جونئیر بھٹو کا نیا روپ۔۔۔۔


 اس نے ہمارے مرد نما معاشرے کی مردانگی کو چیلنج کیا ہے۔ اس نے کیوئر (Queer) کلب سے اپنے کیرئیر کا آغاز کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ مرد صرف مردانگی کا نام نہیں، اس میں نسوانیت کا بھی حصہ ہے یا ہر مرد میں ایک عورت بھی ہوتی ہے جس کو اندر سے نکالنا نہیں چاہئے، یہ بھی کہ معاشرہ مرد اور عورت کے فرق کو ختم کردے ۔

ٹرانسجینڈر کے معنی کیا ہو سکتے ہیں، عورت اور مرد ایک ساتھ؟ مرد اور نامرد ایک ساتھ؟ دنون کا مسکچر بھی اور مسکچر نہیں بھی؟ یا مخنث ؟ فی الوقت اسی لفظ پر اتفاق ہے۔ لیکن جونئیر کے اس نئے روپ کو پاکستان کی قومی زبانوں (جنہیں علائقائی زبانیں کہہ کر نظرانداز کیا جاتا ہے) سندھی، پنجابی، پشتون، بلوچی اور سرائیکی میں کیا کہا جا سکتا ہے، یہ سطحی قسم کے سوالات بھی جوابات کے منتظر ہیں۔

جونئیر کو اپنی زندگی جینے کا حق اپنی جگہ، ان کے نجی معاملات اور ذاتی زندگی میں کسی کی مداخلت بھی ناقابل برداشت والا اصول بھی درست، ان کے حوصلہ کو بھی داد ملنا چاہیے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے حوصلے کی توقع بھٹوز سے ہی کی جا سکتی ہے۔

جونئیر نے علیٰ اعلان کیوئر کلب جوائن کرنے اور اسی پلیٹ فارم سے مردوں کے اندر کی نسوانیت کو اجاگر کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن کیا اس سے زیادہ بہادر وہ نہیں تھے جنہوں نے اس نظام سےمقابلہ کرنے کا اعلان کر کے سسٹم سے لڑنے کی ٹھان لی تھی؟ کیا سینئر بھٹو یعنی جونئیر کے دادا، بابا اور پھوپھی نے اس سیاسی نظام میں ایک پہل کر کے سیاست کی کایا نہیں پلٹ دی تھی۔ وہ اسٹیٹس کو کے لئے خطرہ بنے، وہ اپنی ذات نہیں اپنے لوگوں کے لئے لڑے، یہ بات الگ ہے کہ آگے چل کر انہی بھٹوز کی لڑائی اپنے مفادات، اقتدار، اپنی خوشیوں اور اپنی ذات یا اپنوں کی ذات تک محدود ہو گئی لیکن یہ جنگ عوام نے نام سے اور عوام کے لیے شروع ہوئی تھی۔

اب تو ذوالفقار جونئیر کا پیغام روز بہ روز دور تک جا رہا ہے، ملک کے ڈانسر، فنکار اور آرٹسٹک طبقے نے انہیں دیومالائی کردار کا خطاب دیا ہے لیکن اس سماج میں اپنی آواز بلند کرنے والے کچھ سیاسی کرداروں نے جونئیر سے متاثر ہوکر ان سے اظہار یکجھتی کرنے کے لئے سر پر دوپٹے رکھ کر کپڑوں پر سلائی کڑہائی کام کام کرنا شروع کر دیا ہے، یعنی اب پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے سیاسی کارکنان نے اپنی اندر کی خواتین کو باہر نکالنا شروع کردیا ہے جبکہ اس ملک کے روایتی اور دقیانوسی معاشرے کی اکثر خواتین اب بھی حجاب، برقعے، چادر، چاردیواری اور عبایوں میں مقید ہیں۔ سوال تو یہ بھی اہم ہے کہ کیا جونئیر کے اس پیغام سے وہ معاشرہ ایک دم سے انگڑائی لے کر جاگ جائے گا جہاں عورت آج بھی باندی اور غلام ہے؟ جسے حجابوں اور کپڑوں کے لبادوں میں دم گھٹنے کے لئے کسی جانور کی طرح کھونٹے سے باندھا ہوا ہے ۔

ذوالفقار جونئیرکا یہ نیا روپ پتا نہیں کب ھضم ہو لیکن اس کے اس نئے روپ کے حمایت اور مخالفت میں دلیلوں کی لمبی تاویلیں باندھی جا رہی ہیں، ان کے حامیوں اور مخالفوں میں نت نئے مباحث چھڑ چکے ہیں۔ کچھ جذباتی دوست تو جونئیر ذوالفقار کو دقیانوسی سوچ کے حامل معاشرے کا امام انقلاب کہہ رہے ہیں، کچھ احباب کا خیال ہے کہ وہ پانی میں پتھر پھینکنے والا پہلا نوجوان ہے، جونئیر کے حامی لوگوں کے دلائل سے تو یوں لگتا ہے کہ حق نسوانیت کی یہ تحریک ایک انقلاب کی صورت اختیار کرلے گی۔ نوجوان جونئیر کس معاشرے کو جھنجھوڑنا چاہ رہا ہے؟ اس معاشرے کو جو خود کئی دہایوں سے بھٹکتی روح کی مانند کسی مقام و پہچان کا متلاشی ہے۔ مضطرب، متزلزل، ڈگمگاتا، لڑکھڑاتا اور اتار چڑہاو کا شکارمعاشرہ، جسے نہ کوئی منزل سوجھ رہی ہے، جسے کوئی کنارہ تو کجا کوئی سمت بھی دکھائی نہیں دے رہی، اگر اس کی کوئی شکل و صورت ہے تو اس پر بھی اندھیروں کے پردے پڑے ہیں۔ ہمارا معاشرہ ہمارے ملک کی طرح ہمہ وقت نازک صورتحال سے دوچار ہے، اب تو ہم نازک صورتحال کے ساتھ حالت جنگ کا ساز و سامان بھی اپنے کاندھوں پر لادے ہوئے ہیں۔ ہمارے سماج کے مسائل کچھ اور ہی ہیں، لوگ معاشرے کی تبدیلی سے پہلے کوئی مضبوط معاشرہ چاھتے ہیں، وہ کوئی ایک نظام، گورننس چاہتے ہیں، جھوٹے وعدوں اور انتخابی نعروں سے تنگ لوگ عوامی مفادات کی سچائی اور منافقت سے پاک سیاست کے خواہاں ہیں۔ یہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کا انجام اپنے دادا کی طرح پھانسی کے جھولے پر جھولنا ہو، کسی کی خواہش نہیں کہ ان کا حشر بے رحم ریاستی اداروں کے بیچ میں اپنے والد جیسا ہو، سب ان کے لئے عمردراز کے دعاگو ہیں، کوئی اسے زہر ملنے یا بیچ شاہراہ پر گولیوں کی بھینٹ چڑھنے کا خواہاں نہیں لیکن اگر کوئی شخص سکڑتے، سسکتے، ڈوبتے، کمزور ہوتے اور مرتے سیاسی سسٹم میں دوغلےپن سے پاک سیاست کی خواہش رکھتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے؟

لوگ چاہتے ہیں کہ یرغمال بنے اس سیاسی نظام میں سودے بازیوں سے پاک عوامی مفادات کے عین مطابق سیاسی نظام کی بنیاد رکھنے والا کوئی تو ہو، اگر لوگ سوچتے ہیں کہ جونئیر ایک دن اپنے والد طرح للکارتا ہوا ،چیختا،،پکارتا اور ظالم کو دھمکاتا ہوا دبنگ قسم کے سیاستدان کے روپ میں ظاہر ہوگا تولوگوں کو ایسا سوچنے کا حق ہے،جونئیر بھٹو کو دیکھنے والوں کا اگر یہ خیال تھا کہ وہ اپنے والد کی طرح وقت کی اسٹبلشمنٹ اور اسٹیٹس کو کے سامنے گلہ پھاڑ کر اور سینہ تان کر چیخ کر یہ کہے گا کہ’’ دیکھو میں میر بابا کا بیٹا ہوں، میں نے کوئی بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہنی ہوئی، یہ دیکھو میرا سینہ، اگر کسی میں ہمت ہے تو مجھے گولی مار کر دکھائے‘‘۔ لوگوں کا خیال یا خواہش تھی یا ہے کہ کہ وہ اپنے دادا کی طرح عوام کو زبان دے گا، ان کی رہنمائی کرے گا، ان میں گھل مل جائے گا، اس کے اس کیوئر کلب میں جانے سے اب نہیں لگتا کہ وہ اپنی پھوپھی جیسا بہادر بھی ہے جس نے ریاستی اداروں کی چھتر چھایا میں پلتے خطرناک دھشت گرد اور انتہا پسند مائینڈ سیٹ کی دھمکیوں کو نظرانداز کر کے اعلان جنگ کر دیا اور پھر وہ نہتی لڑکی ان سے لڑتے لڑتے اس جنگ میں شھید ہوگئی لیکن ایک دن بھی اس نے ہار نہیں مانی، وہ تو ایک عورت تھی، اس کو مرادنگی کی کیا ضرورت؟ جس سے بڑے بڑے مرد کانپتے تھے،اور حبیب جالب کو کہنا پڑا کہ’’ ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے‘‘۔

یہ سوال بھی تو اپنی جگہ پر اہم ہے کہ بھٹو جونئیر کسی ظالمانہ، یرغمال، جابر، بربریت کا نشانہ بننے والی سیاست اور ان نامعلوم ظالموں کی ظالمانہ چالوں سے بیزار ہوکر اس راہ پر آئے ہیں یا یہ بچارگی کے عالم میں یہاں پہنچے؟ اس میں تو دو آرا نہیں کہ ان کے دادا سے پھوپی تک سب لوگوں منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گئے۔ باقی بچا ہوا خاندان تتر بتر ہو چکا۔ سیاست میں ذاتی مفادات کے سمجھوتوں، خاندانی وراثت میں ملے دھوکے، سیاسی مفاھمت کے نام پر دشمنوں سے سودے بازیوں، سیاست پر غیر سیاسی قسم کے بھانڈوں کا قبضہ، محرومیاں، اضطراب، ڈپریشن، مطلب کہ یہ سب کچھ اس کا ردعمل تو نہیں؟ جونئیر بھٹو کا مسئلہ اتنا حساس اس لیے بن گیا ہے کہ یہ معاملہ بھٹو لیگسی کا ہے، آلِ بھٹو کا ہے، بھٹو خاندان کے آخری چشم چراغ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنی سوچ سمجھ کے مطابق رد عمل کا اظہار کررہے ہیں، اب لوگ یہ سوچیں کہ ایک دن وہ کسی گھڑ سوار شھزادہ کی طرح ہاتھ میں تلوار لیے کہے گا میں ہوں اصلی ذوالفقار، اور بھٹو کا اصلی وارث، دو نمبر بھٹوز کو بھگانا میرا کام ہے۔ عام لوگوں کے خوابوں اور خواہشات کے آگے بند نہیں باندھے جا سکتے،جونئیر چاہیے مخنث بنے، آدھی یا مکمل خاتون لیکن لوگوں کی وابستہ امیدوں کو کہاں رکھا جا سکتا ہے۔

سیاست میں کوئی وراثت نہیں ہونی چایئے، لیکن عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ’’بھٹو کا وارث بھٹو‘‘۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں خاص طور پر سندھ میں ایسی چاکنگ اور نعرے عام ہیں، وہ محض نعرے ہی نہیں، لوگوں نے اپنی خواہشوں کو ان دیواروں پر چپساں کرکے اپنی نظریں اس بھٹو پر لگا رکھی ہیں جو کوئیر کلب میں ڈانس کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ منافرت،  تعصب، فراڈ، دھوکے اور چیٹنگ سے پاک ایک معصوم روح سہی، لیکن لوگ جب ان سے لاکھوں کے جلسوں میں خطاب کرنے، گندی سیاست کو للکارنے، خون کے پیاسے درندہ صفت دھشت گردوں اور ان کے مائی باپوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے کے اعلان سننے کے خواہاں ہوں تو اس پبلک کی ڈیمانڈ کو کہاں رکھا جائے گا؟

یہ مسئلہ میرے لیے یا مجھ سے بڑے لکھاریوں، دانشوروں،آزاد معاشرے کے خواہاں طبقے کا نہیں،لیکن بھٹوز پر جان نچھاور کرنے والے، بھٹوز کی سیاست پر فخر کرنے والے، شھید ذوالفقار سے لیکر بینظیر اور مرتضیٰ کے لاکھوں چاھنے والے، آج بھی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو نظریاتی جماعت سمجھ کر اس سے جڑے ہوئے ہزاروں کارکنان کا بھی تو مسئلہ ہے،جو اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اب اس ملک میں اسٹبلشمنٹ جیت چکی، جس نے سب کے سب سیاستدان اپنی ساتھ ملا کر اپنی انگلیوں پر نچانا سکھا لیا ہے، چھوٹی جماعتوں نےمعمولی شرائط پر ان کی بین پر اور ان کی قائم کردہ حدود و قیود میں رہ کر سیاست کرنے کی ٹھان لی ہے، اور جن سے کچھ امیدیں ہوں وہ اب کیوئر کلب سے اپنا پیغام عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یہ صرف بھٹوز کی عوامی سیاست کا ہی خاتمہ نہیں یہ موقع دشمنان بھٹوز کے جشن کا بھی ہے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar