بھارت میں مسلمانوں پر حملوں کے خلاف بڑے مظاہرے


ہزاروں بھارتی شہریوں نے ملک کے مختلف حصوں میں اقلیتی مسلمانوں پر کیے جانے والے حالیہ حملوں کے خلاف احتجاج کیا۔ ہندو قوم پسند حملہ آور کم از کم ایک درجن مسلمان مردوں اور لڑکوں کو سرعام تشدد کر کے ہلاک کر چکے ہیں۔

مظاہرین ایسے پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر لکھا تھا، ’میرا نام لے کر نہیں‘۔ مظاہرین نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پسند حکومت کی اس خاموشی کی بھی مذمت کی، جو اس نے اقلیتی مسلم آبادی پر کیے جانے والے حملوں کے بارے میں اب تک اختیار کر رکھی ہے۔

2014ء میں جب سے نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے، ہندو قوم پسند حملہ آور کم از کم ایک درجن مسلمان مردوں اور لڑکوں کو سرعام تشدد کر کے ہلاک کر چکے ہیں۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں کیے جانے والے ایسے ایک احتجاجی مارچ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے، جن میں بزرگ شہری اور بہت سے والدین بھی تھے، جو اپنے بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ ان افراد نے اپنے ہاتھوں میں شمعیں لیے امن کے لیے گیت بھی گائے۔

اسی طرح ممبئی میں بھی ایک مظاہرہ کیا گیا، جس میں بارش کے باوجود بالی وُڈ کے کئی اداکاروں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں عام شہریوں نے بھی شرکت کی۔ اس کے علاوہ بھارت کے کئی دیگر بڑے شہروں میں بھی ہندو قوم پسند حملہ آوروں کے خلاف ایسے ہی احتجاجی مظاہرے اور مارچ کیے گئے۔

گزشتہ جمعے کے روز نئی دہلی کے مضافات میں ایک ٹرین میں سوار تقریباﹰ بیس ہندوؤں نے چار مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک کم عمر مسلمان لڑکے پر چاقو سے وار کیے گئے تھے جبکہ دو دیگر شدید زخمی ہو گئے تھے۔

یہ جھگڑا ریل گاڑی میں بیٹھنے کے لیے ایک سیٹ سے شروع ہوا تھا لیکن جلد ہی ایک ہجوم نے مسلمان مسافروں کو ’’گائے کا گوشت کھانے والے‘‘ کہہ کر پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ ہندو اکثریتی ملک بھارت میں گائے کو مذہبی طور پر مقدس سمجھا جاتا ہے اور ملک کی متعدد ریاستوں میں اس جانور کو ذبح کرنے پر بھی پابندی عائد ہے، جب کہ کچھ ریاستوں میں تو یہ باقاعدہ جرم ہے، جس کی سزا عمر قید ہے۔

بھارت میں ایسے کئی ہندو گروپ بن چکے ہیں، جو قانون سے ماورا ہو کر اپنے طور پر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش میں ہیں کہ کسی گائے کو ذبح نہ کیا جائے۔ ایسے گروپوں میں شامل افراد مختلف ٹیموں کی شکل میں اپنی ’چھاپہ مار کارروائی‘ کرتے ہیں اور اگر ان کے مطابق کوئی شخص کسی گائے کو ذبح کرنے کی کوشش میں ہو، تو وہ خود ہی ماورائے عدالت ایکشن بھی لے لیتے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار چودہ میں ہندو قوم پرست سیاستدان نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایسے ہندو گروپوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق حکومت مسلمانوں کی حفاظت کے لیے اور قانون ہاتھ میں لینے والے ہندو انتہاپسندوں کے خلاف اقدامات کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).