باز محمد کاکڑ نے عید کی مبارک نہیں بھیجی


اس سال عید کی مبارکباد کے پیغامات میں ایک پیغام نہیں تھا جو میرے دوست باز محمد کاکڑ کا ہوتا تھا۔ عید کی صبح جب میں موبائل آن کروں تو کبھی پشتو کبھی اردو اور کبھی انگریزی میں باز محمد کی طرف سے عید کی خوشیوں کا پیغا م ضرور ہوتا تھا۔ بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے طلبہ شام کو لاء کالج سے ایل ایل بی بھی کیا کرتے تھے۔ روزی خان، راحیلہ درانی، کامران ملا خیل، غنی آغا اور باز محمد سب ان میں شامل تھے جنھوں نے مختلف مضامین میں ماسٹرز کیساتھ لاء کی ڈگری بھی لی ہوئی تھی۔ یونیورسٹی سے فارغ ہوکر باز محمد، راحیلہ اور کامران نے جناح روڑ پر ایک پلازہ میں اپنے چیمبر بنا کر وکالت شروع کردی۔ میں جب بھی کوئٹہ جاتا تو ہوٹل میں چیک ان کے بعد پیدل ہی ان کے دفتر میں چلا جاتا اور وہ سب ایک چیمبر میں جمع ہوتے اور پھر گھڑی کی سویاں پلٹ کرہمیں ماضی کے یونیورسٹی کے کیمپس میں لے جاتیں اور ہم نہ ختم ہونے والی باتوں میں لگ جاتے۔ اس دوران ان وکلاء کے سائلین کو دوسرے دن کا وقت دیا جاتا اور جن کے لازمی امور ہوتے ان کو جلدی جلدی نمٹا دیا جاتا۔ روزی خان بڑئچ پہلے ہی جج بن گئے تھے، کامران ملا خیل بھی جج بن گئے، راحیلہ درانی سیاست میں آگئی اور بتدریج منازل طے کرتے ہوئے اب بلوچستان اسمبلی کی سپیکر ہیں۔ باز محمد کاکڑ کو وکالت سے عشق تھا اسی کے ساتھ جڑے رہے۔ وکیلوں کے معاملات میں آگے آگے رہتے چاہے وہ ملک میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک ہو یا بلوچستان کے وکلا اور عدلیہ کے معاملات۔ ایک واقعے میں آٹھ اگست 2016 کو جب ایک وکیل بلال انور کاسی پر گھات میں بیٹھے دہشت گردوں نے حملہ کیا تو ان کی عیادت کے لئے ہسپتال جانے والے درجنوں وکلا پر خود کش حملہ کیا گیا جن میں سے باز محمد کاکڑ بھی شہید ہوئے۔ اس حملے میں بلوچستان میں وکیلوں کی ایک پوری پود ختم ہوگئی۔

بلوچستان کا یہ واقعہ کوئی انوکھا اور پہلا نہیں کہ جس میں ایک منصوبے کے تحت ایک واقعے کے بعد لوگوں کو جمع کر کے ان کو پھر سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ اس سے پہلے بھی ہسپتالوں، جنازہ گاہوں اور قبرستانوں پر جمع ہونے والے لوگوں کو اپنے عزیزوں اور پیاروں کی میتوں پر گرا دیا گیا ہے۔ایسے ہی ایک اور واقعے میں علمدار روڑ کوئٹہ میں ایک اور سماجی کارکن اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والےنوجوان عرفان علی بھی بیسوں لاشوں میں سے ایک بن گئے تھے جو اپنے ہم وطنوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لئے حال ہی میں امریکہ چھوڑ کر آگئے تھے۔ جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو باز محمد جیسے انسان دوست اور عرفان جیسے رضاکار فوراً مدد کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور اسی جذبہ ایثار کو نفرت کے علبردار اپنی وحشت اور جنون کا نشانہ بناتے ہیں۔

عید سے ایک روز قبل اس سال بھی پارہ چنار میں اسی حکمت عملی کے تحت پہلے ایک واقعہ کر دیا گیا جس میں زخمی ہونے والوں اور مرنے والوں کے عزیز جب اپنے پیاروں کی مدد کے لئے جمع ہوئے تو ان کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس واقعے سے اس سال بھی پورے ملک میں عید کی خوشیوں پر غم کے سائے غالب رہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ عید کو یوم ماتم بنا دیا ہو۔ کبھی شاہراہ قراقرم پر اور کبھی لولو سر پر عید اپنے پیاروں کے ساتھ منانے کے لئے راہی سفر دہشت گردی کا نشانہ بن گئے ہیں اورعید کا دن ان کے عزیزوں اور چاہنے والوں کے لئے عید یوم سوگ بن گیا۔

ہماری حکومت ایسے کسی بھی واقعے کے بعد ایک رٹا رٹایا بیان ہر بار داغ دیتی ہے کہ ان واقعات میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے اور ایسا کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے حالانکہ ان واقعات پر مختلف گروہوں کی جانب سے سامنے آنے والا رد عمل خود حکومتی بیانات کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں ایسے واقعات کا نشانہ بننے والا ایک مخصوص گروہ ہوتا ہے یا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ایک خاص فکر سے اتفاق نہیں کرتے۔ ایسے واقعات کے پیچھے ایک خاص سوچ اور فکر ہمیشہ کارفرما رہی ہے جس کو ہمارے ہاں ہی پروان چڑھایا گیا ہے۔ اس نخلستان نفرت کی آبیاری ہمارے اہل محراب و منبر ہی کرتے ہیں اور خوف و دہشت کے اس عفریت کی رگوں میں دوڑنے والا خون ہمارے دبستانوں کی قرطاس ایبض پر چلنے والے خامہ کی روشنائی ہی سے آتا ہے۔ پچھلی چار دھایئوں سے بوتل سے باہر آئے اس جن کی زندگی کا دارومدار اسی کشت و خون پر ہی ہے جو اس کے منہ کو لگا ہے۔

اس اندوہناک قتل و غارت گری کے پیچھے عقائد کی بنیاد پر پروان چڑھنے والا نفرت کا وہ پیغام ہے جو ہماری درسگاہوں، دبستانوں اور دانشگاہوں سے بلا روک ٹوک جاری و ساری ہے۔ اس نفرت کی کوئی حد نہیں جس کا نشانہ بننے ولا کسی ادارے میں نوکری کی امید سے آئے اہل و ناہل سے لیکر راہ چلتے مسافر تک کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ مذہبی بنیاد پر نفرت کے پیغام کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس میں نفرت کو عبادت کا درجہ دیا جاتا ہے۔ نفرت کی جنگ میں ظلم اور جبر کو ایمان کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ کسی کی جان لینے سے جنسی درندگی تک اور کسی کے مال کھانے سے لیکر لوٹ مار تک ہر قسم کے جرائم ایک مقدس مذہبی فریضہ بن جاتے ہیں۔ جب مخالف گروہ کے کسی فرد کی جان لینا گناہ نہیں بلکہ باعث افتخار ہو تو عام معمولات زندگی میں اس گروہ کے لوگوں کے ساتھ تعصب برتنا بھی معمول کا حصہ بن جاتا ہے۔ اقلیتوں کی لڑکیاں اغوا کرکے ان سے شادی اور مخالفین کی جائدادیں ہتھیانے کے لئے ان پر توہین مذہب کے الزامات کے واقعات اب کوئی نئی بات ہی نہیں۔

قرون وسطیٰ میں اپنے عقیدے کے علاوہ دیگر عقائد کو غلط ہی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایسے عقائد رکھنے والوں سے جینے کا حق بھی چھیننا یورپ میں بھی ایک عام روش تھی جس پر اہل یورپ کو آج بھی شرمندگی ہے۔ تاریخ کے ان واقعات پراگر فخر ہو جن میں ہم مذہبوں نے مخالفین کو تہ تیغ کیا ہو تو ایسی کسی بات کو موجودہ حالات میں باعث شرمندگی نہیں سمجھا جاتا۔ مخالفین کے سروں کے مینار بنانا اور دشمن کی بیٹیوں کی نیلامی یا دشمنوں کو غلام بنا کر بیچ دینے پر فخر  وہ اندھی تقلید ہے جس کی ہمارے ذاکرین، مفکرین، علما ء اور مشائخ دن رات ترویج میں مصروف ہیں تو اس کے نتائج گردنیں کاٹنے، بموں سے بر خچے اڑانے اور لاشوں کی بے حرمتی کے سوا کیا نکل سکتا ہے۔اگر اس نفرت کو ختم کرنا ہے تو سب سے پہلے نفرت کے اس نخلستان کی آبیاری کرنے والوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔جب تک نفرت کی ترویج رہے گی جب تک تکفیر کی تبلیغ رہے گی عید پر خوشیوں کے پیغامات بانٹنے والے کم ہوتے رہیں گے اگر اس سال باز محمد کا پیغام نہیں آیا ہے تو ہوسکتا ہے اگلے سال کی عید پر میں اور آپ میں سے بھی کسی کا پیغام نہ آئے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan