تارکین وطن کے خلاف ٹرمپ کی قانونی کامیابی


امریکہ کی سپریم کورٹ نے چھ ملکوں کے باشندوں کے امریکہ داخلہ پر عارضی پابندی اور شام کے پناہ گزینوں کی آمد روکنے کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم پر عملدرآمد کے لئے جزوی حکم جاری کیا ہے۔ اس صدارتی حکم کے تحت مارچ میں چھ مسلمان آبادی کے ملکوں کے باشندوں پر امریکہ داخلہ پر پابندی لگائی گئی تھی۔ تاہم امریکہ کی متعدد ریاستوں میں نچلی عدالتوں اور اپیل کورٹس نے اس حکم پر عملدرآمد روک دیا تھا۔ وہائٹ ہاؤس نے ان احکامات کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کی سماعت کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملہ کے تمام پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تاہم فوری طور پر سپریم کورٹ نے ایک تقسیم شدہ حکم میں صدر ٹرمپ کی اس درخواست کو قبول کرلیا ہے کہ حتمی فیصلہ ہونے تک صدارتی حکم کے خلاف نچلی عدالتوں کی پابندی کو معطل کردیا جائے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ میں اگرچہ صدر ٹرمپ کے حکم پر جزوی طور پر عمل کرنے کا حق دیا گیا ہے لیکن وہائٹ ہاؤس اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسے اپنی مکمل کامیابی قرار دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس طرح ملک کی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ سامنے آیا ہے۔ دراصل سپریم کورٹ کے اس حکم سے مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرتی ٹرمپ حکومت کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہؤا ہے اور وہ اسے اپنی بڑی قانونی اور سیاسی فتح قرار دینے کی پوری کوشش کرے گی۔ سپریم کورٹ نے صدارتی حکم پر عملدرآمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان غیر ملکیوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا جن کا امریکہ میں رہنے والے کسی شخص یا ادارے سے تعلق ہو۔ حکم کے اس حصہ پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وضاحت کے لئے عدالتوں میں ایک نئی قانونی جنگ شروع ہوگی اور صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اپنی خواہش کے مطابق چھ ملکوں کے باشندوں کا امریکہ میں داخلہ بند کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ تاہم سپریم کورٹ کا یہ حکم بلاشبہ صدر ٹرمپ کے لئے غیر متوقع سیاسی کامیابی ثابت ہوگا۔ انہیں اس صدارتی حکم پر عمل درآمد کے علاوہ، میکسیکو کے ساتھ دیوار بنانے اور اوباما کیئر نام کے ہیلتھ انشورنس قانون کی منسوخی کے لئے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ اس لئے سپریم کورٹ کا حکم اس مشکل سیاسی ماحول میں ان کے لئے امید کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوگا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس لئے انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد ابتدائی دنوں میں جو صدارتی احکامات جاری کئے تھے ان میں سات ملکوں کے باشندوں پر پابندی لگانے کا حکم بھی شامل تھا۔ اس حکم کی وجہ سے امریکہ کے متعدد ایئر پورٹس پر غیر یقینی کی کیفیت اور بحرانی صورت حال دیکھنے میں آئی تھی۔ امیگریشن حکام نے صدارتی حکم کا حوالہ دیتے ہوئے ان لوگوں کو بھی امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا جن کے پاس گرین کارڈ تھے یا جو باقاعدہ ویزا لینے کے بعد امریکہ آرہے تھے اور یہ حکم جاری ہونے سے پہلے ہی اپنا سفر شروع کر چکے تھے۔ لیکن جلد ہی عدالتوں نے اس صدارتی حکم کو معطل کردیا اور مسلمان ملکوں سے آنے والوں کو وقتی سہولت حاصل ہو گئی۔ ملک بھر میں صدارتی حکم کے خلاف شدید مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے تھے۔

اس عدالتی ہزیمت پر صدر ٹرمپ بہت جز بز ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اس فیصلہ کو قومی سلامتی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں جبکہ عدالتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ یہ حکم ایک خاص عقیدہ کے لوگوں کے خلاف جاری کیا گیا ہے، اس لئے یہ امریکی آئین اور مساوی حق کے اصول سے متصادم ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ کی حکومت اپنی ضد پر قائم رہی اور اعلان کیا گیا کہ جلد ہی نیا حکم جاری کیا جائے گا جس کا مقصد وہی ہوگا لیکن اس میں عدالتی حکم سے بچنے کی کوشش کی جائے گی۔

مارچ میں صدر ٹرمپ نے وہ حکم جاری کیا جس پر اب سپریم کورٹ نے جزوی طور سے عمل کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس حکم میں عراق کا نام شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے تحت ایران، لیبیا، صومالیہ ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں پر تین ماہ کے لئے امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگادی گئی تھی۔ لیکن عدالتوں نے جلد ہی اس حکم پر بھی عملدرآمد روک دیا تھا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس قانونی جنگ کو سپریم کورٹ تک لے جائیں گے۔ اب وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گئے ہیں اور سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر غور کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے صدارتی حکم پر جزوی طور سے عمل کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

اس کے باوجود اس سوال پر ابھی قانونی اور سیاسی جنگ کا آغاز ہؤا ہے۔ امریکہ کو آزادی اور مساوات کی علامت سمجھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے حکم سے امریکہ کی شناخت مجروح ہوگی ۔ اس کے علاوہ چند ملکوں یا ایک خاص عقیدہ کے لوگوں کے خلاف اقدام کرتے ہوئے کسی ملک کی سلامتی کو بہتر تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران دونوں طرف سے ٹھوس دلائل سامنے لائے جائیں گے۔ لیکن فی الوقت صدر ٹرمپ یہ کہہ کر اپنی انا کو تسکین دے سکتے ہیں کہ انہوں نے مخالفانہ رائے رکھنے والوں کو سپریم کورٹ کی مدد سے شکست دے دی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali