پاکستان کےخلاف امریکہ و بھارت کی فرد جرم


 بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر وہائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم مودی کی پریس کانفرنس میں کی گئی باتوں سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہوئے اس سے علاقائی سلامتی کے حوالے سے بھارت کی شرائط ماننے پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سرکاری بیان اور دونوں لیڈروں کی گفتگو میں اگرچہ ایک دوسرے کےلئے گرمجوشی کا اظہار کیا گیا اور نریندر مودی نے پریس کانفرنس کے بعد بڑھ کر ٹرمپ سے بغلگیر ہو کر یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کی کہ دونوں لیڈروں اور ملکوں کے درمیان صرف اتفاق رائے ہی پایا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا بھی دعویٰ تھا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات تاریخ کے بہترین دور سے گزر رہے ہیں اور ان کے درمیان جو تھوڑے بہت اختلافات ہیں، وہ بھی رفع کر لئے جائیں گے۔ حالانکہ امریکہ اور بھارت کے لیڈروں ٹرمپ اور مودی کے اختلافات یا اتفاقات اپنے اپنے ملک کےلئے تجارتی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد پر استوار ہیں۔ مودی زیادہ سے زیادہ امریکی سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ لگانے پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے ملک میں معاشی نمو کا سلسلہ جاری رہے جبکہ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ بھارت امریکی مصنوعات کےلئے اپنی منڈیوں کو کھولے اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا عدم توازن کم کیا جائے۔ اس حوالے سے صدر ٹرمپ کی نظر بھارت کے دفاعی بجٹ پر ہے تاکہ وہ مزید اسلحہ فروخت کرکے امریکہ میں روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کر سکیں۔

دونوں لیڈروں نے پریس سے باتیں کرتے ہوئے یا وہائٹ ہاؤس میں نریندر مودی کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ میں تقریریں کرتے ہوئے بنیادی اور اصولی اختلافات کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ کیونکہ دونوں اپنے اپنے طور پر ایک دوسرے کو اپنی معیشت اور سیاسی منشور کی تکمیل کےلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے اور اس کا انتہا پسند ہندو رہنما پاکستان کو نیچا دکھانے کےلئے دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافہ کرتا رہا ہے۔ بھارت روایتی طور پر سوویت اور پھر روسی اسلحہ کا خریدار رہا ہے لیکن اب اس کی مسلح افواج امریکی اسلحہ کے ذریعے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ اس وقت بھارت دنیا میں اسلحہ کا دوسرا بڑا خریدار ہے۔ امریکہ اس بھارتی بجٹ میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی نگاہیں بھی جدید ترین امریکی اسلحہ اور ٹیکنالوجی پر ہیں۔ صدر ٹرمپ اس سے قبل سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے اسلحہ کی فروخت کے معاہدے کرتے ہوئے یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کے نزدیک سیاسی اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ نہ ہی وہ اس بات پر غور کرنے کےلئے تیار ہیں کہ حساس خطوں میں خطرناک اسلحہ فروخت کرنے سے جنگوں اور تنازعات میں اضافہ ہوگا۔ ان کا بنیادی مقصد امریکی صنعت کےلئے زیادہ سے زیادہ کاروبار حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق امریکہ میں روزگار کے مواقع میں اضافہ کر سکیں۔ اس لئے اختلافات کے باوجود بھارتی وزیراعظم کے بارے میں ان کے توصیفی کلمات اور ان کا گر مجوشی سے استقبال اس بات کا اظہار ہے کہ وہ غریب بھارتی شہریوں کی محنت کی کمائی سے امریکہ کے ہتھیار اور بارود بھارت کو فروخت کرکے امریکی معیشت کو بحال کر سکیں۔

نریندر مودی کے اتوار کو واشنگٹن پہنچنے سے پہلے ہی امریکہ نے 2 ارب ڈالر کے 22 جاسوس ڈرون بھارت کو فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ ڈرون حساس ٹیکنالوجی کا حصہ سمجھے جاتے ہیں اور امریکی کانگریس میں اس کی برآمد کے بارے میں شدید تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ تاہم وہائٹ ہاؤس نے بھارتی لیڈر کے دورہ سے قبل اس فروخت کی منظوری دے کر نریندر مودی کی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ مزید اسلحہ خریدے اور اپنے دفاعی بجٹ کو فراخدلی سے امریکی معاشی احیا کےلئے بروئے کار لائے۔ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ کانگریس میں اس وقت ری پبلکن اکثریت ہے اور اس کے بیشتر ارکان صدر ٹرمپ کی عوامی مقبولیت کی وجہ سے بدستور ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں۔ اس لئے اس فروخت کی منظوری حاصل کرنا بھی مشکل نہیں ہوگا۔ یہ بات کسی حد تک قابل فہم بھی ہے تاہم یہ ڈرون اگرچہ بحر ہند میں چینی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے مقصد سے فروخت کئے گئے ہیں لیکن بھارت اپنی تمام تر دفاعی صلاحیت، اسلحہ اور ٹیکنالوجی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ بھارت اگرچہ چین سے خطرہ کا نعرہ بلند کرکے دنیا کو گمراہ کرتا ہے لیکن یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ چین کی قیادت مسلح تصادم کی بجائے تجارتی میدان میں دنیا کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ چین کسی بھی قیمت پر بھارت کے خلاف عسکری کارروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ جبکہ بھارت مسلسل پاکستان کے خلاف جنگی عزائم کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر گزشتہ کئی ماہ سے جاری اشتعال انگیزی اور ہلاکت خیزی سے بھی پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم واضح ہیں۔ لیکن دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے لیڈر ایک دوسرے سے معاملات طے کرتے ہوئے پاکستان کی ضرورتوں اور اندیشوں پر غور کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی حکومتوں کا اس بات پر اتفاق سامنے آ چکا ہے کہ اگر ان کے معاہدوں کے ذریعے دونوں ملکوں کے معاشی مقاصد پورے ہوتے ہوں تو ان کی تکمیل کے لئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو قربان کیا جا سکتا ہے۔ نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے بعد وہائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں یہ ارادہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ دونوں ملکوں نے نہ صرف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت کرنا بند کر دے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2008 میں ممبئی حملوں اور 2016 میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ کے ملزموں کو سزا دلوائی جائے۔ بھارت لشکر طیبہ اور جیش محمد پر ان حملوں کا الزام عائد کرتا ہے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت نے کبھی ان تنظیموں یا ان کے رہنماؤں کے خلاف ان حملوں میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد پیش نہیں کئے ہیں۔ اب ایک بار پھر امریکہ نے یک طرفہ طور سے بھارتی مطالبہ کی حمایت کرکے دراصل یہ اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ اس توازن کو کم کرے گا جو وہ ماضی میں برصغیر کے ایٹمی قوت کے حامل دو ملکوں کے درمیان برقرار رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اب ٹرمپ حکومت نے اہم اسٹریٹجک معاملات میں اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔

اس رویہ کا اظہار نریندر مودی کے امریکہ پہنچنے سے قبل امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے حزب المجاہدین کے لیڈر سید صلاح الدین کو خصوصی نامزد عالمی دہشت گرد قرار دینے کے اعلان سے بھی ہو گیا تھا۔ سید صلاح الدین کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی مسلح جدوجہد کی قیادت کر رہے ہیں۔ کشمیر کے مسئلہ پر اقوام متحدہ کی قراردادوں، وہاں پر چلنے والی عوامی تحریک اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر کئے بغیر آزادی کی جہدوجہد کے ایک نمائندے کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان نہ صرف پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی کو مسترد کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس سے دہشت گردی کی وضاحت و صراحت کے حوالے سے بھی مزید الجھنیں پیدا ہوں گی۔ کشمیری عوام کی جدوجہد سیاسی ہو یا عسکری، اس کا مقصد نہ تو شہری زندگیوں کو تلف کرنا ہے اور نہ ہی وہ کسی عالمی دہشت گردی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں۔ تاہم سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر امریکہ اب یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ کشمیر میں بھارتی استبداد اور ظلم کو چیلنج کرنے والی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کرنے والی قوتوں کو بھی دہشت گرد سمجھنے لگا ہے۔ اس طرح اب یہ اصول زیادہ واضح کیا جا رہا ہے کہ امریکہ ہر اس شخص یا گروہ کو دہشت گرد قرار دے کر سیاسی بیان بازی کا شوق پورا کرے گا جو اس کے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کے خلاف ہو۔ اس طرح کشمیر کی طرح دنیا کے مختلف خطوں میں آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششوں سے دراصل اس حقیقی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچایا جائے گا جو عالمی امن اور دنیا بھر کے شہریوں کےلئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ تاہم ارب ہا ڈالر کے معاہدوں اور تجارتی منڈیوں کے حصول کےلئے صدر ٹرمپ کی حکومت جان بوجھ کر یہ خطرہ مول لے رہی ہے۔

اس امریکی پالیسی کا مقابلہ کرنے کےلئے پاکستان کی وزارت خارجہ یا آزاد کشمیر کے صدر کا ایک مذمتی اور وضاحتی بیان کافی نہیں ہوگا۔ مودی ٹرمپ اعلامیہ دراصل پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے گزشتہ نصف صدی سے اختیار کردہ علاقائی پالیسی کے خلاف فرد جرم ہے۔ اس کا جواب دینے کےلئے پاکستان کو اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں پر فوری نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اب تک اختیار کئے گئے بہت سے ہتھکنڈے اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔ امریکہ ہی نہیں دنیا کے متعدد ممالک اب انہیں مسترد کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ جس طرح امریکہ پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے اور اس پر نظر ثانی کا عندیہ دے رہا ہے، اسی طرح پاکستان کو بھی پرزور طریقہ سے واضح کرنا ہوگا کہ اگر امریکہ نے کشمیریوں کے انسانی حقوق اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کیا تو وہ بھی اپنی حکمت عملی اور امریکہ کے بارے میں پالیسی تبدیل کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali