انسداد دہشت گردی میں ناکامی کیوں؟


 بہت زیادہ بلند بانگ دعوﺅں اور دل خوش کردینے والی مبالغہ آمیز پراپیگنڈہ فلموں اور اشتہارات کے فوری بعد ایک بار پھر دہشت گرد حملے شروع ہوچکے ہیں۔ہر قسم کی ملکی قیادت کے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں اور سرکاری طور پر جاری کی جانے والی ’حوصلہ افزا‘ خبریں بھی خاصی بے جان نظر آنے لگی ہیں۔ہم اپنی پوری یادداشت مجتمع کرکے اور نتھنے پھلا کر پوری قوت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی کی نسبت اب ہمیں کم دہشت گرد حملوں کا سامنا ہے لیکن ہم اس سے آگے ایک لفظ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کیوں کہ حملے تو یقینی طور پر تعداد میں کم ہوگئے ہیں لیکن اِن کی ہلاکت خیزی میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔اب صرف یہ ہوا ہے کہ صرف دو عام سے دہشت گرد حملوں میں سو کے قریب لوگ مارے جاتے ہیں،سرکاری آنکھ سے دیکھا جائے تو حملے تو محض دو ہیں لیکن ہلاک شدگان کی تعداد پچاس نفوس فی حملہ کے قریب ہے۔

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت میں سب سے محفوظ بنائے گئے علاقے میں صوبے بھر میں امن و امان قائم رکھنے کے کلیدی ذمہ دار کے دفتر پر دہشت گرد نہایت آسانی کے ساتھ مہلک حملہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔درجنوں افراد ہلاک ہوجاتے ہیں اور وفاقی حکومت کی طرف سے اِن تمام دہشت گرد حملوں کے کلی سدباب کے لیے ایک یوٹیوب مارکہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے جس کو ملک بھر کے ناظرین کوشش کرکے سمجھ پاتے ہیں کہ اس اشتہار کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس مذہبی تعلیمی ادارے یا درس کے بارے میں نہیں جانتے اُس کو برائے مہربانی چندہ وغیرہ نہ دیں کیوں کہ آپ کا دیا ہوا چندہ کسی دہشت گرد گروہ کے ہاتھ مضبوط بنا سکتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ اگر عوام چاہتے ہیں کہ مزید دہشت گرد حملے نہ ہوں اور نہ ہی دہشت گرد اس قدر وسائل اکٹھے کرسکیں جو اِنہیں بم بنانے یا مہلک اسلحہ خریدنے میں معاون ہوں تو وہ نیکٹا کے جاری کردہ اشتہار کو دیکھنے کے بعد چندے سے ہاتھ روک لیں۔ انتظامی ادارے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے کیوں کہ ابھی تک ہماری وزارت داخلہ یہ طے نہیں کرسکی کہ اصل دہشت گرد کون ہیں اور کیا ایسے پُرامن فرقہ پرستوں کو دہشت گردوں کی ذیل میں شمار کیا جاسکتا ہے جو دوسرے مسلک کی نسلی تطہیر میں پوری طرح چوکس اور مصروف ہیں۔

اُمید ہے جب تک عظیم وزارت داخلہ اس مخمصے سے باہر نکلے گی فرقہ پرست قاتلوں کو اپنا شکار تلاش کرنے میں اس قدر دقت کا سامنا ہوگا کہ پھر فرقہ وارانہ قتل وغارت ہوگی ہی نہیں اور اِنہیں آسانی کے ساتھ دہشت گردوں سے الگ قرار دیا جاسکے گا۔ دہشت گردی اور فرقہ واریت کے ہاتھوں تیزی کے ساتھ زیر ہوتے ہوئے ملک کے طور پاکستان کا سب سے گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر ذمہ داری قبول کرنے کا شدید فقدان ہے،ملک میں امن اومان قائم رکھنے کے لیے تیار کیے گئے انتظامی ڈھانچے کے تمام اہم ذمہ داران پوری قوت کے ساتھ وسائل حاصل کرتے ہیں،تنخواہوں سے لے کر بے تحاشہ مراعات تک اِنہیں مکمل رسائی حاصل ہوتی ہے ،جس میں کسی قسم کی تاخیر یا کمی اِنہیں ایک لمحے کے لیے قبول نہیں ہوتی۔دستیاب معلومات کی روشنی میں دیکھا جائے تو داخلی اُمور کے تمام ذمہ داران اپنی ذاتی اور اپنے خاندان سمیت عزیز و اقارب کی بلٹ پروف حفاظت سے لے کر گھروں کی حفاظت تک کے بارے میں خاصے فکر مند رہتے ہیں لیکن جب ان سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ بھاری وسائل کے حصول کے بعد اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں (جو وہ اکثر و بیشتر نہیں نبھاتے)تو اس موقع پر ایسے عذر پیش کیے جاتے ہیں کہ سب زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے تقریباً تمام بڑے انتظامی عہدیدار اپنے اپنے زیرانتظام محکموں اور علاقوں میں جدید اطلاعات کا نظام ہی متعارف نہیں کرواسکے، جس کی مدد سے دہشت گردوں کی نقل و حمل کا جائزہ لیا جاسکے۔پولیس ابھی تک بوسیدہ مخبر نظام کی اسیر ہے جس کی فراہم کردہ اطلاعات کی دوسرے ذرائع سے تصدیق تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس ہمیشہ ’ردعمل‘ کے طور پر کسی کارروائی کا حصہ بنتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی واقعے کے بعد اس کو احساس ہوتا ہے یا اوپری سطح سے در آنے والے محکمانہ دباﺅ کے بعد پولیس حرکت میں آتی ہے اور جب تک ردعمل کے زیراثر ہونے والی اس کی کارروائی شروع ہوتی ہے نہ صرف بہت سے شواہد ختم ہوجاتے ہیں بلکہ کئی دوسری رکاوٹیں بھی اس دوران حائل ہوجاتی ہیں۔زیادہ شدید اندرونی ردعمل کے بعد فوری پولیس مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ کارکردگی کو بحال رکھا جاسکے، لیکن جعلی پولیس مقابلے سوائے مزید اُلجھنیں کھڑی کرنے کے کسی مثبت صورت حال کی ضمانت نہیں۔

ہمارے ہاں اکثر وبیشتر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے بیرونی دباﺅ کے زیراثر بہتر نتائج دینے میں ناکام ہیں، لیکن یہ اصل صورت حال کے جائزے کے لیے ایک بہت کمزور نقطہ ہے۔اصل میں ہمارے ہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں جدیدپیشہ ورانہ مہارت کے فروغ اور استعمال کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے یہ ادارے جدید دور کی پیچیدہ ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔دہشت گردی کی روک تھام کے لیے درکار جدید طور طریقوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے مطلوبہ اہلیت کا نہ ہونا ایک بہت اہم عنصر ہے ،جس کی طرف بدقسمتی سے توجہ نہیں دی گئی۔یہ ایک حیران کن امر ہے کہ انتہائی مطلوب دہشت گردوں کے بارے میں مکمل تفصیلات کا فقدان ہے جب کہ دہشت گردوں کے پاس قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہم عہدیداروں کی مکمل تفصیلات پائی جاتی ہیں۔ہمارے سامنے ایسے لاتعداد واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد حساس اداروں اور تنصیبات کی اندرتک خبر رکھتے تھے جن کی بنیاد پر وہ ریاست کو نقصان پہنچانے کے قابل ہوئے جب کہ دہشت گردوں کے بارے میں کہیں بہت بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ماضی میں کس قسم کی کارروائیوں میں ملوث رہے تھے۔

بنیادی طور پر کھلی آنکھوں سے ہوشیاری کے ساتھ لڑی جانے والی اس جنگ میں ہم اکثر و بیشتر بند دماغ ثابت ہوئے ہیں۔اربوں روپے کے فنڈز کے ساتھ بنائے جانے والے وفاقی ادارے نیکٹا کی اس حوالے سے کارکردگی ایک چشم کشا حقیقت ہے۔نیکٹا اپنے پورے وسائل اور ملک کے بہترین قرار دئیے گئے سرکاری اذہان کی موجودگی میں گذشتہ چار برسوں میں دہشت گرد تنظیموں کی چند فہرستیں، نیکٹا قواعد، رجسٹرڈ مدارس کی عام سی تفصیل،انسداد دہشت گردی کے قانون کی دستاویز،بین الاقوامی معاہدہ جات کی ایک فہرست، دوہزار ایک سے دوہزار سولہ تک کے اہم واقعات (یہ فہرست سینکڑوں مرتبہ قومی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوچکی ہے) کی فہرست جیسی محض 12عدد پی ڈی ایف فارمیٹ فائلوں کی ویب سائٹ پر اشاعت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کے کسی بھی انسداد دہشت گردی کے ذمہ دار ادارے کے پاس دہشت گردوں کی مطبوعات کی کوئی تفصیل نہیں جس سے کم از کم یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ ملک میں کتنے دہشت و فرقہ پرست گروہ متحرک ہیں، اُن کا نقطہ نظر کیا ہے؟ اُن کے مالی معاونت حاصل کرنے کے ذرائع کیا ہیں؟کون لوگ اُن کے ساتھ شامل ہیں، دہشت گردوں اور فرقہ پرستوں کو کن مخصوص علاقوں سے افرادی قوت حاصل ہوتی ہے؟ دہشت گردوں کے ماضی میں کس قسم کے روابط ملک کے اندر اور باہر موجود تھے اور آج اِن روابط کی کیا صورت حال ہے؟ مالی معاونت کے کون کون سے ذرائع دہشت گردوں کے استعمال میں ہیں اور اِن کو کس طرح مسدود کیا جاسکتا ہے؟ اس قسم کے لاتعداد سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب دینے والا کوئی نہیں جب کہ ملک حالت جنگ میں ہے اور کئی اقسام کے آپریشن چل رہے ہیں، بظاہر دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ جب چاہتے ہیں ریاست کی کمر میں چھرا گھونپ دیتے ہیں۔

یہ ایک ایسی اذیت ناک صورت حال ہے جس کا کوئی مدوا نہیں اور نہ ہی ریاست کے داخلی اُمور کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی میں ایسی کوئی جھلک نظر آتی ہے جس سے عام لوگوں کا حوصلہ بلند ہوسکے۔دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے انتہائی ناگزیز عنصر اِن کے نیٹ ورک توڑنا ہے جس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں جدید پیشہ وارانہ مہارت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔بصورت دیگر اسی طرح قومی سطح پر کئی زبردست ناموں والے انسداد دہشت گردی کے آپریشن چلتے رہیں گے اور دوسری طرف دہشت گرد پوری قوت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).