فرد جرم نامکمل ہے….


برادر عزیز کم عمر ہیں۔ انہیں وبا، قحط، جنگ اور آئین میں تعطل کا کم ہی تجربہ ہے۔ دعا ہے کہ برادر عزیز کو مدت العمر ان آلام سے واسطہ نہ پڑے۔ چھوٹے بچوں کے سے جوش و خروش میں عزیزم نے نہ صرف یہ کہ وزیر اعظم کے جرائم کی فہرست گنوا دی ہے بلکہ بزعم خود ان کے جرائم کی درجہ بندی کرتے ہوئے ام الجرائم کی نشاندہی بھی کر دی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہونہار کی عربی خاصی مضبوط ہے اور مطالعہ پاکستان کے پرچے میں تو اس نے ممتحن کا دل جیت لیا ہوتا۔ تاہم بچے ہی تو ہیں۔ خیال نہیں رہا کہ ام الحرب اور ام الجرم جیسی اصطلاحات ڈکٹیٹر استعمال کیا کرتے ہیں۔ طالب علموں کا کام مشق کرنے کی نوٹ بک میں سیلاب کے فائدے اور نقصانات گنوانا نہیں ہوتا۔ ذہانت کی رو میں ہونہار طالب علم کی تیار کردہ فرد جرم نامکمل ہے۔ دستیاب شواہد سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ ضروری ضمنیاں، حواشی اور حوالے مکمل طور پر غائب ہیں۔ مناسب ہو گا کہ اس فرد جرم کو ممکنہ طور پر مکمل کر دیا جائے تاکہ روز روز کی کوفت سے چھٹکارا ملے۔ ابھی تو بانیان پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی ذریات اور پھر شریف خاندان کے افراد کا نام لے لے کر الگ الگ جرائم تفویض کرنا پڑتے ہیں۔ کیوں نہ ایک جامع فہرست مع پرچہ ترکیب استعمال تیار کر دی جائے۔ سب نسلوں کا بھلا ہو گا۔ تعلیم اس سے پھیلے گی۔ شعور سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں۔

سیاست دان نامی مخلوق کا سب سے بڑا جرم تو یہ ہے کہ شملہ کے پہاڑی مقام پر غیروں سے گفت و شنید کر کے ہمارے لئے دنیا کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک جیت لیا۔ ان سیاست دانوں کے نام محمد علی جناح ، لیاقت علی خان اور عبدالرب نشتر تھے۔ ان کی کوتاہ نظری دیکھیئے کہ سابق نیول آفیسر ماؤنٹ بیٹن سے مذاکرات تھے مگر کسی فوجی افسر سے مشاورت مناسب نہیں سمجھی۔ نوابزادہ شیر علی خان اور میجر جنرل افتخار خاصے وقیع عہدوں پر فائز تھے مگر سیاست دانوں نے اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لئے انہیں مذاکرات سے الگ رکھا۔ اور جب بریگیڈیئر ایوب خان باؤنڈری کمیشن کا حصہ بنے تو ان کی اعلیٰ کارکردگی پر تنقید کی گئی۔ اسے مکافات عمل کہیے کہ قوم نے قائد اعظم محمد علی جناح کے مساوات، رواداری اور آزادی کے اس ویژن کو تسلیم کرنے سے صاف انکار دیا جو انہوں نے 11 اگست 1947 کو پیش کیا تھا۔ شملہ وفد کے دوسرے رکن لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی اور رہے عبدالرب نشتر تو ان کی زندگی کے آخری برس سیاسی بے دست و پائی میں گزرے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ نشتر صاحب اسکندر مرزا اور غلام محمد جیسے عبقری رہنماؤں کا مقابلہ کیسے کرتے۔ ایک اور سیاست دان حسین شہید سہروردی تھے۔ انہوں نے اس ملک میں حزب اختلاف کی بنیاد رکھی۔ وہ ملک کے دونوں حصوں کو متحد رکھنا چاہتے تھے۔ ان کے اس جرم کی سزا انہیں بیروت کے ایک ہوٹل میں دی گئی۔

اس خطے کی مٹی میں ایسے باغیانہ بیج موجود ہیں کہ ہزار ہل چلاؤ، کالا باغ اور منعم خاں جیسے سخت گیر رکھوالے مامور کرو، وطن دوستی کی خودرو بوٹی جگہ جگہ سے سر نکالتی ہے۔ ہم نے رتو ڈیرو کے ذوالفقار علی بھٹو کو ٹوٹا پھوٹا اور شکست خوردہ ملک سونپا۔ ملک کا بڑا حصہ ہمیشہ کے لئے کٹ چکا تھا۔ نوے ہزار جنگی قیدی اور چھ ہزار مربع میل رقبہ دشمن کے قبضے میں تھے۔ دنیا کے آدھے ملکوں میں پاکستان کے سفارت خانے مع عملہ بنگلہ دیش سے جا ملے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹوکا جرم عظیم یہ تھا کہ سرزمیں بے آئین کو ایک متفقہ دستور بخش دیا اور دستور بھی ایسا سخت جان کہ دو قاتلانہ حملے سہ چکا۔ 8ویں اور 17ویں آئینی ترامیم میں بلامبالغہ سینکڑوں ہی گھاؤ آ ئے ہوں گے مگر اس دستور نے پنجگور سے خنجراب تک اور فتح جنگ سے صادق آباد تک 20 کروڑ شہریوں پر سائبان تان رکھا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نامی اس قومی مجرم کو مولوی مشتاق حسین جیسے غیر جانبدار اور نیک طبع منصف نے سزائے موت سنائی۔ غضب خدا کا کہ بے نظیر بھٹو عورت ذات ہو کر صالحین کے منہ آتی تھی۔ مغربی جمہوریت مسلط کرنا چاہتی تھی۔ باپ کی طرح وہ بھی سمجھتی تھی کہ غربت اور بدحالی یہاں کے باشندوں کا مقسوم نہیں ہیں۔ ہم نے بے نظیر کی کردار کشی کی، اس پر ہر طرح کا الزام لگایا۔ باپ کے انجام سے ڈرایا۔ بھائی کو قتل کیا۔ اسے عدالتوں میں گھسیٹا، جلاوطن کیا اور بالآخر قتل کر دیا۔

اور اب نواز شریف ہی کو دیکھیں۔ اس کی سب سے بری عادت یہ ہے کہ جب بھی شرافت سے چلے جانے کو کہا جائے، دونوں ہاتھوں سے گھاس پکڑ لیتے ہیں۔ 1993 میں پیر مغاں غلام اسحاق خاں کو لے ڈوبے۔ 99 میں طیارہ ہائی جیک کر لیا۔ ایوان وزیر اعظم میں بیٹھ کر ہزاروں میل دور اڑتا طیارہ اغوا کرنے کا یہ محیر العقول جرم ایسا تھا کہ صاحبان ذی وقار کو دسمبر 1999 میں قندھار کے ہوائی اڈے پر اس واردات کی مشق کر کے دکھانا پڑی۔ نواز شریف صاحب بھی عجب مٹی سے بنے ہیں، کبھی موٹر وے بناتے ہیں تو کبھی واجپائی صاحب کو لاہور بلاتے ہیں۔ کبھی سی پیک کی صورت میں معیشت کے دروازے کھولتے ہیں تو کبھی کارگل کے برفانی جہنم میں پھنسے جوانوں کی گھر واپسی کے لئے بل کلنٹن کے گھٹنے چھوتے ہیں۔ کبھی میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے ہیں۔ معاصر عزیز کو اداروں کی شکست و ریخت پر صدمہ ہے۔ یہ بتانا انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ آمریت میں یہ سب ادارے کتنے مضبوط ہوتے ہیں؟ بس یہی ایک عیب ہے سیاست دان میں کہ وہ مہم جوئی نہیں کرسکتا۔ ہر اچھی تجویز پر کنوتیاں کھڑی کر کے پوچھتا ہے کہ اس کا لائحہ عمل کیا ہے، آئندہ کا روڈ میپ کیا ہے؟ اس کے لئے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے؟ اس سے کیا فوائد حاصل ہوں گے اور کیا ممکنہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں

سیاست دان واقعی وطن سے محبت کے ناقابل علاج مرض میں مبتلا ایک مخلوق کا نام ہے اور ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ یہ سب زیادتیاں سہتے ہیں لیکن ظالم کا نام تک نہیں لیتے مبادا وطن کا نام غبار آلود ہو۔ یہ جمہور کے حق حکمرانی کی بات کرتے ہیں۔ لوگوں کے لئے بہتر معیار زندگی کا خواب دیکھتے ہیں۔ بوٹ کی نوک سے بوئے ہوئے کانٹے اپنی پلکوں سے چنتے ہیں اور اگر کسی مشکل صورت حال میں ہوں تو مہمند ایجنسی کے لڑکے بالے کھلکھلا کر تالی پیٹتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم پھنس گیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).