میرے مولانا کے فرموداتِ عالیہ


تمام دوست و بہی خواہ واقف ہیں کہ ممتاز عالمِ دین و دنیا حضرت مولانا فضل الرحمان ہمیشہ سے میرے آئیڈیل ہیں۔ لاکھوں مداحوں کی طرح یہ ناچیز بھی مولانا کے فرمودات و افکار سے حسب ِ ضرورت غائبانہ رہنمائی حاصل کرتا رہتا ہے۔ دینی و دنیاوی معاملات کس طرح مسلسل متوازن رکھے جائیں؟ اس کا ادراک مولانا کے روبرو زانوئے تلمذ تہہ کیے بغیر مشکل ہے۔ حالانکہ اس وقت خیبر پختون خوا میدانِ جنگ بنا ہوا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کب کہاں سے، کون کیسے حملہ آور ہوجائے۔ اس کے باوجود میرے مولانا کی جرات اور خود اعتمادی دیکھئے کہ پشاور میں جہاں ان دنوں کارنر میٹنگ تک محال ہے، انھوں نے ایک عوامی جمِ غفیر سے خطاب کیا اور کسی کا بال بیکا نہ ہوا۔

خطیبِ بے بدل نے اپنے خطاب میں مغربی سازشوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کے خیبر پختونخوا میں مغربی تہذیب کے نمایندوں کی حکومت ہے تاکہ پشتون روایات اور تہذیب کو ختم کیا جائے۔ یہ امریکی و یہودی ایجنٹوں کی حکومت بظاہر انھی کے خلاف نعرے لگا کے درپردہ انھی کے ایجنڈے کی تکمیل کررہی ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ ایسے نعرے لائے جارہے ہیں جو گڑ کی طرح میٹھے مگر بباطن زہر ہیں۔ صوبائی حکومت کبھی ڈرون حملوں کے خلاف نعرے لگاتی ہے تو کبھی نیٹو سپلائی روکتی ہے۔ مگر ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ نعرے وہ لگاؤ جو عوام میں مقبول ہوں لیکن درپردہ مغربی ایجنڈہ عوام پر مسلط کرو۔

ہو سکتا ہے آپ میں سے بہت سوں کو حضرت مولانا کے خیالات و مشاہدات سے اتفاق نہ ہو لیکن ناچیز کی ناچیز رائے میں مغربی تہذیب کی چالاکیوں سے جس طرح مولانا واقف ہیں شاید ہی کوئی یورپی و امریکی بھی واقف ہو۔ حال ہی میں کسی حاسد نے آپ کی ایک تصویر یہود و امریکا کی ایجاد کردہ فیس بک پر شایع کی جس میں آپ قالین پر تکیے کے سہارے نیم فراش ہیں اور آپ کے تین سعادت مند شاگرد مٹھی چاپی کررہے ہیں اور آپ کے سامنے گھڑے اور کٹورے کے بجائے ایک مغربی کمپنی کے منرل واٹر کی تین چھوٹی خالی بوتلیں پڑی ہیں۔ اس تصویر کی تفسیر ناچیز کے نزدیک یہ ہے کہ جب تک کوئی کسی مغربی کمپنی کا پانی نہیں پئے گا، اسے کیسے معلوم ہوگا کہ اس پانی میں کیسی کیسی علتیں پوشیدہ ہیں اور وہ دوسروں کو ان علتوں کی بابت بتائے گا کیونکر؟

میرے مولانا یہود و ہنود کے سازشی عزائم سے باخبر اور اپ ٹو ڈیٹ رہنے کے لیے کبھی کبھار امریکی و یورپی سفارتکاروں سے بھی ملاقات کرتے ہیں اور مغربی سفارت کار اکثر آپ کے عزائم کی ٹوہ لینے کے لیے آپ سے ملتے ہیں۔ مگر میرے زیرک مولانا ان مغربیوں کا ذہن پڑھنے کے لیے اکثر باتوں باتوں میں ایسا دھوبی پٹکہ لگاتے ہیں کہ سامنے والا چاروں شانے چت ہوجاتا ہے۔ جیسے آپ نے ایک سابق خاتون امریکی سفیر سے ایک مرتبہ مذاق مذاق میں پوچھ لیا کہ اگر میں وزیرِ اعظم بن جاؤں تو کیسا رہے گا؟ وہ سفیر اتنی کند ذہن نکلیں کہ انھوں نے اس شگفتگی کو سنجیدگی سے لے لیا اور اس ملاقات کی رپورٹ امریکی محکمہ خارجہ کو اپنے تبصرے کے ساتھ بھیج دی کہ مولانا وزیرِ اعظم بننے کے لیے ہماری مدد چاہتے ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ رپورٹ وکی لیکس کے چھچوروں کے ہاتھ لگ گئی۔ اب کون ان بے وقوفوں سے پوچھے کہ جس درویشِ خدامست کی ایک دنیا دیوانی ہے کیا وہ وزیرِ اعظم بننے کے لیے ان ٹچے امریکیوں کی مدد کا محتاج ہے؟

مولانا کے اس فرمودے سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ خیبر پختون خوا کی حکومت بظاہر ناٹو سپلائی میں رخنہ ڈال کے اور ڈرون حملوں کی مخالفت کے نعرے لگانے کے پردے میں امریکی یہودی ایجنڈے کی ہی تکمیل کررہی ہے۔ اب آپ یہ دیکھئے کہ مولانا یہ سازش آج نہیں بلکہ دو ہزار دو میں ہی بھانپ گئے تھے۔ چنانچہ مولانا کی رہنمائی میں متحدہ مجلسِ عمل کی اکرم خان درانی حکومت نے اس سازش کا حصہ بننے سے صریحاً انکار کردیا اور اپنے پانچ برس کے دورِ اقتدار میں ناٹو سپلائی بند کرنے یا ڈرون حملوں کے خلاف دھرنوں میں وقت ضایع کرنے اور سستی شہرت حاصل کرنے کے بجائے اپنی توجہ کماحقہہ خیبر پختون خوا کے عوام کی اخلاقی و مادی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردی۔ آپ کے پانچ سالہ دورِ بابرکات میں صحت و تعلیم کی سہولتیں گھر گھر پہنچانے کے منصوبوں پر عمل درآمد ہوا۔ جرائم کی بڑی حد تک بیخ کنی ہوئی۔ بے روزگاری کا گراف انتہائی نیچے آگیا۔ پختون ثقافت و روایات کا احیا ہوا اور معاشرے کو عریانی و فحاشی سے بچانے کے لیے نہ صرف میوزک اور فلموں کا حرام کاروبار کرنے والوں کی گوشمالی شروع ہوئی بلکہ مسافر بسوں میں میوزک بجانے پر پابندی کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اور تو اور فحش ثقافتی پروگراموں کے گڑھ نشتر ہال پر بھی تالے لگ گئے تاکہ نہ رہے بانس نا بجے بانسری اور لوگ ان مکروہات کے بجائے کائنات میں اشرف المخلوقات کے مقام و منصب پر غوروفکر میں اپنا دل یکسوئی سے لگائیں۔

ظاہر ہے یہود و نصاریٰ کو یہ بات کیسے ہضم ہوسکتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں ایک سازش کے تحت متحدہ مجلسِ عمل میں نفاق ڈلوا کر اسے ہروا دیا۔ دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات سے پہلے بھی میرے مولانا نے نہایت دردمندی کے ساتھ متحدہ مجلسِ عمل کو فعال بنانے کی کوشش کی لیکن اوروں کا کیا گلا کریں خود جماعتِ اسلامی یہود و نصاریٰ کے جال میں پھنس گئی اور اس نے مولانا کی اخلاص مندی پر لبیک کہنے کے بجائے مغربی ایجنڈے کی پروردہ تحریکِ انصاف کا ہاتھ تھامنے کا موقع پرستانہ فیصلہ کرلیا۔ میرے مولانا نے تب بھی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور حزبِ اختلاف میں بیٹھنے اور عوام کو مغربی سازشوں سے خبردار کرتے رہنے کا راستہ اختیار کیے رکھا۔

آج حالت یہ ہے کہ اکرم درانی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں وہ خیبر پختون خوا جو دینی و دنیاوی ترقی کے اوجِ ثریا پر پہنچ گیا تھا، ایک بار پھر پسماندگی کے تحت الثریٰ میں گر چکا ہے اور ہر کوئی ایم ایم اے کے سنہری دور کو یاد کرتا پھر رہا ہے کہ جس میں ڈیرہ اسمعیل خان سے چترال تک مسافر سونا اچھالتا جاتا تھا اور کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا اور آج یہ حالت ہے کہ سونا جائے بھاڑ میں خود مسافر ہی ثابت و سالم منزل تک پہنچ جائے تو بڑی بات ہے۔

شاید اسی زبوں حالی کے تناظر میں آپ نے پشاور کے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ آج صوبے میں این جی اوز کی حکومت ہے۔ اسلام آباد سے این جی اوز کی خواتین جینز پہن کر اس صوبے میں آتی ہیں اور منصوبوں کی فائلیں تیار کرتی ہیں۔

ہمارے خیال میں اب تو ان ووٹروں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جنہوں نے مولانا کے کتابی نشان کے مقابلے میں چکاچوند کو پسند کیا اور نیند میں چلتے چلتے تحریکِ انصاف کے بلے پر ٹھپہ لگا دیا اور آج یہ حالت ہے جس کی جانب مولانا دردمندانہ اشارے کررہے ہیں۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ اعتراض آخر کس بات پر ہے؟ کیا خواتین جینز نا پہنیں یا جینز بھی نہ پہنیں؟ اور یہ کہ سیاسی جماعتیں بھی تو این جی اوز ( نان گورنمنٹل آرگنائزیشن ) ہی ہیں جیسے جمیعت علمائے اسلام وغیرہ۔ اس طرح کے چھچھورے اور کج سوالات پر محض کفِ افسوس ہی ملا جاسکتا ہے۔

یہ نادان میرے مولانا کی بصیرت دیکھ ہی نہیں سکتے۔ کئی برس پہلے مولانا نے ببانگِ دہل عورت کی حکمرانی کو حرام قرار دیا تھا۔ لیکن جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے مغربی لباس و سوچ سے تائب ہونے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے میرے مولانا نے ہی آگے بڑھ کر نہ صرف محترمہ کی ماہیتِ قلب کا پرجوش خیرمقدم کیا بلکہ محترمہ کی تالیفِ قلب کے لیے حکومت میں شامل ہونا، خارجہ پالیسی کا قبلہ درست کرنے کے لیے اس بابت قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سربراہی اور کشمیر کمیٹی کی چیرمین شپ تک منظور فرمائی۔ اگر این جی اوز کی جینز زدہ خواتین بھی تائب ہونا چاہیں تو مولانا کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ یہ خواتین تائب ہونا ہی نہیں چاہتیں۔ حالانکہ عقل مند عورت کو اشارہ کافی ہے۔

اور اب تو بات جینز سے بھی آگے نکلی جارہی ہے۔ خیبرپختون خوا حکومت نے مسائل پر سے توجہ ہٹانے کی خاطر اب کرکٹ ٹیلنٹ ہنٹ کا ریکٹ شروع کردیا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کرکٹ کی جنم بھومی برطانیہ ہے اور یہ کھیل تیسری دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کے نوجوانوں کو راستے سے بھٹکانے کی گہری سازش ہے۔ اگر اس کھیل میں واقعی مسلم دنیا کے لیے کوئی فلاح ہوتی تو پچاس سے زائد مسلمان ممالک میں سے صرف پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان ہی کیوں کرکٹ کھیل رہے ہوتے۔ امید ہے حضرت مولانا اپنے اگلے خطاب میں اس پر بھی روشنی ڈالیں گے تاکہ کرکٹ کے نام پر گمراہی کے سدِباب کی بھی سبیل ہوسکے۔

 28 جنوری 2014


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).