کھجور کے درخت، کراچی اور فرانز کافکا


پورا راستہ جیسے اجنبیوں سے بھرا ہوا تھا۔

اجنبیوں کی پوری ایک قطار یہاں سے وہاں چلتی چلی جارہی تھی۔

کئی دن کے بعد اس راستے سے گزر ہوا تھا۔ ورنہ پہلے تو میرے لیے گھر جانے کا راستہ یہی تھا۔ پہلے سڑک بہت ٹوٹی ہوئی تھی، پھر اس کو مزید توڑ کر بنایا جانے لگا۔ دونوں صورتوں میں اس قدر رش ہوتا تھا کہ ادھر سے گزرنا ہی چھوڑ دیا۔ اتنے دن نہیں دیکھا تو اس راستے کی چھوٹی بڑی تفصیلات نظروں سے اوجھل ہوگئیں۔ اب ایک دم حیران ہو کر دیکھا کہ نئی سڑک بن گئی ہے، کھمبوں کے ساتھ نیلی ہری بتّیاں سجی ہوئی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حسن اسکوائر سے مُڑتے ہی اردو یونیورسٹی والے فلائی اوور تک ساری سڑک کے ساتھ کھجور کے درخت لگائے جارہے ہیں۔

کھجور کے درخت؟ ایک لمحہ لگا مجھے اندازہ کرنے میں کہ اس سارے منظر میں غیرضروری اور جگہ سے بے جگہ چیز یہی ہیں۔ سڑک کے بننے کا تکلیف دہ عمل ہفتوں، مہینوں گھسٹتا رہا مگر اب بڑی تن دہی کے ساتھ ان درختوں کو یہاں لگانے کا کام جاری ہے۔ سڑک کے بیچ میں ایک ذرا سی برائے نام گرین بیلٹ پر گڑھے کھودے جارہے ہیں، تھالے بن رہے ہیں، درخت لا کر لگائے جا رہے ہیں، پانی ڈالا جارہا ہے، مٹّی بدلی جارہی ہے۔

ان درختوں کو زمین میں اتار دیا گیا ہے مگر ابھی انھوں نے جڑ نہیں پکڑی ہے۔ میرا جی چاہا کہ یونیورسٹی روڈ کی پوری مسافت طے کرتا ہوا جائوں، ایک ایک درخت کو چھو کر دیکھوں، اس کی خیریت دریافت کروں، مگر میں کس سے یہ پوچھوں کہ یہ درخت کہاں سے آئے ہیں اور کس لیے لگائے جارہے ہیں۔ اس تمام کارروائی سے کیا مقصد حاصل ہوگا۔

ایسے کسی معاملے میں شہریوں کی رائے مشورہ لینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ شاید وہ بھی ان درختوں کی طرح ہیں، بے جان نہیں مگر لاچار اور مجبور۔ یہ سب سوچتا ہوا میں سڑک پر چل رہا تھا اور مجھے درخت یاد آ رہے تھے، کھجور کے بہت سے درخت۔

یہ کھجور کے درختوں والا کام ایک مرتبہ ہوچکا ہے اور ہم اس سے کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کھجور کا درخت کیا چیز ہے، ہم کسی بھی بات سے کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مجھے یاد آیا کراچی کے سابق میئر نعمت اللہ کے دور میں شاہراہ فیصل پر یہ درخت لگائے گئے تھے۔ نعمت اللہ صاحب نے بڑی دل سوزی کے ساتھ کراچی کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے چاہے تھے۔ لیکن وہ جو انگریزی والے کہتے ہیں نیک ارادوں والا راستہ کسی اور سمت لے جاتا ہے۔

ممکن ہے نعمت اللہ صاحب نے ان کو کھجور کے درخت کم اور علامت زیادہ سمجھا۔ اسلام کی علامت۔ وہ اسلام جسے سب کراچی کی سڑکوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر ان کا اندازہ ایسا تھا جیسے کراچی کے کسی پرانے باشندے کو شلوار قمیص کی جگہ جبّہ اور عمامہ پہنا کر سڑک پر کھڑا کر دیا ہو۔

اتنی تعداد میں اور اتنی رقم خرچ کرکے کھجور کے درخت لگانے سے بہتر تھا وہ کراچی کا نام بدل دیتے۔ اتنا گاڑھا عربی تشخّص دینے کے لیے اس شہر کا نام کراتشی کردیتے۔ یہ دُبئی تو پھر بھی نہ بننے پاتا۔ خرِ عیسیٰ کی طرح کراچی کا کراچی رہتا۔

کراچی اور کھجور۔ پھر ایک رات میں نے کھجور کے درخت کو پریشان حال دیکھا۔ وہ تنہائی اور بے کسی کی وجہ سے بے حال تھا۔ اس کے آنسو بہہ رہے تھے، درخت کے آنسو۔ ان دنوں میں نے اس پر ایک افسانہ بھی لکھ مارا تھا۔ (اس وقت ’ہم سب‘ جاری نہیں ہوا تھا۔) مجھے اقبال کی وہ نظم ستانے لگی تھی جو اندلس کے پہلے خلیفہ عبدالرحمٰن الداخل سے منسوب کی جاتی ہے کہ اپنے صحن میں لگے ہوئے کھجور کو دیکھ کر وطن کو یاد کرتا تھا۔ میں کس کو یاد کروں؟ اس لیے میں اقبال کے الفاظ دُہرائے جاتا ہوں۔ ایسے تنہائی اور بے آسرا پن کے موقعوں پر مجھے اقبال بہت یاد آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ ایسے ہی موقعوں پر یاد آتے ہیں۔ ایک مرتبہ عبیداللہ علیم نے مجھ سے اپنا احساس بیان کیا تھا کہ اقبال فاصلے اور بلندی سے بات کرتے ہیں۔ تنہائی اور دُکھ کے غم خوار نہیں بنتے۔ اس وقت ان کی بات پر میں نے سرہلا دیا تھا۔ اب ایسے موقعوں پر اقبال بے طرح یاد آتے ہیں، اکثر یاد آتے ہیں۔ جیسے ان کھجور کے درختوں کو دیکھ کر جو دل کا سرور ہیں اور نہ نخلِ طور۔

ذہن میں اُتھل پُتھل سی ہو رہی تھی اور جب کچھ اور سمجھ میں نہ آئے تو شغلِ بے کاراں کے طور پر فیس بک دیکھنے لگتا ہوں۔ یاد آیا ابھی دو ایک دن پہلے کسی نے ایک پوسٹ میں مجھے ٹیگ کیا تھا۔ میں نے فون کھول کر وہ پوسٹ دوبارہ پڑھی۔

اس میں لکھا تھا:

’’یونیورسٹی روڈ کی تعمیر نو میں، یونیورسٹی کے سامنے روڈ کی گرین بیلٹ پر لگے ہرے بھرے درخت کاٹ کر کھجور کے درخت لگادیے گئے اور یہ بیوٹیفیکیشن کے نام پر ہورہا ہے۔

ایک تو کھجور قطعاً سایہ دار نہیں، یہ صحرائی درخت ہے جس کی پتیاں لمبی ڈنڈی نما اور پانی کوبخارات بننے سے روکنے والی اوپری تہہ سے مزین ہیں۔

کھجور کے یہ درخت خیرپور سے لیے گئے۔ یہ وہ درخت ہیں جو باغ کی ترتیب کے بجائے دائیں بائیں ہزار ہا نکلتے ہیں۔ نہ تو جڑ اور نہ ہی تنے میں طاقت بنتی ہے جو پھل تو آجاتا ہے لیکن پختہ نہیں ہوتا۔ یہ عموماً مادہ ہوتے ہیں اور نر درخت کے بغیر سوکھے ہی رہتے ہیں۔

یہ کھجور کا ایک درخت بیس ہزار روپے میں کراچی کے ٹھیکیدار کو مل رہا ہے۔ لگوائی کی اجرت، پچھلے درخت کی کٹائی اور چھ ماہ کی دیکھ بھال کا اوسط ایک لاکھ روپے سے کچھ زیادہ ہے۔ پورے کراچی کی نئی بننے والی روڈز پر کم و بیش بیس ہزار درخت لگیں گے۔ جس کی مالیت دو ارب روپے ہے۔ خیرپور کے جس ایم این اے سے فی پودا بیس ہزار لیا جارہا ہے، اسے بیکار پودوں کے عوض چالیس کروڑ ملیں گے۔ جو ٹھیکیدار اسے لگا رہا ہے اسے بھی چالیس کروڑ بچیں گے۔ بیس بیس کروڑ ان پلانرز اور افسران میں تقسیم ہوں گے جو اس لاجواب تجویز اور اس کی منظوری کے کرتا دھرتا ہیں۔ اوپری سطح پر بھی آٹھ دس کروڑ کا تخمینہ ہے جبکہ اصل اخراجات پچاس ساٹھ کروڑ سے اوپر جا ہی نہیں سکتے چاہے آپ دنیا کے کسی بھی پروجیکٹ پلانر سے اسٹیمیٹ کروا لیں۔ سو کراچی کو روڈ ملے، الیکشن کے کچھ اخراجات نکل آئے اور الیکشن میں ایک کام دکھانے کا بہانہ بھی ہاتھ آ گیا۔

ان درختوں میں پچیس فیصد بھی اگر دو سال چل گئے تو معجزہ ہوگا۔

اب جہاں تک کاربن سائیکل کا تعلق ہے تو پچھلے درختوں کے مقابلے میں نئے درخت صرف آٹھ فیصد کاربن کلیر کریں گے۔ یوں بقایا بانوے فیصد نہ صرف کراچی کے درجہ حرارت میں اضافہ کرے گی بلکہ اس کی زیادتی کمزوری میں بے انتہا اضافہ کرے گی۔

مزید تفصیلات کے لیے بوٹینیکل ڈیپارٹمنٹ کراچی یونیورسٹی سے رابطہ کیا جاسکتا ہے اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے خیرپور چکر لگا لیجیے۔‘‘

میں نہیں جانتا یہ بات کس حد تک دُرست ہے۔ سچ کیا ہے، شاید میں جاننا بھی نہیں چاہتا۔ مگر میرا جی چاہتا ہے کہ کوئی میری بات کو پوری طرح سے جُھٹلائے۔ دلیل دے کر اس کو غلط ثابت کر دے۔

میں اپنی اس بات کے غلط ہونے کو ترجیح دوں گا۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ رات بھر کے بُرے بھلے خوابوں کے بعد ایک صبح میری آنکھ کُھلے تو میں کھجور کے درخت میں تبدیل ہو چکا ہوں۔

کھجور، کراچی، کا فکا، کایا کلپ… ایک ہی سلسلے کے نام ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).