جنوبی پنجاب میں غربت اور جہالت


جنوبی پنجاب شمالی پنجاب کے مقابلے میں غربت اور محرومی کا شکار کیوں ہے۔ ایک کالم اس مشکل اور وسیع سوال کا جواب دینے کا کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سانحہ بہاولپور کے زخمیوں کی عیادت کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ستر سال سے جاری کرپشن غربت اور ناخواندگی کو سانحہ بہاولپور کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ کئی دہائیوں سے برسر اقتدار شریف خاندان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ان کا دور اقتدار بھی اس صورتحال میں کوئی بہتری نہیں لا سکا۔

لیکن اس سے زیادہ مایوسی مجھے ان کے اس بیان سے ہوئی کہ وہ جنوبی پنجاب کے مسائل اور ایشوز سے بالکل نابلد ہیں۔ جنوبی پنجاب کی تین کروڑ آبادی کے لئے پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کا حصہ لاہور شہر سے کم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس شہر میں آبادی کا تناسب زیادہ ہو، وہیں ترقیاتی بجٹ اور وسائل زیادہ خرچ ہونے چاہئیں۔ لیکن پسماندہ علاقوں کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس علاقے میں جہاں غربت کا تناسب زیادہ ہو، وہاں ترقیاتی فنڈز اور وسائل کا رخ نہ موڑا جائے۔ برطانوی ہندوستان کے دور سے یہ علاقہ ایک طرف تو لاہور سے بننے والی پالیسوں کی زد میں رہا ہے تو دوسری جانب انگریزوں نے یہاں بدترین جاگیرداری نظام کو پروان چڑھایا۔ 1877 کے دلی دربار میں شمالی پنجاب کے علاوہ جنوبی پنجاب کے پیر، سجادہ نشین، جاگیر داراور نواب سب انگریز وائسرائے کے دربار میں سجدہ ریز تھے۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں مزید جاگیریں وظائف اور القابات سے نوازا گیا۔ ریاست بہاولپور کے نواب اور امرا کی سواری انسان اپنے بازؤں اور کندھوں سے کھینچتے۔

قیام پاکستان کے بعد یہ یونینسٹ جاگیردار مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ان کی سیاسی طاقت بڑھتی گئی۔ آج کل کی سیاسی اصطلاح میں یہ سیاسی اشرافیہ الیکٹیبلز کہلاتی ہے۔ ہر قابل ذکر سیاسی جماعت ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہے۔ تبدیلی کی جماعت نے بھی ان سے سمجھوتا کرلیا ہے۔ یہ الیکٹیبلز ہر آمریت کا بھی حصہ ہوتے ہیں۔ سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے کسی نے ان کے اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پڑوسی ملک بھارت میں نہرو نے زرعی اصلاحات کے ذریعے ان نوابوں جاگیرداروں سے جاگیریں اور القابات تک واپس لے لئے۔ جبکہ ہماری سیاست میں زرعی اصلاحات اور زمین کی حد ملکیت زمین کا معاملہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔ جاگیردار اور ملا دونوں زمین کی حد ملکیت کو کفر اور غیر اسلامی قرار دیتے تھے۔

جنرل ضیاء کے اسلامی دور حکومت میں شرعی عدالت کے ایک فیصلے نے اس کی توثیق کر دی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی زرعی رقبہ کی الاٹمنٹ اور بندر بانٹ جاری رہی۔ اعلیٰ عسکری اور سول بیوروکریسی کو بہاولپور، بہاولنگراور رحیم یار خان میں مربع الاٹ کرنے کا عمل ابھی تک جاری ہے۔ شنید ہے کہ بہاولپور میں ڈی ایچ اے ہاؤسنگ سوسائٹی بھی بن رہی ہے۔ عرب شہزادوں کو بھی وسیع رقبہ تحفہ میں دیا گیا ہے اور اب یہ علاقہ ان کی شکار گاہ ہے۔ سرمایہ دارانہ ہوس کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔ شوگر مافیا کپاس کی کاشت کرنے والے علاقوں میں شوگر ملیں لگانے کے بعد کپاس کی فصل کے بجائے گنا اگانے کو فروغ دینے لگے۔ آج بھی لاکھوں کسان شوگر ملوں کی جانب سے گنے کی ادائیگی کے منتظر ہیں۔ جب شوگر مافیا ہی برسر اقتدار ہو تو کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں۔

بھلا ہو عدلیہ کا جس نے ان علاقوں میں نئی شوگر ملوں کے قیام اور منتقلی پر پابندی لگا دی ہے۔ حکمران خاندان پھر بھی باز نہ آیا اور اپنی ملکیتی شوگر مل رحیم یارخان منتقل کردی جس پر عدلیہ نے نوٹس لیتے ہوئے حکم امتناعی جاری کیا۔ اس گھناؤنے عمل میں جنوبی پنجاب کے راہنما بھی برابر کے شریک ہیں۔ مخدوم، مزاری، لغاری، کھر، دولتانہ، گورمانی، قریشی اور نواب مختلف ادوار میں اقتدار میں رہے۔ لیکن محرومی کا شکار اس علاقے کی تقدیر بدلنے کے بجائے اپنے بچوں کا مستقبل بناتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).