مسجد سے اعلان والی بات پریس کو نہیں بتانی؟


(AP Photo/K.M. Chaudary)

عید کے روز چھپنے والے اخبارات بہاولپور کی ڈیٹ لائن کے ساتھ اندوہناک حادثے کی تفصیلات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہفتہ کی شب چونکہ رمضان کی طاق رات تھی تو فرزندان اسلام کا عبادت میں رات گزارنا فطری بات ہے یہی وجہ ہے کہ سڑک پر اتوار کی صبح ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہی ٹینکر کی تیز رفتاری کا سبب ہوا۔ 29 ویں روزہ کو مزاج میں سستی کوئی عجب نہیں شاید یہی وجہ تھی کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد ہائی وے پولیس کے اہلکار موقع پر موجودگی کے باوجود بے عمل رہے۔ فائر بریگیڈ اور ایمبولنس کو بہت تاخیر کے بعد استعمال کیا جا سکا۔

یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اتوار کے روز ایک حادثہ نہیں بلکہ دو حادثے رونما ہوئے۔ پہلا حادثہ ٹینکر کے الٹنے کا تھا اور دوسرا اندوہناک واقعہ جائے وقوعہ پر ایک گھنٹہ سے پھیلے ہوئے تیل پر آگ بھڑکنے کا۔

مگر ایک سوال ہمارے ذہن میں ایسا تھا جس کا جواب کسی بھی اخباری خبر میں نہیں تھا۔ جائے حادثہ کے اطراف کئی کلومیٹر تک کوئی آبادی نہیں، کیا یہ ممکن ہے کہ چھٹی کے دن صبح چھ بجے آنا فانا لوگ بالٹیوں اور برتنوں کے ساتھ میلوں دور سے اکٹھے ہو جائیں؟

جب اس سوال کا جوا ب جاننے کی کوشش کی گئی تو متاثرہ گائوں کے ایک شخص (جو کہ شدید صدمہ میں تھا) نے بتایا کہ گائوں کی مسجد میں اعلان کر کے بتایا گیا تھا کہ ہائی وے پر ایک آئل ٹینکر الٹ گیا ہے اور بڑی مقدار میں تیل گر رہا ہے۔ اس اعلان کے بعد خواتین نے اپنے سوتے بچوں کو بھی جگا کر جائے حادثہ پر روانہ کیا۔ تاہم حادثہ کے بعد ایک سرکاری اہلکار نے جائے حادثہ پر موجود نامہ نگاروں کو بتایا کہ مسجد والی بات پریس کو نہیں بتانی۔

آخر ہائی وے پولیس نے ٹینکر الٹنے کے بعد ایس او پی، یعنی مروجہ پروسیجر سے انحراف کوں کیا۔ جب ہم نے مقامی لوگوں سے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ ہائی وے پولیس کے مقامی افسر بھی انتہائی نیک انسان ہیں اور طا ق راتوں کی عبادات بھی باقاعدگی سے کرتے ہیں یہی نہیں وقوعہ سے پہلے کی رات بھی وہ سحری کے بعد ہی سوئے تھے اور ٹینکر کے الٹنے کا واقعہ اتنا اہم نہیں تھا کہ ان کو رپورٹ کیا جاتا۔ تاہم ٹینکر کو آگ لگنے کے ایک گھنٹے بعد وہ موقع پر پہنچے اور افسوس کا اظہار کیا۔

یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پولیس کے روکنے کے باوجود لوگ ‘تیل’ پر ٹوٹ پڑے۔ جس علاقہ میں یہ حادثہ ہوا ہے وہاں اگر کوئی بینک کا چوکیدار بھی عام شلوار قمیض پر بیلٹ باندھ کر کھڑا ہو جائے تو کسی کی مجال نہ ہوتی کہ ٹینکر کے نزدیک آئے۔ اگر ٹینکر کی تیزرفتاری ٹینکر کے الٹنے کی وجہ تھی تو یہ براہ راست ہائی وے پولیس کی غفلت تھی جنہیں نہ صرف چوبیس گھنٹے ہائی وے پر ٹریفک کے قوانین کو نافذ کرنا ہوتا ہے۔ بلکہ ان اہلکاروں کو دوران تربیت بتایا جاتا ہے کہ علی الصبح تیز رفتاری کے باعث حادثات کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

مزکورہ کیس میں ہائی وے پولیس کے اہلکار یہ سمجھتے رہے کہ ان کی بنیادی ذمہ داری حادثہ کے بعد۔ ہائی وے پر ٹریفک کو رواں دواں رکھنا تھا۔ اسی لئے ہائی وے پٹرول(گشت) اگرچہ موقع پر پہنچ گئی مگر ان کے اہلکاروں نے اپنی گاڑی سے نکلنے کی بھی زحمت نہ کی چہ جائکہ وہ مقامی افراد کو ٹینکر کے قریب آنے سے روکتے یا پھر کسی بھی خطرہ سے خبردار کرتے۔ امکان غالب ہے کہ شدید گرمی میں انہوں نے ہائی وے پر ٹریفک کی بحالی کو ہی ضروری جانا۔

پہلے حادثہ کے بعد ٹینکر کے ڈرائیور کا چالان بھی ضروری تھا مگر ہائی وے کی چالان والی گاڑی چالیس منٹ بعد تاخیر سے پہنچی کہ وہ بھی دوسرے حادثہ کا شکار ہوئی۔ ہاں یہ بات طے ہے کہ پہلا حادثہ رونما ہونے کے بعد اگر مروجہ پروسیجر کو وقت پر کیا جاتا تو کسی بھی طرح کے جانی نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اتنے بڑے سانحہ میں ابتدائی چند گھنٹے ابلاغ کی تمام تر رپورٹنگ کا انحصار نامہ نگاروں پر رہا۔ رپورٹنگ بہاولپور سے ہوئی اور یہ کوئی غلط بات بھی نہیں آخر جدید مواصلات کے اس دور میں شدید گرمی اور روزہ کے ساتھ رپورٹر حضرات کا جائے حادثہ پر پہنچنا کچھ اتنا ضروری بھی نہیں ہونا چاہئے۔ تمام تر خبریت روٹین کے مطابق متعلقہ اداروں سے راابطہ اور ہسپتال کے انفارمیشن ڈیسک سے مکمل ہو جاتی ہے۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ کل بھاولپور میں عید کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کی بھی کمی تھی۔ ابتدائی گھنٹوں میں پیشہ ور صحافیوں کی وقوعہ سے عدم موجودگی کے باعث سوشل میڈیا پر موجود وڈیوز میڈیا کی اطلاعات سے قائم تاثر کی یکسر نفی کر رہی ہیں۔

مقامی انتظامیہ مسجد میں ہونے والے اعلان کی خبر کیوں رکوا رہی ہے؟

کیا مساجد میں ایسے اعلانات گائوں کے نمبردار کی مرضی کے بغیر ہو سکتے ہیں؟ اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو کیا یہ بات بہاول پور کے ڈپٹی کمشنر رانا محمد سلیم کے علم میں لائی گئی؟

نیز ماہ رمضان میں مساجد میں سپیکر کی اجازت کو عبادات تک ہی محدود رکھا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ مسجد میں اعلان کی اجازت دینے والے امام مسجد نے نیک نیتی سے ہی گائوں کے افراد کے فائدے کی بات کی ہوگی۔

ماہ رمضان میں ہونے والے حادثات سے نمٹنے کے لئے تدابیر کا واضح تعین کیا جانا چاہئے۔ یاد رہے 2015 میں ماہ رمضان میں 400 سے زائد افرد گرمی سے لقمہ اجل بنے کیونکہ پاکستان کے سخت قوانین ماہ رمضان میں مزدوروں کو کام کے دوران پانی پینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہی نہیں سرکاری اداروں میں تو اکثر اہلکار گرمی میں زیادہ توجہ اور تقوی کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں۔

رواں سال عمر کوٹ میں بھی ایک مسیح مریض صرف اس لئے چل بسا کہ اس کے غلیظ کپڑوں سے ڈاکٹر صاحب کا روزہ مکروہ ہونے کا اندیشہ تھا۔

اب وقت آگیا ہے کہ پیشہ ورانہ امور میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے اورمذہب کی آڑ میں کام چوری کا جو رواج ہمارے معاشرے میں قائم ہو رہا ہے اس کی سماجی سطح پر حوصلہ شکنی ضروری ہے۔

(بشکریہ: گردوپیش ملتان)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).