صوفیہ لارین اور کارلو پونتی کی باتیں


اپنے دورِ عروج میں صوفیہ لارین پاکستان میں جتنی مقبول اور جانی پہچانی اداکارہ تھیں، ان کے شوہر فلم ساز کارلو پونتی اتنے ہی غیر معروف تھے، حالانکہ دنیائے فلم کے لیے ان کی بے پناہ خدمات ہیں۔

152 فلموں کے پروڈیوسر، کارلو پونتی سے صوفیہ کی ملاقات کوئی 55 برس پہلے ہوئی تھی جب وہ پندرہ برس کی چھُوئی مُوئی سی لڑکی تھی۔ کارلو پونتی اس وقت بھی ایک جانے پہچانے فلم ساز تھے اور کئی نئے چہروں کو متعارف کرا چُکے تھے۔

چھ سات برس تک دونوں کا رومانس چلتا رہا لیکن کارلو چونکہ پہلے سے شادی شدہ تھے اس لیے اطالوی حکومت اور رومن کیتھولک کلیسا دونوں ہی اِس امکانی شادی کے خلاف تھے۔

ہر طرح کی مشکلات کے باوجود 1957 میں دونوں نے شادی کر لی لیکن سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے اتنی لعن طعن ہوئی کہ دونوں اپنا ملک چھوڑ کر فرانس چلے گئے اور وہاں 1966 میں فرانسیسی قانون کے تحت پھر سے شادی کی۔

اس واقعے کے بعد اٹلی میں شادی اور طلاق کے سخت قوانین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بعد میں اِن قوانین کو خاصا نرم کردیا گیا۔

کارلو پونتی کا نام ذہن میں آتے ہی بڑی بڑی فلموں کا خیال آنے لگتا ہے مثلاً ڈاکٹر ژواگو، وار اینڈ پِیس، لاسترادا، ٹوئنٹی فِفتھ آور، سن فلاور، دی ورڈِکٹ اور کیسنڈرا کراسنگ وغیرہ۔

1962 میں جب کارلوپونتی نے فلم ’ٹو وومین‘ شروع کی تو اس کے ذہن میں صوفیہ لارین ہی کی شخصیت تھی۔ اس بھرپور کردار پر صوفیہ کو بہترین اداکارہ کا آسکر ایوارڈ بھی ملا۔

اطالوی حکومت کے ساتھ کارلوپونتی کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے تھے۔ اپنا سرمایہ اٹلی سے باہر منتقل کرنے کے الزام میں وہ پندرہ برس تک عدالتوں کی پیشیاں بھگتتے رہے اور ان کے تمام اثاثے بحقِ سرکار ضبط رہے۔

ایک طویل قانونی جنگ کے بعد آخر کار 1980 میں ان کی خلاصی ہوئی اور انہوں نے ہمیشہ کے لیے اٹلی کو خیر باد کہہ دیا۔ گزشتہ ربع صدی سے وہ سوئٹزرلینڈ میں مقیم تھے۔

قانونی جنگ میں کارلو کی فتح غالباً اس لیے ممکن ہوئی کہ وہ خود ایک پیشہ ور وکیل تھے اور انہوں نے میلان یونیورسٹی سے وکالت پاس کرنے کے بعد کئی سال اِس پیشے میں گزارے تھے۔

1940 میں وہ ایک فلم ساز کا مقدمہ لڑ رہے تھے، مقدمہ ختم ہوا تو فلم ساز نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنی آدھی بنی ہوئی فلم اپنے وکیل کارلو پونتی کو بخش دی۔ کارلو پونتی کو اپنے گلے میں پڑا ہوا یہ ڈھول مجبوراً بجانا پڑا۔

Old Fashion World نامی یہ فلم جب 1941 میں مکمل ہوئی تو کارلو کو فلم سازی کا چسکا لگ چکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے وکالت ترک کر کے اپنی پوری توجہ فلم سازی کی طرف کردی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب لوگ ہالی وُڈ کے سٹوڈیوز کی تیار کردہ ایسی فلمیں دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے تھے جن میں گلیمر تو بہت تھا لیکن زندگی کے روزمرہ حقائق سے جنہیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ اٹلی میں ان دِنوں ہالی وُڈ کے تصّنع اور غیر فطری پن کے خلاف ایک تحریک چل رہی تھی جسے ’نیو ریلیزم‘ کی تحریک کہا جاتا ہے۔

نیو ریلیزم سے وابستہ فلم ساز سٹوڈیو کے بڑے بڑے سیٹ چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے گلیوں، بازاروں اور اصلی گھروں میں فلم بندی کی روایت شروع کی۔

کارلو پونتی نے بھی اس تحریک کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے 1954 میں انتھونی کوئن کو لیکر فلم’لاسترادا‘ٰ بنائی جس کا ہیرو ایک گشتی بازیگر ہے اور جسمانی کرتب دکھا کر مجمع لگاتا اور پیسے کماتا ہے لیکن وہ اپنی بیوی کے جذبات کو نہیں سمجھ سکتا اور اس پر بڑی زیادتیاں کرتا ہے۔ عرصہ دراز کے بعد جب ہیرو کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے تو پانی سر سے گزرچکا ہوتا ہے اور اب پچھتاوے کے سوا اسے کچھ نہیں ملتا۔

اطالوی زبان کی اس فلم کو غیر ملکی فلم کا آسکر ایوارڈ دیا گیا تھا اور یہی فلم انتھونی کوئن کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ایک سنگِ میل ثابت ہوئی کیونکہ اس فلم کے فوراً بعد وہ ایک معمولی اداکار سے سٹار میں تبدیل ہوگئے۔

کارلو پونتی اپنی پروڈکشن پر پورا کنٹرول رکھتے تھے اور اُن کے تحت کام کرنے والے معروف ڈائریکٹر، مثلاً ڈیوڈ لین اور فیلینی کی اُن سے جھڑپیں بھی ہوچُکی تھیں۔ تاہم کارلو پونتی نے ہمیشہ معیار کو اوّلیت دی اور اپنے ڈائریکٹروں کی کسی معقول تجویز کو کبھی مسترد نہیں کیا۔

جن دِنوں فرانس میں’ نئی لہر‘ کی فلمیں بن رہی تھیں، کارلو پونتی نے کئی نادار فلم سازوں کی مالی امداد کی اور انھیں تکنیکی سہولتیں بھی فراہم کیں۔ آخر کیوں نہ کرتے؟ فرانس نے انھیں ایک ایسے وقت پناہ دی تھی جب اٹلی نے انھیں ملک بدر کردیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).