ایک لزبیئن خط ۔۔۔ اردو کا خط انگریزی کے نام


پیاری انگریزی!

میں ایک طویل عرصے سے کوشش کر رہی تھی کہ اپنے دلی جذبات کا اظہار کروں لیکن میری مشرقی شرم و حیا آڑے آتی رہی۔ میری تم سے کئی دفعہ تنہائی میں ملاقات بھی ہوئی اور کئی دفعہ تم نے مجھ سے حالِ دل بھی پوچھا لیکن جب بھی اظہارِ محبت کا موقع آیا میری زبان یا تو لڑکھڑا گئی یا اس میں لکنت پیدا ہو گئی۔ میرے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔ بقول منیرؔ نیازی

            مجھے تم سے محبت ہے

                        بس اتنی بات کہنے کو

                                    لگے بارہ برس مجھ کو

بات دراصل یہ ہے کہ جب بھی تم میرے حسن کی تعریف کرتی ہو اور میری محبوبانہ ادائوں کو سراہتی ہو تو مجھے اپنی کم سنی کا احساس ہوتا ہے اور یہ بھی خیال آتا ہے کہ شاید تم یہ سمجھو کہ میں ناتجربہ کار ہوں لیکن ایسی بات نہیں ہے۔ میں تمہارے عشق سے پہلے عربی اور فارسی کی زلف کی اسیر ہو چکی ہوں۔فرق یہ ہے کہ چونکہ ان دونوں کا تعلق بھی مشرق سے تھا اس لیے ہم ایک دوسرے کے اشارے کنایے سمجھتے تھے اور ہم ایسی زبان میں اپنے شوق کی داستان سناتے تھے کہ دوسرے کو ہمارے جذبات کی شدت کا اندازہ نہ ہو۔ شاید اسی لیے میں بہت اچھی شاعری کر لیتی ہوں کیونکہ تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال میں مجھے ملکہ حاصل ہے۔اگر تم میری زبان سمجھ پاتی تو میں تمہاری شان میں غزلیں لکھتی لیکن مجھے اندازہ ہے کہ تمہیں شاعری کی نسبت سائنس سے زیادہ لگائو ہے اور تم زندگی کو حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھنے‘ سوچنے اور بیان کرنے میں مہارت رکھتی ہو۔میں ابھی تک جوانی کے رومانوی ماحول میں زندگی گزارتی ہوں اور حقیقتوں کی بہ نسبت خوابوں کو زیادہ پسند کرتی ہوں۔ میری زندگی میں جب جسمانی قربت کا ذکر آتا ہے تو میں پریشان ہو جاتی ہوں۔

میں جس مشرقی ماحول اور برادری میں پلی بڑھی ہوں وہ بہت روایتی اور مذہبی ہے۔ میرے رشتہ دار ہمیشہ گناہ و ثواب کے مسائل میں الجھے رہتے ہیں۔ان کے نزدیک جنس کے موضوع پر گفتگو بے حیائی اور بے شرمی کے رجحانات کو ترغیب دیتی ہے۔ اس لیے وہ کسی ادیب کو بھی اس پر کھل کر بات نہیں کرنے دیتے۔

آج سے چند دہائیاں قبل جب عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور ’لحاف‘ ’ٹھنڈا گوشت‘ اور ’کھول دو‘ جیسے افسانے لکھے تو ان پر فحاشی اور عریانی کے الزام لگائے گئے اور مقدمے چلائے گئے۔ عصمت تو ان دکھوں کو سہہ گئی لیکن منٹو نے اپنی روح کے کرب کو شراب میں گھول کر پینا شروع کر دیا اور جوانی کی موت مر گیا۔ شاعری میں بھی لوگ جب تک ذوقؔ اور داغؔ کے انداز کی شاعری کرتے رہے محفوظ رہے لیکن جب مصطفیٰ زیدی نے براہِ راست شہناز گل کے حوالے سے غزلیں اور نظمیں لکھنی شروع کیں اور جنسی تجربات کو موضوعِ سخن بنایا اور لکھا

فنکار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی

وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی

اس پہ کھلا تھا بابِ حیا کا ورق ورق

بستر کی ایک ایک شکن کی شریک تھی

تو اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ بھی منٹو کی طرح اتنے کچوکے سہے گا کہ جوانی کی موت مر جائے گا۔ اسی لیے اس نے لکھا تھا

اب جی حدودِ سودوزیاں سے گزر گیا

اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا

 اگرچہ منٹو کے افسانے سب چھپ چھپ کر پڑھتے ہیں لیکن آج بھی انہیں نصاب میں شامل نہیں کرتے۔

یہ چھپ چھپ کر ہر کام کرنا میری برادری کا حصہ ہے۔ سب کام رازدارانہ انداز میں کیے جاتے ہیں۔ لوگوں میں اپنی زندگی کی حقیقتوں کو برسرِ عام پیش کرنے کی ہمت نہیں۔ سب لوگ اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ ’ لوگ کیا کہیں گے‘۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ چھپ چھپ کر کام کرنے کی فضا ہی گناہوں کو ترغیب دیتی ہے۔ اسی لیے وہ جنسی تعلقات رات کی تاریکی میں سرانجام دیتے ہیں اور دن چڑھتے ہی گونگے ہو جاتے ہیں۔میری روایتی والدہ میرے افسانے اور مضامین پڑھ کر کہا کرتی تھیں ’بیٹی جو باتیں چھپانے کی ہوتی ہیں تم چھاپ دیتی ہو‘۔

میں جب تمہیں جنس کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے دیکھتی ہوں تو مجھے رشک آتا ہے۔ شاید تمہاری مغربی ماحول میں پرورش نے تمہیں آزاد خیالی اور خود اعتمادی بخشی ہے۔ تم PENIS کا ذکر کرتی ہو تو مجھے آلہِ تناسل کا لفظ یاد آتا ہے تم VAGINA کہتی ہو تو میرے ذہن میں اندامِ نہانی کی اصطلاح ابھرتی ہے لیکن جب تم ORGASM کو موضوعِ سخن بناتی ہو تو میرے ذہن میں کوئی لفظ‘ کوئی ترکیب ‘کوئی تشبیہ‘ کوئی استعارہ نہیں ابھرتا۔۔۔کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ نہ تو مجھے اور نہ ہی میری قوم کے مردوں اور عورتوں کو اس کا تجربہ ہوا ہے۔۔۔ایسا نہیں ہے لیکن ہم نے کبھی اس کا اقرار نہیں کیا کیونکہ ہمارے ہاں جنسی تعلقات کا مقصد افزائشِ نسل رہا ہے۔ اس لیے جنسی تعلقات سے لذت حاصل کرنا گناہ قرار دیا گیا ہے۔شاید اسی لیے وہ لوگ جو جنسی تعلقات سے لطف اندوز ہوتے ہین اکثر اوقات احساسِ گناہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔جنسی تعلقات تو ایک طرف میری برادری کے اکثر لوگ اب بھی حیض کے لیے آنچل میلا ہونا اور حمل کے لیے پائوں بھاری ہونا کہنا پسند کرتے ہیں۔۔

لیکن اب میں جوان اور بالغ ہو گئی ہوں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنی زندگی کی حقیقتوں کا کھل کر اظہار کروں گی۔ میں نے جب سے تم سے تعلقات قائم کیے ہیں کھلی فضا میں سانس لینا شروع کر دیا ہے۔ میں نے اپنے دوستوں کو خاص کر جو مغرب میں جا بسے ہیں ترغیب دی ہے کہ ایسے الفاظ اور تراکیب تخلیق کریں جن سے جنسی تعلقات کے بارے میں کھل کر گفتگو ہو سکے۔ ہم کب تک کبوتروں کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں گے۔ میرے ایک ادیب دوست نے لکھا ہے کہ اب وہ MASTURBATION کا ترجمہ خود وصلی اور ORGASM کا ترجمہ جنسی معراج کرتا ہے۔

مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ میری جھولی میں دوست‘ محبوب‘ منگیتر اور بیوی جیسے الفاظ تو ہیں لیکن جب تم GIRL FRIEND اور BOYFRIEND کا ذکر کرتی ہو تو میں خاموش ہو جاتی ہوں کیونکہ میرے پاس ان کے لیے کوئی متبادل الفاظ نہیں ہیں۔ میں نے ایک دفعہ کوشش کی تھی کہ اپنی ہمسائی فارسی سے اس کے الفاظ دختر دوست اور پسر دوست مستعار لے لوں لیکن میرے قبیلے کے لوگوں کو وہ الفاط پسند نہ آئے۔ انہیں شاید ڈر تھا کہ ایسے الفاظ سن کر ان کی جوان بیٹیاں اور بیٹے گھروں سے بھاگ جائیں گے۔ میں نے ایک دفعہ ’بہشتی زیور‘ میں یہ بھی پڑھا تھا کہ جوان لڑکیوں کو جغرافیہ نہیں پڑھانا چاہیے کیونکہ اس سے انہیں گھر سے بھاگنے میں مدد ملتی ہے۔

جب سے میں نے پنجابی سے دوستی کی ہے اس کی بے تکلف شخصیت کا مجھ پر اثر ہونے لگا ہے اور میرے لکھنوی مزاج میں کچھ تبدیلی آئی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جب میں پنجابی کے الفاط استعمال کرتی ہوں تو میرے رشتہ دار میری زبان کی صحت پر اعتراض کرنے لگتے ہیں اور اس طرح میرے خاندان کی روایت پسندی میرے پائوں کی زنجیر بن جاتی ہے اور میں اپنے قلبی جذبات کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتی۔

میری محبوب انگریزی !

میں کہنا یہ چاہتی ہوں کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں لیکن جب بھی اس کا اظہار کرنا چاہتی ہوں تو شرم و حیا کا دامن ہاتھ سے چھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ میرے پاس مباشرت اور ہمبستری جیسے الفاظ ہیں لیکن تمہارے پاس TO MAKE LOVE جیسی خوبصورت اور رومانوی ترکیب ہے تو کیوں نہ میں آج تم سے تمہاری ہی خوبصورت ترکیب میں کہوں LET’S MAKE LOVE TONIGHT

تمہاری محبوبہ

اردو

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail