شمالی علاقوں میں سفر کے متعلق چند مشورے


اگر آپ شمالی علاقوں کی طرف جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں اور آپ کی منزل ناران، گلگت، ہنزہ یا سکردو وغیرہ ہے تو آپ کے لئے حیرت اور خوبصورتی کا ایک جہان وہاں منتظر ہے۔ سب سے آسان طریقہ تو یہ ہوتا ہے کہ لاہور یا اسلام آباد سے ہی ایک ویگن یا فور وہیل گاڑی کرائے پر لے لیں۔ ٹویوٹا ہائی ایس آپ کو پانچ سے چھے ہزار روزانہ کے کرائے پر مل جاتی ہے جس میں ایندھن ڈلوانا آپ کی ذمہ داری ہو گی۔

اس میں واحد قباحت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کو کوئی ایسا ڈرائیور مل جائے جو نازک خیالی میں میر تقی میر کی ٹکر کا ہو۔ میر نے تو زبان خراب ہونے کے ڈر سے ایک طویل سفر میں ہمسفر سے عذر کر کے بات کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ یہ میر کے پیروکار ڈرائیور حضرات ٹور کو آپ کی مرضی سے چلانے کی بجائے اپنی مرضی سے چلا سکتے ہیں یا پھر اپنی نازک مزاجی کی وجہ سے ان کے مزاج خراب رہتے ہیں اور اس سے لڑنے جھگڑنے میں آپ کا ٹور خراب ہو سکتا ہے۔ اچھا ڈرائیور مل جائے تو یہ طریقہ بہتر ہے۔ شمالی علاقوں میں جانے والے یہ ڈرائیور آپ کے ٹور گائیڈ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی گاڑی میں مال اسباب اور بال بچہ بھریں اور گاڑی پر جھولے لعل کا سٹکر لگا کر نکل جائیں۔ اس میں آپ ٹور کو اپنی مرضی سے چلا سکتے ہیں۔ جہاں جی چاہے رکیں جہاں جی چاہے چل پڑیں۔ ایک معمولی سا مسئلہ یہ ہو سکتا ہے کہ بیشتر شہری ڈرائیور پہاڑی علاقوں میں گاڑی چلانے کے اصولوں اور علاقے سے ناواقف ہونے کے سبب مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔

پہاڑی سڑکوں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب اترائی آئے تو کوشش کریں کہ بار بار بریکیں استعمال مت کریں۔ اس سے بریکیں گرم ہو کر فیل ہو سکتی ہیں۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اترائی زیادہ ہونے کی صورت میں گاڑی پہلے گئیر میں چلائیں۔ گاڑی کے آر پی ایم چار پانچ ہزار پر پہنچ جائیں گے اور وہ خوب شور مچائے گی۔ پروا مت کریں۔ پھر بھی زیادہ رفتار ہو تو گاہے بگاہے بریک کو دبا کر رفتار کو کم کریں۔ یہ مشورہ آپ کی جان بچانے کا سبب بن سکتا ہے۔ پریکٹس کے لئے آپ موٹر وے پر کلر کہار کی اترائی کو استعمال کر سکتے ہیں۔ کلر کہار میں کرولا وغیرہ دوسرے گئیر میں ٹھیک چلتی ہیں اور بعض جگہ پر پہلے گئیر میں۔

یاد رکھیں کہ یہ سڑکیں اتنی خطرناک نہیں ہیں جتنی آپ کو سفرنامے بتاتے ہیں یا ویڈیو دیکھ کر آپ کو لگتی ہیں۔ ان سڑکوں پر بس اپنی بریک فیل ہونے سے بچائیں اور یہ بات یقینی بنائیں کہ ڈرائیور کی نیند پوری رہے اور وہ تھکن سے بے حال نہ ہو۔ باقی آپ کو جو کہانیاں ملتی ہیں کہ بہت خوفناک راستہ ہے اور ایک طرف ایک کلومیٹر بلند پہاڑ اور دوسری طرف ایک کلومیٹر نیچے دریا ہے، تو آپ کو گاڑی میں اس سے ڈر نہیں لگے گا بلکہ الٹا آپ اس سفر سے لطف اندوز ہوں گے۔ ان علاقوں میں گاڑی چلانا آسان ہے۔

بارش کے دنوں میں لینڈ سلائیڈنگ سے سڑک بند ہو سکتی ہے لیکن ان علاقوں میں سڑک عام طور پر دو چار گھنٹوں کے اندر اندر صاف کر کے راستہ بنا دیا جاتا ہے۔ قسمت بہت ہی زیادہ خراب ہو تو پھر دوسری بات ہے۔ مسلسل تین چار دن تک بارش ہوتی رہے تو پھر پریشانی ہو سکتی ہے۔ ایسے دنوں میں گاڑی میں اپنے لئے مناسب کھانا پانی ضرور رکھیں تاکہ پریشانی نہ ہو۔

شمال میں جانے کا ارادہ بنے تو سب سے پہلے تو گوگل میپ کے آف لائن موڈ کے نقشے اپنے اپنے موبائل میں ڈاؤنلوڈ کریں۔ یہ آپ کے بہت کام آئیں گے۔ گوگل میپ کا سفر کے وقت کا اندازہ ان سڑکوں پر حقیقت کے بہت قریب ہے جن پر ٹریفک زیادہ چلتی ہے اور انٹرنیٹ کی کوریج موجود ہے۔ قراقرم ہائی وے پر یہ ٹھیک کام کرتا ہے۔ آپ اس سے ہٹ کر سکردو وغیرہ کی طرف جائیں تو یہ آپ کو بتائے گا کہ بس سو کلومیٹر رہ گئے ہیں اور آپ ڈیڑھ گھنٹے میں یہ سفر طے کر لیں گے۔ چھے گھنٹے تک مسلسل آپ کو یہی بتاتا رہے گا کہ بس ڈیڑھ گھنٹے میں آپ کا سفر ختم ہو جائے گا۔ لیکن پھر بھی یہ ایک کام آنے والی شے ہے کیونکہ یہ فاصلے اور سڑکوں کے بارے میں درست بتاتا ہے۔

اپنی گاڑی پر سفر کا فیصلہ کرنے کے بعد اگلا مرحلہ یہ طے کرنا ہے کہ آپ شمالی علاقوں میں کس راستے سے جائیں گے۔ ایک راستہ قراقرم ہائی وے کا ہے جو سارا سال کھلا رہتا ہے۔ اپنی سہولت کے مطابق آپ اس راستے پر لاہور سے جاتے ہوئے آپ اپنا پہلا سٹاپ اسلام آباد یا ایبٹ آباد میں کر سکتے ہیں یا ایک سے زیادہ ڈرائیور ہیں یا آپ جلدی نہیں تھکتے تو آپ بشام میں رات بسر کر سکتے ہیں۔ ایبٹ آباد کے بعد مانسہرہ پر آپ کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ آپ نے شاہراہ قراقرم سے آگے جانا ہے یا ناران اور بابوسر سے ہوتے ہوئے۔ اگر آپ خود کو تکلیف سے بچانا چاہتے ہیں تو کوشش کریں کہ اسلام آباد سے آپ صبح چھے بجے کے قریب نکلیں ورنہ ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں آپ نہایت گندی قسم کی ٹریفک میں پھنس جائیں گے اور وہاں تک کا دو گھنٹے کا سفر آپ چار پانچ گھنٹے میں طے کریں گے۔

بشام کے بعد آپ کا اگلا سٹاپ چلاس ہو گا۔ بشام سے چلاس تک کا سفر نہایت صبر آزما ہے۔ خاص طور پر داسو کے علاقے میں آپ کو بیس کلومیٹر کی رفتار سے نیم پختہ سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے زندگی کی بے ثباتی پر غور کرنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ چلاس سے آپ اپنے پلان کے مطابق سیدھا گلگت یا ہنزہ میں جا کر رک سکتے ہیں۔ ان علاقوں کے فاصلے اور وقت کو جاننے کے لئے گوگل میپ استعمال کریں جو آپ کو اس دن کی ٹریفک کے حساب سے بہت حد تک درست وقت بتائے گا۔

شاہراہ قراقرم کے علاوہ دوسرا راستہ ناران سے ہے جس میں آپ ناران سے ہوتے ہوئے بابوسر ٹاپ سے گزرتے ہیں اور چلاس سے کچھ آگے شاہراہ قراقرم پر نکلتے ہیں۔ یہ راستہ خوبصورت مناظر سے بھی بھرا ہوا ہے اور سڑک نہ صرف بہتر ہے بلکہ بشام والے روٹ کے مقاملے میں کافی مختصر بھی ہے۔ بابو سر ٹاپ عام طور پر جون کے اواخر یا جولائی میں کھلتی ہے۔ اس برس وہ 31 مئی کو فور وہیل کے لئے اور چار پانچ دن بعد کاروں کے لئے کھل گئی تھی۔ آپ صبح سویرے اسلام آباد سے نکل کر ناران میں رات بسر کریں۔ آج کل یہ راستہ قابل ترجیح ہے کیونکہ شاہراہ قراقرم پر تو آپ کبھی بھی سفر کر سکتے ہیں مگر اس خوبصورت راستے پر سفر کرنے کا موقع چند ماہ ہی میسر ہوتا ہے۔

جھل کھڈ کے قریب سڑک سے گزرتا پانی

ناران سے کچھ پہلے آپ دیکھیں گے کہ سڑک پر پہاڑوں سے پانی گر رہا ہے اور بہہ کر دوسرے کنارے پر موجود دریا میں گر رہا ہے۔ آپ نے گاڑی اسی پانی میں سے گزارنی ہے۔ دوپہر دو بجے کے بعد گرمی سے اس پانی کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے اور آپ کو گاڑی اس سے گزارنے میں دقت پیش آ سکتی ہے اس لئے کوشش کریں کہ آپ پانی والے علاقے سے دو بجے سے پہلے پہلے نکل جائیں۔ ورنہ گاڑی تو نکل جائے گی مگر نیچے لگی ہوئی ربڑ کی شیٹ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پانی سے گاڑی کو ہر ممکن حد تک آہستگی سے گزاریں گے تو بچت ہو جائے گی۔ ناران سے تقریباً نو کلومیٹر اور چار کلومیٹر پہلے آپ کو اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ہم ادھر 11 جون 2017 کو کرولا پر گئے تھے تو اسلام آباد سے دس بجے نکلے۔ نتیجہ یہ کہ پہلے ایبٹ آباد پر خوب خوار ہوئے اور جب پانچ بجے کے قریب ناران پہنچے تو یہاں پانی خوب تیز تھا اور سڑک پر ایک قدرے گہرا گڑھا بھی تھا جسے ہزار احتیاط کے باوجود پار کرتے ہوئے پچھلے بمپر کو نقصان پہنچا بیٹھے۔ جیسے ہی پچھلا ٹائر گڑھے میں گیا تو ساتھ ہی پچھلا بمپر پیچھے موجود  اونچی سڑک سے ٹکرا گیا اور اس کے کلپ نکل گئے۔ ان گڑھوں میں بمپر کو تو ایسا ہلکا پھلکا نقصان پہنچتا ہے لیکن اگر آپ ادھر سے گاڑی کو احتیاط سے نہ گزاریں تو آپ کی گاڑی کا چیمبر بھی پتھروں سے ٹکرا سکتا ہے اور نتیجے میں آئل لیکن ہونے سے لمبا نقصان ہو سکتا ہے۔ ناران میں ان علاقوں میں تیس برس سیاحت کا تجربہ رکھنے والے سہیل شاہ صاحب سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ان گڑھوں اور پانی سے اپنی گاڑی کی شیٹ، بمپر اور چیمبر کو نقصان پہنچانے والے شہری سیاح بہت ہوتے ہیں۔

ناران میں رات بسر کرنے کے بعد آپ دس بجے کے قریب وہاں سے نکلیں۔ زیادہ جلدی نکلنے میں یہ قباحت ہے کہ ان علاقوں میں سڑک پر صبح سویرے شفاف برف کی ایک باریک سی تہہ جم سکتی ہے۔ دیکھنے میں یہی لگتا ہے کہ سڑک معمولی سی گیلی ہے۔ آپ نے دسمبر جنوری میں اپنے علاقے میں گھاس پر برف کے ذرات دیکھے ہوں گے جنہیں ہم ’کورا‘ یا ’ککر‘ کہتے ہیں۔ ویسے ہی ذرات ان سرد علاقوں میں سڑک پر جم جاتے ہیں اور ان پر سے گزرتے ہوئے گاڑی آپ کے کنٹرول سے نکل سکتی ہے۔ اس لئے صبح دس بجے کے قریب سفر شروع کرنا بہتر ہے۔

اس کے بعد آپ بابوسر ٹاپ کا رخ کریں گے جسے پار کر کے آپ چار پانچ گھنٹے میں شاہراہ قراقرم پر چلاس سے کچھ آگے نکلیں گے۔ ناران سے آپ سیدھا گلگت جا کر رک سکتے ہیں یا دو گھنٹے مزید آگے جا کر ہنزہ میں۔ چلاس سے تقریباً ایک گھنٹہ آگے جانے کے بعد آپ کو موٹر وے کوالٹی کی دو رویہ سڑک ملے گی جو خنجراب تک آپ کا ساتھ دے گی۔

لیکن پہاڑی سڑکوں سے ناواقف شہری ڈرائیور کے لئے صرف دو قدرے مشکل مقام بابوسر سے پہلے آتے ہیں۔ پہلا تو جھل کھڈ نامی علاقہ ہے جہاں سڑک پر سے پانی گزر رہا ہوتا ہے۔ ادھر سے بارہ ایک بجے تک نکل جائیں تو دقت نہیں ہو گی۔

لولوسر جھیل کے قریب سڑک پر ایک مشکل مقام

اس کے بعد اگلا سخت مقام آتا ہے لولوسر جھیل کے پاس۔ ہم 13 جون اور اس کے بعد 20 جون کو ادھر سے گزرے تھے۔ سڑک پر برف کی بہت اونچے تہہ جمی ہوئی تھی جسے بیچ سے کاٹ کر سات آٹھ فٹ چوڑا راستہ بنایا گیا تھا۔ اس میں ایک طرف تو تقریباً تین فٹ چوڑی سیمنٹ کی سلیب تھی جو بالکل درست حالت میں تھی، جبکہ دوسری طرف اس سے فٹ بھر گہرا راستہ تھا جو بڑے پتھروں اور کئی جگہ فٹ سے بھی زیادہ گہرے کھڈوں سے بھرا ہوا تھا۔ ادھر گاڑیاں پھنس رہی تھیں۔ ہم نے عبرت حاصل کی اور اتر کر ٹائروں کے آگے کچھ پتھر وغیرہ ڈال کر گڑھے میں اترنے سے پہلے گہرائی کم کی اور گاڑی گزاری۔

ہمارے آگے ہی لاہور کی ایک فیملی اپنی چھوٹی گاڑی میں جا رہی تھی۔ وہ بھی نہایت پریشانی میں تھے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ پیچھے سے گلگت کے ”نوید ٹریولز اینڈ ٹورز“ کے عالیان عباس اور ان کے ساتھی اپنی پراڈو میں آ گئے۔ ہم سے اگلی گاڑی کا کنٹرول تو انہوں نے سنبھال لیا اور اسے نکالا۔ ہم نے انہیں یقین دلایا کہ برف کی دیوار سے دو انچ کا فاصلہ رکھ کر گاڑی چلانا ہمارے لئے مشکل نہیں مگر ان کے اصرار پر چپ چاپ گاڑی ان کے حوالے کر دی۔ بابوسر کے آگے تک وہ ان دونوں گاڑیوں کو اپنی نظر میں رکھ کر اور ضرورت پڑنے پر مدد کرتے ہوئے چلاتے رہے۔ گلگت اور ہنزہ کے باشندوں کی یہی خوش اخلاقی اور انسان دوستی تو ہمیں ان کا گرویدہ بنائے ہوئے ہے۔

واپسی میں 20 تاریخ کو ہم تن تنہا آئے۔ سڑک پر بہت کم ٹریفک تھی۔ اس وقت بھی ان دو مقامات پر سڑک خراب تھی گو کہ زیادہ گہرے گڑھے کسی حد تک پر کر دیے گئے تھے مگر اب بھی ایک ٹائر اوپر اور دوسرا نیچے گڑھے میں رکھ کر گاڑی چلانے والا سرکس کرنے کی ضرورت پڑ گئی تھی۔

گلگت کے ”نوید ٹریولز اینڈ ٹورز“ کے عالیان عباس

بابوسر پر اگر آپ ہماری طرح خوش قسمت ہوئے تو آپ کو وہاں جون میں بھی برفباری مل سکتی ہے۔ ٹھنڈے ٹھنڈے نرم گالے فضا سے برس رہے ہوں تو بابوسر پر رکنا تو فرض ہے۔ اس سے آگے ایک ظالم قسم کی اترائی ہے۔ گلگت میں محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست شعیب خرم نے بعد میں بتایا کہ سڑک کے غلط ڈیزائین کے باعث وہاں اترائی کے چوبیس موڑ بنائے گئے ہیں جہاں ایکسیڈنٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ان موڑوں پر اترتے ہوئے آپ گاڑی پہلے گئیر میں رکھیں اور سڑک کی خوبصورتی کے سحر میں مبتلا ہو کر موج میں آ کر تیز گاڑی نہ چلائیں تو مشکل نہیں ہو گی۔ ادھر بھی کئی مقامات پر برف کاٹ کر راستہ بنایا گیا تھا لیکن ویسی مشکل پیش نہیں آئی جیسی لولوسر جھیل پر پیش آئی تھی۔ ان علاقوں میں کار کے نیچے سڑک سے لگنے یا بمپر ٹکرانے کی آواز کے آپ جلد ہی عادی ہو جائیں گے۔

یہ علاقے بے انتہا خوبصورت ہیں۔ ان کے رہائشی ان علاقوں سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔ وہاں آپ جا رہے ہیں تو بس ایک گزارش ہے۔ خدارا ادھر کوڑا مت پھینکیں۔ کھانے پینے کے جو بھرے ہوئے پیکٹ آپ وہاں لے جا رہے ہیں، اپنی گاڑی میں ان کو خالی کرنے کے بعد بھی واپس لانے کا سوچیں اور کسی مناسب جگہ پر کوڑے دان میں پھینکیں۔ ان علاقوں کو خوبصورت رہنے دیں تاکہ آپ سال بسال ادھر جا سکیں۔

نوٹ: یہ حالات جون 2017 کے وسط میں تجربے پر مبنی ہیں۔ وقت اور موسم کے مطابق سڑک کے حالات بدل سکتے ہیں۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar