دستور زباں بندی


سوشل میڈیا کو ابلاغیات کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب قرار دیا جا سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا نے ایک عام آدمی کو اپنی راۓ ہزاروں لوگوں تک پہنچانے کی سہولت دی جس پر اس سے پہلے صرف صحافتی حلقوں کی اجارہ داری تھی ۔ ابلاغ کی یہ سہولت ملی تو پاکستان میں ان لوگوں کو بھی ایک پلیٹ فارم مل گیا جو عمومی سوچ سے مختلف نظریہ رکھتے تھے اور جن پر مین سٹریم میڈیا کے دروازے بند تھے ۔ جن عناصر کے مفاد ان اختلافی آوازوں کی وجہ سے زد میں آۓ انہوں نے ان آوازوں کو خاموش کرنے کے حیلے تلاش کرنا شروع کر دیے ۔ رواں برس کے آغاز میں چند بلاگرز اغوا ہوۓ جو بعد میں رہا کر دیےگئے لیکن ریاست نصف برس گزرنے کے بعد بھی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ انہیں کس نے اور کیوں اغوا کیا – عام شہری کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری جمہوری حکومت کا بنیادی فرض ہوتا ہے اور وزیر داخلہ اپنا دامن صرف یہ کہہ کر نہیں جھاڑ سکتے کہ اغوا کنندگان کسی کے خلاف شکایت کرنے سے گریزاں ہیں – فرض کی ادائیگی کے لئے کسی درخواست کی ضرورت نہیں ہوا کرتی اور وہ ریاست ہی کیا جو کمزور کی طاقت بن کر اسے طاقتور کے ظلم کے خلاف بولنے کی ہمت نہ دے سکے

گزشتہ ماہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے چند لوگوں کو پیشی کا حکم دیا – تاثر یہ دیا گیا کہ ان لوگوں نے سائبر کرائم لاء کی خلاف ورزی کی لیکن پھر انہیں ان سے ان کی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پاسورڈ لے کر جانے دیا گیا حالانکہ سائبر کرائم بل میں درج ہے کہ تحقیقاتی افسر کو کسی قسم کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لئے عدالتی حکم کی ضرورت ہے – دستیاب اطلاعات کے مطابق ان افراد کو ایسا کوئی عدالتی حکم نہیں دکھایا گیا – یہ دونوں واقعات اس امر کی نشاندھی کرتے ہیں کہ پاکستان میں بولنا دن بدن مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے جو کہ ایک ایسے معاشرے کے لئے جو جمہوری ہونے جا دعوے دار ہے ایک انتہائی تشویش ناک امر ہے

جمہوریت صرف انتخابات کا نام نہیں بلکہ اس کے کچھ واضح اصول ہیں اور آزادی اظہار ان میں سے ایک ہے – یہ غلط فہمی عام ہے کہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے سے کوئی بھی قانون بنایا جا سکتا ہے – عمومی طور پر یہ درست ہے کہ پارلیمان میں موجود افراد عوام کی نمائیندگی کرتے ہیں اور ان کی اکثریت کی رائے کو عوام کی اکثریتی رائے سمجھتے ہوئے اسے قانون کا درجہ دیا جا سکتا ہے لیکن اس میں استثنیات ہیں – جمہوریت میں اکثریت سے بھی ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی جا سکتی جو مسلمہ جمہوری اصولوں سے متصادم ہو – آئین پاکستان کسی ایسی قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا جس سے بنیادی انسانی حقوق پر زد پڑتی ہو – اگر ان مسلمہ جمہوری اصولوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر واقعی جمہوریت صرف انتخابات تک ہی محدود ہو جاتی ہے

ایک اور فکری مغالطہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ قوانین شائد شہریوں پر پابندیاں لگانے کا نام ہے – ریاست قانون کے ذریعے قتل کرنے یا چوری کرنے پر پابندی لگاتی ہے –

 دراصل جمہوریت میں قانون سازی کی بنیادی روح یہ ہوتی کہ قوانین شخصی آزادیوں کے تحفظ کے لئے ہوتے ہیں – ریاست شہریوں کے زندہ رہنے کی آزادی ،شہریوں کو جائز طریق سے آمدن کمانے کے حق اور صلہ محنت کو اپنے پاس رکھنے کی آزادی کی ضامن ہوتی ہے اور اس لئے وہ قتل اور چوری کے خلاف قوانین بناتی ہے – جس دن پاکستانی عوام اور قانون سازوں کو یہ نقطۂ نظر مل گیا اس دن سے پاکستان میں حقیقی جمہوری قانون سازی شروع ہو گی – اس دن میرے بولنے کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا جب تک کہ میرے بولنے سے کسی کی شخصی آزادی پر زد نہیں آتی یا کسی کے بنیادی انسانی حقوق مجروح نہیں ہوتے

شخصی آزادی جمہوریت کے اصل ثمرات میں سے ایک ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جیسے جیسے پاکستانی جمہوریت کے مثبت سفر کے دعوے زور پکڑتے جا رہے ہیں ویسے ویسے شخصی آزادیوں پر سمجھوتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے – اگر تو جمہوریت کے اس سفر کی قیمت شخصی آزادیاں ہے تو اسے کسی صورت بھی مثبت سفر نہیں کہا جا سکتا – درست کہ پاکستان میں جمہوریت ایک دفعہ پھر نوزائیدہ ہے لیکن اگر نوزائیدگی میں ہی اصولوں پر سمجھوتہ کر لیا گیا تو شائد پھر کبھی ان اصولوں کی طرف واپسی ممکن نی ہو – پنجابی کی ایک کہاوت کے مطابق ہاتھوں سے باندھی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں – کسی بھی قانون کو بنانے سے زیادہ مشکل امر کسی پرانے اور موجودہ قانون کو خارج کرنا ہوتا ہے – اگر آپ نے آج جمہوریت میں فسطائیت کی ملاوٹ کر دی تو پھر شائد اس مرکب کی تطہیر کبھی بھی نہ ہو سکے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).