پارہ چنار کے شہد ا اور جل کر مرنے والوں کا نوحہ


چوری کر نے کے بعد میں اگر یہ کہوں کہ ریاست نے انصاف کا نظام درست نہیں بنایا تو سچا ہونے کے باوجود میری بات کتنے فیصد لوگ سنیں گے؟ ظاہر ہے بہت کم، اس لئے کہ میں خود چور ہوں۔ سچ کا پرچار اگر میں کر نہیں سکتا تو خاموشی کے ساتھ مجھے سچ کو تسلیم تو کرنا چاہیے کہ نہیں؟ تین دن کی شدید کشمکش کے بعد میں یہ الفاظ لکھنے کے قابل ہوا ہوں ورنہ سوچ یہ تھی اس ننگے سچ سے پرہیز کروں کہ ہماری قوم اب سچ سننے کی روادار نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ الفاظ بہت سے دوستوں کی طبیعت پر ناگوارگزریں لیکن حقیقت کا ادراک ہمیں کرنا ہوگا کہ دوسرا کوئی راستہ ممکن نہیں۔

فرض کیجئے سفر کے دوران عین سڑک پر آپ کی گاڑی خراب ہوگئی اور آپ بے یارومددگار ہو گئے، اسی دوران کچھ لوگ نمودار ہوئے، کسی نے آپ کی گاڑی میں رکھے سامان پر ہاتھ صاف کئے، کوئی ٹائر نکال کر چلتا بنا، کسی نے گاڑی کی نشستیں اکھاڑ لیں اور کوئی انجن لے اڑا،عین سڑک کنارے کھڑی گاڑی کے بچ جانے والے انجر پنجر کو ٹھکانے لگاتا اگر کوئی شخص سڑک پر دوڑتے ٹرک کی زد میں آکر کچلا جائے تو آپ کو اس سے کیا ہمدردی ہوگی؟ اس قوم کو تربیت اورفکر کی تبدیلی کی ضرورت ہے جو تعلیم اور تربیت کے فروغ سے ممکن ہوگی آغاز جس کا ماں کی گود سے ہوتا ہے اور پھر معاشرے کا بھی اس میں پچاس فیصد حصہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس پچاس فیصد کی ذمہ داری بڑی حد تک ریاست اور حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ایک لڑکی کو اچھی تعلیم، مثبت سوچ اور بہترین کردار دے کر ہم ایک بہترین اور اکل کھری قوم کی تعمیر کا آغاز آج بھی کر سکتے ہیں لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جن کو یہ احساس ہے۔ ہم میں سے اکثریت کے بچے آج بھی اگر تعلیم کے حصول کے لئے سکولوں کے نام پر کھلنے والی دکانوں میں روزانہ حاضری دیتے ہیں تو صرف اس لئے کہ مطلوبہ سرکاری نوکری مل جائے اور زندگی آسانی سے کٹ جائے۔ پیدا ہونا،جوانی میں شادی کرنا، بچے پیدا کرنا اور پھر بڑھاپے میں مرجانا کیا یہی شرف انسانیت ہے؟ ذرا سوچئے ایک گدھا بھی یہی کچھ کرتا ہے توآ پ مختلف کیسے ہوئے؟

دوسروں کی طرح ایک خاکی کی حیثیت سے احمد پور شرقیہ میں ہونے والے سانحے پر مجھے بھی حد درجہ افسوس ہے لیکن پاراچنار کے شہدا کا کوئی تقابل احمد پور شرقیہ کے مرحومین کے ساتھ پرلے درجے کی حماقت ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے اس سے بڑا سانحہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک سو ساٹھ کے قریب افراد زندہ جل مرے اور سو کے قریب زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں لیکن احمد پور شرقیہ میں ہونے والا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ نہ پہلے واقعے سے ہم نے کوئی سبق سیکھا اور نہ اب کوئی ایسا ارادہ ہے۔ ہاں حکومت کی لفظی چھترول کرنے میں جتنے شیر ہم ہیں اتنی شاید ہی دنیا کی کوئی قوم اور ہو لیکن عمل سے تہی دست۔ اعتراض یہ ہے کہ بڑی تعداد میں برن یونٹس ملک کے کونے کونے میں کیوں موجود نہیں ہیں؟ دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہوتے ہاں لیکن ہمارے ہاں بہت ہی کم ہیں، نہ ہونے کے برابر۔ چھ کروڑ سے پچاس لاکھ کے لگ بھگ آبادی والے برطانیہ میں سینتیس، بتیس کروڑ سے زائد کی آبادی والے دنیا کے بادشاہ امریکہ میں صرف ایک سو تیئس، آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ملک میں صرف تیرہ اور کینیڈا میں پچیس برن یونٹ ہیں۔ ہمارا ان ملکوں کے ساتھ کوئی موازنہ بنتا نہیں لیکن بہرحال کسی بھی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ملک بھر میں برن یونٹس قائم کرنے سمیت صحت کی بہترین سہولیات کو عام کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بعض ” دانش ور“ قسم کے لوگوں کو اعتراض یہ ہے کہ احمد پور شرقیہ میں جل مرنے والوں کے لواحقین کو بیس لاکھ روپے دئیے جارہے ہیں جبکہ پاراچنار کے شہدا کی جانوں کی قیمت کم لگائی جا رہی ہے۔

عقل کے اندھو! دونوں واقعات اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل الگ ہیں اور ان کا موازنہ کوئی احمق ہی کر سکتا ہے۔ احمد پور شرقیہ کے متاثرہ خاندان قانونی طور پر کسی بھی مالی امداد کا حق نہیں جتا سکتے لیکن ریاست کی اخلاقی ذمہ داری ضرور ہے کہ وہ متاثرہ خاندانوں کی آئندہ زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ پنجاب حکومت کا قابل تعریف عمل یہ ہے کہ وہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کی مدد اور زخمیوں کو علاج کے لئے بھاری رقم فراہم کر رہی ہے۔

پارہ چنار میں شہید ہونے والوں کا دکھ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ افغان سرحد کے قریب کرم ایجنسی کا صدر مقام ہونے کے ناطے یہ براہ راست وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ یہ اعتراض کہ پارہ چنار میں دہشت گردی کے زخمیوں کو کسی نے نہیں پوچھا حقیقت کے برعکس اور انتہائی لغو ہے۔ ایجنسی انتظامیہ اور فوج نے زخمیوں کو فوری طور پر مقامی ہسپتال میں منتقل کیا اور پھر شدید زخمیوں کو آرمی کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ہی پشاور کے سی ایم ایچ میں منتقل کیا گیا جہاں گورنر کے پی کے اقبال ظفر جھگڑا نے ان کی عیادت بھی کی۔ مشکل مگر یہ ہے کہ دہشت گردی میں شہید ہونے والوں کے ورثا کے لئے تین لاکھ روپے کی امدادی رقم پہلے سے طے شدہ ہے، اب ظاہر ہے انسانی جان کی قیمت تو لگائی نہیں جا سکتی لیکن بہر حال اصل بات دہشت گردی کے عفریت سے مکمل طور پر چھٹکارا پانا ہے نہ کہ ایسے واقعات میں شہید ہونے والوں کے لئے امدادی رقم پر بحث کرنا۔ ریاست کے زیر قیادت فوج دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پرعزم ہے اور سب کونظر آ رہا ہے کہ گزشتہ تین چار برس میں ہمیں اس حوالے سے موثر اور نتیجہ خیز کامیابیاں بھی ملی ہیں لیکن بہرحال دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے ایک طویل جنگ کی ضرورت ہے اس وقت تک کہ ہم اس کی جڑوں کو ہی نہیں بلکہ بیج کو بھی جلا کر راکھ کردیں کہ آئندہ کوئی ہمارے ملک میں یہ بیج دوبارہ نہ بو سکے۔

دہشت گردی اس ملک کا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ بن چکا ہے لیکن ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کی خبر لینی ہے۔ سری لنکا نے پاک فوج کے تعاون سے تقریباَ تیس برس تک اس لعنت کے خلاف جنگ لڑی، بھارت جس کا سپانسر تھا تب جا کے وہ اپنے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر سکے لیکن خاکسار کی رائے یہ ہے کہ پوری طاقت اور سنجیدگی کے ساتھ پاکستان صرف تین برس پہلے دہشت گردوں کے خلا ف صف آرا ہوا اور نتائج اس کے بہت حوصلہ افزا ہیں لیکن مکمل امن اور ملک کے ہر کونے میں معمول کی زندگی بحال کرنے میں ہمیں ابھی وقت لگے گا۔ شرط یہ ہے کہ جب تک ہم مکمل امن کی منزل کو پا نہیں لیتے تب تک ہمیں نہایت چوکنا رہنا ہو گا اور اپنی صفوں میں اتحاد کو بھی برقرار رکھنا ہو گا۔ قوموں کی زندگی میں دو تین دہائیاں کوئی زیادہ وقت نہیں ہوتا لیکن اگر درست سمت میں مثبت اور تعمیر ی کاموں میں یہ وقت گزرے تو ایک ایسی بنیاد ضرور بن جاتی ہے جس پر شاندار عمارت کی تعمیر تیزی کے ساتھ مکمل کی جا سکے۔

تربیت اور کردار سازی پر مرکوز کی جانے والی تعلیم! تعلیم، تعلیم اور بس تعلیم ہی اس لعنت سے چھٹکارا پانے کی پہلی سیڑھی ہے ایک مسلمان ہونے کے ناتے اور جدید دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے لئے جس کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا افلاس انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے۔ صرف تعلیم سے قوم کی تعمیر کی بنیاد تو رکھی جاسکتی ہے لیکن شاندار،خوشحال اور پرامن مستقبل کے لئے ہمیں اپنے نوجوانوں کوصرف سرکاری نوکری کے حصول کی سوچ سے باہر نکل کر روزگار کے مواقع بھی فراہم کرنا ہوں گے۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر ہم دہشت گردی کو مکمل شکست دیتے ہوئے ایک پرامن اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).