غربت کدے میں جاں کا زیاں تو لازم ہے


کہتے ہیں کہ کراچی میں کلفٹن کے پُل کے اس پار کے رہنے والوں کو شاید احساس ہی نہیں ہے کہ ہم سب ایک غربت کدے میں رہتے ہیں۔ شاید یہی وجہہ ہو کہ احمد پور شرقیہ میں سینکٹروں غریبوں کی جانوں کا زیاں ان کے لئے  یہ صرف ہر دن کا ایسا واقعہ ہے کہ جس پر سوچنے کے لئے ذہن پر زور دینا ضروری نہیں ہے۔

لیکن اگر سوچیں تو اندازہ ہوگا کہ جس غربت کدے میں ہم رہتے ہیں، وہ افغانستان، نائجیریا، سوڈان، موزمبیق، اور کینیا جیسا ہی ایک ملک ہے۔

اس میں اور ان ممالک میں جو ایک اہم مماثلت ہے وہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک میں عوام کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق غربت کی عالمی لکیر سے مراد، روز مرہ کی شخصی آمدنی کا تقریباً دو سو روپے سے کم ہونا ہے۔ اب ایک لمحہ کے لئے ان خاندانوں اور گھروں کے بارے میں غور کریں جن میں چار یا چھ افراد صرف ایک فرد کی آمدنی یعنی دو سو روپے میں کیسے گزارا کرتے ہوں گے۔

 شاید یہی وجہہ ہے کہ جب بھی ان ممالک میں احمد پور شرقیہ جیسا سانحہ ہوتا ہے، لوگ سینکڑوں کی تعداد میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھے، مٹی کے تیل، گاڑیوں کے پیٹرول، یا کسی بھی قسم کی جنس کی طرف دوڑتے ہیں، اس امید میں کہ شاید اس کے ذریعہ سے ہونے والی ممکنہ آمدنی سے دو روز کا گزارہ ہو جائے، یا کم ازکم ایک یا دو دن بغیر خرچ کئے چولہا جل جائے۔

یہاں افغانستان، نائجیریا، سوڈان، موزمبیق، اور کینیا کا حوالہ اس لئے بھی دیا ہے کہ حالیہ چند برسوں میں ان ممالک میں بھی تیل یا پیٹرول کے ٹینکروں کے حادثات پر عوام وہاں بھی مٹی کا تیل اور پیٹرول جمع کرنے بھاگے تھے (ہم نے جان بوجھ کر لُوٹنا نہیں لکھا ہے)، اور ان ٹینکروں کے دھماکوں میں ان میں سے ہر ملک میں سینکڑوں اور بیسیوں جانوں کا نقصان ہوا تھا۔

South Sudan Oil Tanker Blast

ان سارے ملکوں میں ایک اور مشترکہ حوالہ یہ بھی ہے کہ، یہ سالہا سال تک سابقہ اور حالیہ فوجی اور شہری آمریتوں کا شکار رہے ہیں۔ وہاں تعلیم کا، صحت کی سہولتوں کا، اور شہریوں کی حفاظت، اور شہری حقوق کا شدید فقدان ہے۔ یہ ممالک چاہے آمریتوں کے سائے میں رہے ہوں، چاہے اب نوزائیدہ یا نام نہاد جمہوری عمل سے گزر رہے ہوں، حقیقت یہ ہے کہ یہاں شہری اور حکومتی نظام یا تو برباد ہے یاخستہ حال ہے۔ ان جیسے سارے ممالک میں جن میں ایسے اور بھی بیسیوں ملک شامل ہیں، عوام کو ان کے حقوق سے اور بہتر شہری زندگی گزارنے کے اصولوں اور قاعدوں سے بے بہرہ اور دور تر رکھا گیا۔ یہاں بسا اوقات انسانوں سے بیگار کروائی جاتی ہے۔ انہیں ان کی محنت کی اجرت یا تو دی نہیں جاتی، یا زکوۃ اور خیرات کے طور پر دی جاتی ہے۔

ان سار ے ممالک میں شہری، نواحی، اور دیہی عوام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور شہروں میں بھی طبقاتی فرق اتنا زیادہ ہے کہ لوگوں میں ایک حدِ فاصل کھنچی رہتی ہے چاہے وہ کسی پُل کی صورت میں ہو یا لیاری، بغدادی، اور ڈیفنس سوسائٹیوں جیسے علاقوں میں تفاوت کی صورت میں ہو۔

احمد پور شرقیہ جیسے واقعات سے بچنے کی کئی شرائط ہیں۔ سب سے پہلی شرط تو یہ تسلیم کرنا ہے کہ ہم پاکستانی ایک پسماندہ قوم ہیں۔ ترقی یافتہ اقوامِ عالم اور ہم میں، زندگی کے اہم اشاریوں کے حوالوں سے زمین آسمان کا فرق ہے ۔ جب ہم صدقِ دل سے یہ تسلیم کرلیں گے تو پھر بہتری کے طریقے بھی سمجھ آیئں گے۔ ان طریقو ں میں اولین ایسی جمہوریت کا قیام ہے کہ جس میں عوام متفقہ طور پر یہ فیصلہ کریں کہ ہم اپنی قسمت کے مالک ہیں اور ہم سارے فیصلے عوام کی بہبود کے لئے کرتے ہیں۔

 ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ملک کے ہر شہری کو سیکنڈری اسکول تک مفت تعلیم فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اور یہ کہ بنیادی تعلیم کی فراہمی مہنگے پرایئویٹ تعلیمی اداروں یا خیراتی اداروں کے ذریعہ نہیں ہو سکتی۔ تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور اس کو وہ لوگ کنٹرول نہیں کر سکتے جو تعلیم کو بیچ کر کروڑ پتی بنے بیٹھے ہیں۔ جب عوام اصل میں تعلیم یافتہ ہوں گے تو پھر یہ بھی جانا جائے گا کہ شہریوں کو طبی سہولتیں میسر ہونا بھی ان کا بنیادی حق ہے اور یہ کہ یہ سہولتیں خیراتی طور ر فراہم کرنا بھی کسی گناہِ کبیرہ کی طرح ایک کارِ بد ہے۔  پاکستان کا آیئن، پانچ سے سولہ تک کی عمر کے بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم کی فراہمی کو بنیادی انسانی حق گردانتا ہے۔ پاکستان ‘ عالمی میثاقِ انسانی حقوق “ کے اولین دستخط کنندگان میں شامل ہے، جس میں تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جن ممالک میں مفت بنیادی تعلیم دی جاتی ہے جس کے اہم اجزا میں مدنیت اور شہریت کے اصول اور انسانی جان کی حفاظت کے طریقے شامل ہوتی ہے، وہاں کا بچہ بچہ ایسے حادثات کے وقت نہ صرف اپنے لئے بلکہ دیگر شہریوں کے لئے بھی حفاظت کا انتظام جانتا ہے۔

اگر ہم صرف اتنا ہی جان لیں تو شاید ہم زینہ بہ زینہ درجہ ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہونے کے بنیادی معیاروں تک پہنچ پایئں۔ یہاں یہ کہنا ہر گز مقصود نہیں ہے کہ ہم ایک جست لگا کر دنیا کے مہذب ترین ممالک میں شامل کینیڈا جیسے ممالک کی صفِ اول میں جا پہنچیں۔ بلکہ صرف یہ دھیان دلانا ہے کہ ترقی درجہ بدرجہ ہوتی ہے، اور اس کے لئے نیت اور خود احتسابی لازمی شرط ہے۔ یہ عمل سالہا سال پر محیط ہوتا ہے۔ ہم نے یا ہم جیسے اور دیگر ممالک نے یہ عمل ابھی شروع ہی نہیں کیا ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہو گا ہم بدقسمتی سے وقتاً وقتاً احمد پور شرقیہ جیسے سانحوں کو جھیلتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).