہ کشمیر کی تحریک سیاسی نہیں، اسلامی ہے، اور مزاحمتی مظاہروں میں پاکستانی نہیں اسلامی پرچم لہرانا زیادہ مناسب ہے۔

صلاح الدین کو عالمی دہشت قرار دیے جانے کے بعد کشمیری عسکریت پسند لوکل ایجنڈے کی افادیت پر سوال اُٹھائیں گے اور کشمیری مسلح مزاحمت کو شام اور افغانستان میں جاری مسلح مزاحمت کے خطوط پر اُستوار کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح کشمیر کی مسلح تحریک ،جس کا ابھی تک کردار بھی مقامی ایجنڈا بھی مقامی، اب ایک گلوبلائزڈ جہادی نیٹ ورک کا حصہ بننے میں ہی عافیت سمجھے گی۔

2۔ حکومت ہند کو شورش دبانے کی چھوٹ ملے گی

ظاہر ہے کشمیر میں مسلح شورش کو دبانے کی کاروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی پامالیاں ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ اور یورپ کے اداروں نے انڈیا کی نکتہ چینی بھی کی ہے۔ کیونکہ کشمیر کی مسلح مزاحمت کا کردار مقامی تھا اور لہجہ قانونی۔ سب سے پرانی اور بڑی مسلح تنظیم کے سربراہ کو جب عالمی سطح کا مطلوب دہشت قرار دیا جاتا ہے تو انڈیا کی انسدادی کارروائیوں کو دہشت گردی کے خلاف دنیا بھر میں جاری جنگ کا ہی ضمنی مرحلہ سمجھا جائے گا۔ اس طرح ایک طرف مسلح گروپ ’عالمی جہاد‘ کے نام پر سرگرم ہوں گے، اور دوسری طرف انڈین کارروائی کو عالمی جواز حاصل ہوگا۔

واضح رہے گذشتہ دنوں فوج کے سابق ایک کمانڈر وجے اوبرائے نے مسلح گروپوں کے ٹھکانوں اور ان کی حمایتی بستیوں پر فضائی بمباری کی تجویز پیش کی تھی۔ ابھی تک ایسا اس لیے نہیں ہو رہا تھا کہ عالمی ادارے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھیں گے، کیونکہ حزب المجاہدین نہ صرف اقوام متحدہ اور امریکہ کا وجود تسلیم کرتی ہے بلکہ ان ہی سے رائے شماری کے انعقاد کی خاطر مداخلت کی اپیل کرتی رہی ہے۔

لیکن جب حزب المجاہدین ہی طالبان یا القاعدہ اور داعش کے ہم پلہ قرار پائے گی تو ایسی کاروائیوں کے لیے حکومت ہند کے پاس سفارتی اور قانونی جواز پیدا ہوجائے گا۔

3۔ حریت کانفرنس کی مشکلیں

علیحدگی پسندوں کے اتحاد حریت کانفرنس کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ وہ مسلہ کشمیر کا ’پُرامن‘ حل چاہتی ہے۔ لیکن عوامی سطح پر وہ عسکریت پسندوں کی ’شہادت‘ کو تحریک کا عظیم سرمایہ قرار دیتی ہے اور تصادموں میں ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کے جنازوں میں حریت کے رہنما شرکت کرتے ہیں۔ اس طرح حریت کانفرنس کو یہاں کی مسلح تحریک کے ساتھ ایک ’آرگینک‘ رشتہ رہا ہے۔ لیکن امریکی دفتر خارجہ کے اعلان سے اب حریت بھی محتاط رویہ کے لیے مجبور ہوجائے گی۔

ان تین فوری نتائج کے باوجود بعض حلقے کہتے ہیں کہ صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد فہرست میں شامل کرنا انڈین وزیراعظم کے لیے ٹرمپ کی ’ٹوکن رعایت‘ ہوسکتی ہے جو انھیں دو سے تین ارب ڈالر مالیت تک اسلحہ کی خریداری ڈیل کے عوض دی جائے گی۔

تجزیہ نگار شفاعت فاروق کہتے ہیں: ’انڈیا کو توقع تھی کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے منسوخ کرکے اسلام آباد کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کرے گا، چونکہ ایسا نہیں ہوا، اس لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔

صحافی اشفاق تانترے کہتے ہیں: ’صلاح الدین کو اُس فہرست میں نہیں شامل کیا گیا جہاں پاکستان پر انھیں انڈیا کے سپرد کرنے کی پابندی ہو۔ اور پھر دفتر خارجہ کے بیان میں کشمیر کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کہا گیا ہے جو امریکہ کی طرف سے کشمیر کی متنازع حیثیت تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ محض مودی کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا۔

کچھ حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ کشمیر کی علیحدگی پسند تحریک میں مغرب بیزاری کا عنصر موجود ہی نہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار شیخ ادفر کہتے ہیں: ’کافی کوششیں کی گئیں کہ کشمیر میں امریکہ اور مغرب کے خلاف بیزاری کی لہر پیدا ہو، لیکن کشمیری جانتے ہیں کہ وہ اپنی فریاد لے کر مغرب کا ہی دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ لیکن اس اعلان کے بعد ہوسکتا ہے کہ ایک نیااور خطرناک تحریکی بیانیہ سامنے آئے۔

(ریاض مسرور)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32489 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp