لائسنس


منٹو کے ترکش میں تیر بہت تھے، اور اسے یہ بھی ٹھیک ٹھیک معلوم تھا کہ سماج کے قیمتی ترین راز، منفاقت کے ڈھیر اور ریاکاری کے انبار کہاں وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ اسی لئے منٹو نے اپنے ہنر کی نمایش کے لئے طوائف کے کوٹھے اور روحانیت کے نام نہاد ٹھکانوں کا رخ کیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ کیا اسے منفاقت کا پردہ چاک کرنے میں  انکشاف کی خوشی ملتی تھی۔ نہیں، منٹو اس سے کہیں دور دیکھ سکتا تھا ،۔ اس کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ منافقت کو معاشرے سے ختم کئے بغیر ایک ہموار، خوشگوار، شفاف اور حقیقت پسند معاشرہ جنم نہیں لے سکتا۔ (مدیر)

ابوکوچوان بڑا چھیل چھبیلا تھا۔ اس کا تانگہ گھوڑا بھی شہر میں نمبر ون تھا۔ کبھی معمولی سواری نہیں بٹھاتاتھا۔ اس کے لگے بندھے گاہک تھے جن سے اس کو روزانہ دس پندرہ روپے وصول ہو جاتے تھے جو ابو کے لیے کافی تھے۔ دوسرے کوچوانوں کی طرح نشہ پانی کی اسے عادت نہیں تھی۔ لیکن صاف ستھرے کپڑے پہننے اور ہر وقت بانکا بنے رہنے کا اسے بے حد شوق تھا۔ جب اس کا تانگہ کسی سڑک پر سے گھنگھرو بجاتا گزرتا تو لوگوں کی آنکھیں خود بخود اس کی طرف جاتیں۔

’’وہ بانکا ابو جارہا ہے۔ دیکھو تو کس ٹھاٹ سے بیٹھا ہے۔ ذرا پگڑی دیکھو کیسی ترچھی بندھی ہے۔ ‘‘

ابو لوگوں کی نگاہوں سے یہ باتیں سنتا تو اس کی گردن میں ایک بڑا بانکا خم پیدا ہو جاتا اور اس کے گھوڑے کی چال اور زیادہ پرکشش ہو جاتی۔ ابو کے ہاتھوں نے گھوڑے کی باگیں کچھ اس انداز سے پکڑی ہوتی تھیں جیسے ان کو اسے پکڑنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ گھوڑا اشاروں کے بغیر چلا جارہا ہے۔ اس کو اپنے مالک کے حکم کی ضرورت نہیں۔ بعض وقت تو ایسا محسوس ہوتا کہ ابو اور اس کا گھوڑا چنی دونوں ایک ہیں، بلکہ سارا ٹانگہ ایک ہستی ہے اور وہ ہستی ابو کے سوا اور کون ہو سکتی تھی۔ وہ سواریاں جن کو ابو قبول نہیں کرتا تھا دل ہی دل میں اس کو گالیاں دیتی تھیں۔ بعض بددعا بھی دیتی تھیں

’’خدا کرے اس کا گھمنڈ ٹوٹے۔ اس کا ٹانگہ گھوڑا کسی دریا میں جاگرے۔ ‘‘

ابو کے ہونٹوں پر جو ہلکی ہلکی مونچھوں کی چھاؤں میں رہتے تھے خود اعتماد سی مسکراہٹ ناچتی رہتی تھی۔ اس کو دیکھ کر کئی کوچوان جل بھن جاتے تھے۔ ابو کی دیکھا دیکھی چند کوچوانوں نے اِدھر اُدھر سے قرض لے کر تانگے بنوائے۔ ان کو پیتل کے سازو سامان سے سجایا مگر پھر بھی ابو کی سی شان پیدا نہ ہوسکی۔ ان کو وہ گاہک نصیب نہ ہوسکے جو ابو کے اور اس کے ٹانگے گھوڑے کے شیدا تھے۔ ایک دن دوپہر کو ابو درخت کی چھاؤں میں ٹانگے پر بیٹھا اونگھ رہا تھا کہ ایک آواز اس کے کانوں میں بھنبھنائی۔ ابو نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ ایک عورت ٹانگے کے بمب کے پاس کھڑی تھی۔ ابو نے اسے بمشکل ایک نظر دیکھا مگر اس کی تیکھی جوانی ایک دم اس کے دل میں کھب گئی۔ وہ عورت نہیں جوان لڑکی تھی۔ سولہ سترہ برس کی۔ دبلی پتلی لیکن مضبوط۔ رنگ سانولا مگر چمکیلا۔ کانوں میں چاندی کی چھوٹی چھوٹی بالیاں۔ سیدھی مانگ ستواں ناک۔ اس کی پُھننگ پر ایک چھوٹا سا چمکیلا تل۔ لمبا کرتا اور نیلا لاچا۔ سر پر چدریا۔ لڑکی نے کنواری آواز میں ابو سے پوچھا۔

’’ویرا، ٹیشن کا کیا لو گے؟‘‘

ابو کے ہونٹوں کی مسکراہٹ شرارت اختیار کر گئی۔

’’کچھ نہیں۔ ‘‘

لڑکی کے چہرے کی سنولاہٹ سرخی مائل ہو گئی۔

’’کیا لو گے ٹیشن کا۔ ‘‘

ابو نے اس کو اپنی نظروں میں سموتے ہوئے کہا۔

’’تجھ سے کیا لینا ہے بھاگ بھریے۔ چل آ بیٹھ ٹانگے میں۔ ‘‘

لڑکی نے گھبراتے ہوئے ہاتھوں سے اپنے مضبوط سینے کو ڈھانکا حالانکہ وہ ڈھکا ہوا تھا۔

’’کیسی باتیں کرتے ہو تم۔ ‘‘

ابو مسکرایا۔

’’چل آ، اب بیٹھ بھی جا۔ لے لیں گے جو تو دے دیگی۔ ‘‘

لڑکی نے کچھ دیر سوچا، پھر پائیدان پر پاؤں رکھ کر ٹانگے میں بیٹھ گئی

’’جلدی لے چل ٹیشن۔ ‘‘

ابو نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

’’بڑی جلدی ہے تجھے سوہنیے۔ ‘‘

ہائے ہائے، تو تو۔ لڑکی کچھ اور کہتے کہتے رک گئی۔ ٹانگہ چل پڑا۔ اور چلتا رہا۔ کئی سڑکیں گھوڑے کے سموں کے نیچے سے نکل گئیں۔ لڑکی سہمی بیٹھی تھی۔ ابو کے ہونٹوں پر شرارت بھری مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ جب بہت دیر ہو گئی تو لڑکی نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا۔

’’ٹیشن نہیں آیا ابھی تک؟‘‘

ابو نے معنی خیز انداز میں جواب دیا۔

’’آجائے گا۔ تیرا میرا ٹیشن ایک ہی ہے۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

ابو نے پلٹ کر لڑکی کی طرف دیکھا اور کہا۔

’’الہڑے۔ کیا تو اتنا بھی نہیں سمجھتی۔ تیرا میرا ٹیشن ایک ہی ہے۔ اس وقت ایک ہو گیا تھا جب ابو نے تیری طرف دیکھا تھا۔ تیری جان کی قسم تیرا غلام جھوٹ نہیں بولتا۔ ‘‘

لڑکی نے سر پر پلو ٹھیک کیا۔ اس کی آنکھیں صاف بتا رہی تھیں کہ وہ ابو کا مطلب سمجھ چکی ہے۔ اس کے چہرے سے اس بات کا بھی پتہ چلتا تھا کہ اس نے ابو کی بات کا برا نہیں مانا۔ لیکن وہ اس کشمکش میں تھی کہ دونوں کا ٹیشن ایک ہو یا نہ ہو۔ ابو بانکا سجیلا تو ہے لیکن کیا وفادار بھی ہے۔ کیا وہ اپنا ٹیشن چھوڑ دے۔ جہاں اس کی گاڑی پتا نہیں کب کی جا چکی تھی۔ ابو کی آواز نے اس کو چونکا دیا۔

’’کیا سوچ رہی ہے بھاگ بھریئے۔ ‘‘

گھوڑا مست خرامی سے دمکی چل رہا تھا۔ ہوا خنک تھی۔ سڑک کے دورویہ اُگے ہوئے درخت بھاگ رہے تھے۔ ان کی ٹہنیاں جھوم رہی تھیں۔ گھنگھرؤں کی یک آہنگ جھنجھناہٹ کے سوا اور کوئی آواز نہیں تھی۔ ابو گردن موڑے لڑکی کے سانولے حسن کو دل ہی دل میں چوم رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے گھوڑے کی باگیں جنگلے کی سلاخ کے ساتھ باندھ دیں اور لپک کر پچھلی سیٹ پر لڑکی کے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ خاموش رہی۔ ابو نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے

’’دے دے اپنی باگیں میرے ہاتھ میں۔ ‘‘

لڑکی نے صرف اتنا کہا۔

’’چھوڑ بھی دے‘‘

لیکن وہ فوراً ہی ابو کے بازوؤں میں تھی۔ اس کے بعد اس نے مزاحمت نہ کی۔ اس کا دل البتہ زور زور سے پھڑپھڑا رہا تھا جیسے خود کو چھڑا کر اڑ جانا چاہتا ہے۔ ابو ہولے ہولے پیار بھرے لہجے میں اسے کہنے لگا۔

’’یہ ٹانگہ گھوڑا مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا، لیکن قسم گیارھویں والے پیر کی یہ بیچ دوں گا اور تیرے لیے سونے کے کڑے بنواؤں گا۔ آپ پھٹے پرانے کپڑے پہنوں گا، لیکن تجھے شزادی بنا کر رکھوں گا۔ قسم وحدہ لا شریک کی، زندگی میں یہ میرا پہلا پیار ہے۔ تم میری نہ بنیں تو میں تیرے سامنے گلا کاٹ لوں گا اپنا‘‘

پھر اس نے لڑکی کو اپنے سے علیحدہ کردیا

’’جانے کیا ہو گیا ہے مجھے۔ چلو تمہیں ٹیشن چھوڑ آؤں۔ ‘‘

لڑکی نے ہولے سے کہا۔

’’نہیں۔ اب تم مجھے ہاتھ لگا چکے ہو۔ ‘‘

ابو کی گردن جھک گئی۔

’’مجھے معاف کردو۔ مجھ سے غلطی ہوئی۔ ‘‘

’’نبھالو گے اس غلطی کو؟‘‘

لڑکی کے لہجے میں چیلنج تھا، جیسے کسی نے ابو سے کہا ہو۔

’’لے جاؤ گے اپنا ٹانگہ اس ٹانگے سے آگے نکال کے۔ ‘‘

اس کا جھکا ہوا سر اٹھا۔ آنکھیں چمک اٹھیں۔

’’بھاء بھریے۔ ‘‘

یہ کہہ اس نے اپنے مضبوط سینے پر ہاتھ رکھا۔

’’ابو اپنی جان دے دے گا۔ ‘‘

لڑکی نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔

’’تو یہ ہے میرا ہاتھ۔ ‘‘

ابو نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔

’’قسم اپنی جوانی کی۔ ابو تیرا غلام ہے۔ ‘‘

دوسرے روز ابو اور اس لڑکی کا نکاح ہو گیا۔ وہ ضلع گجرات کی موچن تھی نام اس کا عنایت یعنی نیتی تھا۔ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ آئی تھی۔ وہ اسٹیشن پر اس کا انتظار کررہے تھے کہ ابو اور اس کی مڈبھیڑ ہو گئی جو فوراً ہی محبت کی ساری منزلیں طے کرگئی۔ دونوں بہت خوش تھے۔ ابو نے ٹانگہ گھوڑا بیچ کر تو نیتی کے لیے سونے کے کڑے نہیں بنوائے تھے لیکن اپنے جمع کیے پیسوں سے اس کو سونے کی بالیاں خرید دی تھیں۔ کئی ریشمی کپڑے بھی بنوا دیے تھے۔ لس لس کرتے ہوئے ریشمی لاچے میں جب نیتی، ابو کے سامنے آتی تو اس کا دل ناچنے لگتا۔

’’قسم پنچ تن پاک کی، دنیا میں تجھ جیسا سندر اور کوئی نہیں۔ ‘‘

اور یہ کہہ وہ اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتا۔

’’تو میرے دل کی رانی ہے۔ ‘‘

دونوں جوانی کی مستیوں میں غرق تھے۔ گاتے تھے، ہنستے تھے، سیریں کرتے تھے، ایک دوسرے کی بلائیں لیتے تھے۔ ایک مہینہ اسی طرح گزر گیا کہ دفعتاً ایک روز پولیس نے ابو کو گرفتار کرلیا۔ نیتی بھی پکڑی گئی۔ ابو پر اغواء کا مقدمہ چلا۔ نیتی ثابت قدم رہی لیکن پھر بھی ابو کو دو برس کی سزا ہو گئی۔ جب عدالت نے حکم سنایا تو نیتی ابو کے ساتھ لپٹ گئی۔ روتے ہوئے اس نے صرف اتنا کہا۔

’’میں اپنے ماں باپ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی۔ گھر بیٹھ کر تیرا انتظار کروں گی۔ ‘‘

ابو نے اس کی پیٹھ پر تھپکی دی

’’جیتی رہ۔ ٹانگہ گھوڑا میں نے دینے کے سپرد کیا ہوا ہے۔ اس سے کرایہ وصول کرتی رہنا۔ ‘‘

نیتی کے ماں باپ نے بہت زور لگایا مگر وہ ان کے ساتھ نہ گئی۔ تھک ہار کر انھوں نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ نیتی اکیلی رہنے لگی۔ دینا اسے شام کو پانچ روپے دے جاتا تھا جو اس کے خرچ کے لیے کافی تھے۔ اس کے علاوہ مقدمے کے دوران میں روزانہ پانچ روپے کے حساب سے جو کچھ جمع ہوا تھا وہ بھی اس کے پاس تھا۔ ہفتے میں ایک بار نیتی اور ابو کی ملاقات جیت میں ہوتی تھی جو کہ ان دونوں کے لیے بہت ہی مختصر تھی۔ نیتی کے پاس جتنی جمع پونجی تھی وہ ابو کو آسائشیں پہنچانے میں صرف ہو گئی۔ ایک ملاقات میں ابو نے نیتی کے بچے کانوں کی طرف دیکھا اور پوچھا

’’بالیاں کہاں گئی نیتی؟‘‘

نیتی مسکرا دی اور سنتری کی طرف دیکھ کر ابو سے کہا

’’گم ہو گئیں کہیں۔ ‘‘

ابو نے قدرے غصے ہوکرکہا۔

’’تم میرا اتنا خیال رکھا نہ کرو۔ جیسا بھی ہوں ٹھیک ہوں۔ ‘‘

نیتی نے کچھ نہ کہا۔ وقت پورا ہو چکا تھا۔ مسکراتی ہوئی وہاں سے چل دی۔ مگر گھر جا کر بہت روئی۔ گھنٹوں آنسو بہائے۔ کیونکہ ابو کی صحت بہت گر رہی تھی۔ اس ملاقات میں تو وہ اسے پہچان نہیں سکی تھی۔ گرانڈیل ابو اب گھل گھل کر آدھا ہو گیا تھا۔ نیتی سوچتی تھی کہ اس کو اس کا غم کھا رہا ہے۔ اس کی جدائی نے ابو کی یہ حالت کر دی ہے۔ لیکن اس کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ دق کا مریض ہے اور یہ مرض اسے ورثے میں ملا ہے۔ ابو کا باپ ابو سے کہیں زیادہ گرانڈیل تھا۔ لیکن دق نے اسے چند دنوں ہی میں قبر کے اندر پہنچا دیا۔ ابو کا بڑا بھائی کڑیل جوان تھا مگر عین جوانی میں اس مرض نے اسے دبوچ لیا تھا۔ خود ابو اس حقیقت سے غافل تھا چنانچہ جیل کے ہسپتال میں جب وہ آخری سانس لے رہا تھا، اس نے افسوس بھرے لہجے میں نیتی سے کہا۔

’’مجھے معلوم ہوتا کہ میں اتنی جلدی مر جاؤں گا تو قسم وحدہ لاشریک کی تجھے کبھی اپنی بیوی نہ بناتا۔ میں نے تیرے ساتھ بہت ظلم کیا۔ مجھے معاف کردے۔ اور دیکھ میری ایک نشانی ہے، میرا ٹانگہ گھوڑا۔ اس کا خیال رکھنا۔ اور چنی بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنا۔ ابو نے تجھے پیار بھیجا ہے۔ ‘‘

ابو مر گیا۔ نیتی کا سب کچھ مگر گیا۔ مگر وہ حوصلے والی عورت تھی۔ اس صدمے کو اس نے برداشت کر ہی لیا۔ گھر میں تن تنہا پڑی رہتی تھی۔ شام کو دینا آتا تھا اور اسے دم دلاسا دیتا تھا اور کہتا تھا۔

’’کچھ فکر نہ کرو بھابھی۔ اللہ میاں کے آگے کسی کی پیش نہیں چلتی۔ ابو میرا بھائی تھی۔ مجھ سے جو ہو سکتا ہے خدا کے حکم سے کروں گا۔ ‘‘

شروع شروع میں تو نیتی نہ سمجھی پر جب اس کے عدت کے دن پورے ہوئے تو دینے نے صاف لفظوں میں کہا کہ وہ اس سے شادی کرلے۔ یہ سن کر نیتی کے جی میں آئی کہ وہ اس کو دھکا دے کر باہر نکال دے مگر اس نے صرف اتنا کہا۔

’’بھائی مجھے شادی نہیں کرنی۔ ‘‘

اس دن سے دینے کے رویے میں فرق آگیا۔ پہلے شام کو بلاناغہ پانچ روپے ادا کرتا تھا۔ اب کبھی چار دینے لگا۔ کبھی تین۔ بہانہ یہ کہ بہت مندا ہے۔ پھر دو دو تین تین دن غائب رہنے لگا۔ بہانہ یہ کہ بیمار تھا یا ٹانگے کا کوئی کل پرزہ خوب ہو گیا تھا۔ اس لیے جو نہ سکا۔ جب پانی سر سے نکل گیا تو نیتی نے دینے سے کہا۔

’’بھائی دینے اب تم تکلیف نہ کرو۔ ٹانگہ گھوڑا میرے حوالے کردو۔ ‘‘

بڑی لیت و لعل کے بعد بالآخر دینے نے بادلِ ناخواستہ ٹانگا گھوڑا نیتی کی تحویل میں دے دیا۔ اس نے ماجھے کے سپرد کردیا جو ابو کا دوست تھا۔ اس نے بھی کچھ دنوں کے بعد شادی کی درخواست کی۔ نیتی نے انکار کیا تو اس کی آنکھیں بدل گئیں۔ ہمدردی وغیرہ سب ہوا ہو گئی۔ نیتی نے اس سے ٹانگا گھوڑا واپس لیا اور ایک انجانے کوچوان کے حوالے کردیا۔ اس نے تو حد ہی کردی۔ ایک شام پیسے دینے آیا تو شراب میں دھت تھا۔ ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی نیتی پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ نیتی نے اس کو خوب سنائیں۔ اور کام سے ہٹا دیا۔ آٹھ دس روز ٹانگا گھوڑا بیکار طویلے میں پڑا رہا۔ گھاس دانے کا خرچ علیحدہ۔ طویلے کا کرایہ علیحدہ۔ نیتی عجیب الجھن میں گرفتارتھی۔ کوئی شادی کی درخواست کرتا تھا، کوئی اس کی عصمت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا تھا۔ کوئی پیسے مار لیتا تھا۔ باہر نکلتی تو لوگ بری نگاہوں سے گھورتے تھے۔ ایک رات اس کا ہمسایہ دیوار پھاند کے آگیا اور دراز دستی کرنے لگا۔ نیتی سوچ سوچ کر پاگل ہو گئی کہ کیا کرے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے اسے خیال آیا۔

’’کیوں نہ ٹانگا میں آپ ہی جوتوں۔ آپ ہی چلاؤں‘‘

۔ ابو کے ساتھ جب وہ سیر کو جایا کرتی تھی تو ٹانگا خود ہی چلایا کرتی تھی۔ شہر کے راستوں سے بھی واقف تھی۔ لیکن پھر اس نے سوچا

’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

۔ اس کے جواب میں اس کے دماغ نے کئی دلیلیں دیں۔

’’کیا حرج ہے۔ کیا عورتیں محنت مزدوری نہیں کرتیں۔ یہ کوئلے والیاں۔ یہ دفتروں میں جانے والی عورتیں۔ گھر میں بیٹھ کر کام کرنے والیاں توہزاروں ہوں گی۔ پیٹ کسی حیلے سے پالنا ہی ہے۔ ‘‘

نیتی نے کچھ دن سوچ بچار کیا۔ آخر میں فیصلہ کرلیا کہ وہ ٹانگہ خود چلائیگی۔ اس کو خود پر پورا اعتماد تھا، چنانچہ اللہ کا نام لے کروہ طویلے پہنچ گئی۔ ٹانگا جوتنے لگی تو سارے کوچوان ہکا بکا رہ گئے۔ بعض مذاق سمجھ کر خوب ہنسے۔ جو بزرگ تھے انھوں نے نیتی کو سمجھایا کہ دیکھو ایسا نہ کرو۔ یہ مناسب نہیں مگر نیتی نہ مانی۔ ٹانگا ٹھیک ٹھاک کیا۔ پیتل کا سازو سامان اچھی طرح چمکایا۔ گھوڑے کو خوب پیار کیا اور ابو سے دل ہی دل میں پیار کی باتیں کرتی طویلے سے باہر نکل گئی۔ کوچوان حیرت زدہ تھے، کیونکہ نیتی کے ہاتھ رواں تھے جیسے وہ ٹانگہ چلانے کے فن پر حاوی ہے۔ شہر میں ایک تہلکہ برپا ہو گیا کہ ایک خوبصورت عورت ٹانگہ چلا رہی ہے۔ ہر جگہ اسی بات کا چرچا تھا۔ لوگ سنتے تھے تو اس وقت کا اتنظار کرتے تھے جب وہ ان کی سڑک پر سے گزرے گا۔ شروع شروع میں تو مرد سواریاں جھجکتی تھیں مگر یہ جھجک تھوڑی دیر میں دور ہو گئی اور خوب آمدن ہونے لگی۔ ایک منٹ کے لیے بھی نیتی کا ٹانگہ بیکار نہ رہتا تھا۔ ادھر سوار اتری ادھر بیٹھی۔ آپس میں کبھی کبھی سواریوں کی لڑائی بھی ہو جاتی تھی۔ اس بات پر نیتی کو پہلے کس نے بلایا تھا۔ جب کام زیادہ ہو گیا تو نیتی نے ٹانگہ جوتنے کے اوقات مقرر کردیے صبح سات بجے سے بارہ بجے، دوپہر دو سے چھ بجے تک۔ یہ سلسلہ بڑا آرام دہ ثابت ہوا۔ چنی بھی خوش تھا مگر نیتی محسوس کررہی تھی کہ اکثر لوگ صرف اس کی قربت حاصل کرنے کیلیے اس کے ٹانگے میں بیٹھتے۔ بے مطلب بے مقصد اسے اِدھر اُدھر پھراتے تھے۔ آپس میں گندے گندے مذاق بھی کرتے تھے۔ صرف اس کو سنانے کیلیے باتیں کرتے تھے۔ اس کو ایسا لگاتھا کہ وہ تو خود کو نہیں بیچتی۔ لیکن لوگ چپکے چپکے اسے خرید رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ شہر کے سارے کوچوان اس کو بُرا سمجھتے ہیں۔ ان تمام احساسات کے باوجود مضطرب نہیں تھی۔ اپنی خود اعتمادی کے باعث وہ پرسکون تھی۔ ایک دن کمیٹی والوں نے نیتی کو بلایا اور اس کا لائسنس ضبط کرلیا۔ وجہ یہ بتائی کہ عورت ٹانگہ نہیں چلا سکتی۔ نیتی نے پوچھا۔

’’جناب، عورت ٹانگہ کیوں نہیں چلا سکتی۔ ‘‘

جواب ملا۔

’’بس، نہیں چلا سکتی۔ تمہارا لائسنس ضبط ہے۔ ‘‘

نیتی نے کہا۔

’’حضور، آپ گھوڑا ٹانگہ بھی ضبط کرلیں، پر مجھے یہ تو بتائیں کہ عورت کیوں ٹانگہ نہیں جوت سکتی، عورتیں چرخہ چلا کر اپنا پیٹ پال سکتی ہیں۔ عورتیں ٹوکری ڈھو کر روزی کما سکتی ہیں۔ عورتیں لینوں پر کوئلے چن چن کر اپنی روٹی پیدا کرسکتی ہیں۔ میں ٹانگہ کیوں نہیں چلا سکتی۔ مجھے اور کچھ آتا ہی نہیں۔ ٹانگہ گھوڑا میرے خاوند کا ہے۔ میں اسے کیوں نہیں چلا سکتی۔ میں اپنا گزارہ کیسے کروں؟۔ حضور آپ رحم کریں۔ محنت مزدوری سے کیوں روکتے ہیں مجھے؟۔ میں کیا کروں، بتائے نا مجھے‘‘

افسر نے جواب دیا۔

’’جاؤ بازار میں جا کر بیٹھو۔ وہاں زیادہ کمائی ہے۔ ‘‘

یہ سن کر نیتی کے اندر جو اصل نیتی تھی جل کر راکھ ہو گئی۔ ہولے سے

’’اچھا جی‘‘

کہہ کر وہ چلی گئی۔ اونے پونے داموں ٹانگہ گھوڑا بیچا اور سیدھی ابو کی قبر پر گئی۔ ایک لحظے کے لیے خاموش کھڑی رہی۔ اس کی آنکھیں بالکل خشک تھیں، جیسے بارش کے بعد چلچلاتی دھوپ نے زمین کی ساری نمی چوس لی تھی۔ اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ وا ہوئے اور وہ قبر سے مخاطب ہوئی۔

’’ابو۔ تیری نیتی آج کمیٹی کے دفتر میں مرگئی۔ ‘‘

 

یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ دوسرے دن عرضی دی۔ اس کو اپنا جسم بیچنے کا لائسنس مل گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).