میں سنی لیون بننا چاہتی ہوں


گزشتہ دنوں رام گوپال ورما جو کہ انڈین فلم انڈسٹری کے نامور ڈائریکٹر ہیں اور ستیا، سرکار، دوڑ اور رنگیلہ جیسی سپرہٹ فلموں کے تخلیق کار ہیں کی پہلی شارٹ اسٹوری فلم (میں سنی لیون بننا چاہتی ہوں) دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ دیکھنے سے زیادہ سننے کا اتفاق ہوا۔ فلم کے تین ہی کردار تھے اور ان کی باتیں۔ ایک باپ، ایک ماں اور ایک ان کی بیٹی۔ جس کا فیوچر پلان سن کے دونوں ماں باپ ہکا بکا تھے۔ موصوفہ سنی لیون بننا چاہتی تھیں اور اس کے حق میں دلائل دے کر والدین کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اور والدین اپنی عزت اپنی اولاد کے ہاتھوں لٹ جانے کے ڈر سے اسے اس منصوبہ پر عمل پیرا ہونے سے روک رہے تھے۔

اسٹوری کو لفظ بہ لفظ یہاں تحریر کرنا مناسب بھی نہیں ہے۔ کہانی کا لب لباب یہ تھا کہ والدین جس چیز کو لڑکی کی عزت کہہ رہے تھے موصوفہ اس سے انکاری تھیں اور ان کے نزدیک ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جو کام کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ دلائل کا ایک ریلہ تھا جو اولاد کی طرف سے والدین کی جانب بہایا جا رہا تھا جس میں وہ دونوں ہچکولے لے رہے تھے۔ کبھی ابھرتے تھے کبھی ڈوبتے تھے۔ مگر بچنے سے زیادہ بچانے کی کوشش کر رہے تھے اس عزت کو جسے جوان اولاد ایک پروڈکٹ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتی تھی اور اسے بیچ کر اپنے خواب خریدنا چاہتی تھی۔

کہانی میں دو مقامات ایسے تھے کہ جن سے لگا کہ یہ ساری کہانی اس لئے بنائی گئ ہے تاکہ آنے والے دور میں سنی لیون باہر سے برآمد نہ کرنی پڑے بلکہ یہیں اس کی پیداوار اتنی ہو جائے کہ فلم انڈسٹری خود کفیل ہو جائے۔ مرد جو عورت کی اس قدر آزادی کا خواہاں ہے اس کے نزدیک یہی ایک سوچ ہوتی ہے کہ عورت جس قدر آزاد ہوگی اس کا قرب اتنا آسان ہوگا۔ ان دو مقامات میں سے ایک مقام یہ تھا کہ جب باپ اپنی بیٹی سے کہتا ہے کہ تو اپنے آپ کو بیچنا چاہتی ہے تو جواب میں بیٹی کہتی ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ بیجتا ہے آپ بھی تو اپنی صلاحیت بیچ کر یعنی نوکری کر کے پیسہ کماتے ہو۔ اور دوسرا وہ مقام کہ جب لڑکی اپنی ماں سے کہتی ہے کہ اپنے شوہر کو اپنا کنوارا پن دے کر آپ کو بدلے میں کیا ملا؟ اگر اس وقت آپ میرے جیسا فیصلہ کر لیتیں تو اتنی غربت میں دن نہ گذارتیں۔ جس کے جواب میں ماں خاموشی اختیار کر لیتی ہے مطلب اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔

پوری اسٹوری میں کہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ بیٹا اگر ماں سنی لیون یا باپ فحش فلموں کا اداکارہوتا تو تیرا کیا مستقبل ہوتا یہ لوگ یہ معاشرہ تجھے جیتے جی مار چکا ہوتا اور تو یہاں بیٹھ کر دلائل دینے کے بجائے اپنی مظلومیت اور اپنے ماں باپ کے گناہ گنوا رہی ہوتی۔ یہ والدین ہی ہوتے ہیں جو اپنی خواہشات کو قربان کرکے اپنی ذات کی نفی کرکے اپنی اولاد کی خوشیوں کی خاطر مشقت کا ایندھن بنتے ہیں۔ خود نہیں کھاتے مگر اولاد کو کھلاتے ہیں خود نہیں پیتے مگر اولاد کو پلاتے ہیں خود پرانے کپڑوں اور جوتوں میں گذارا کرلیتے ہیں مگر اولاد کے لئے نئے جوڑے اور جوتے لاتے ہیں صرف اس دن کے لئے کہ ان کی اولاد ان کے سامنے یہ کہنے کھڑی ہوجائے کہ وہ جو بننا چاہتی ہے بننے دیا جائے۔

 یہ ٹھیک ہے کہ اولاد پر بے جا روک ٹوک نہیں ہونی چاہیئے وہ عزت کے دائرے میں رہ کر جو کام کرنا چاہیں انہیں آزادی ہونی چاہئیے۔ والدین کی اپنی اولاد سے اپنی بے جا خواہشات کی پیروی کروانا بھی درست نہیں ہے کہ بیٹی فائن آرٹس میں دلچسپی رکھتی ہو اور والدین اسے ڈاکٹر بنانے پر بضد ہوں یہ بھی غلط ہے۔ مگر اس حد تک آزادی کہ جس میں عزت، وقار، شرم و حیا کسی چیز کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو، انتہائی غلط ہے۔ یہاں کچھ پڑھنے والوں کے ذہن میں لازمی یہ سوال بھی ابھرے گا کہ صرف سنی لیون کو اتنا مطعون کیوں کیا جا رہا ہے اسے دیکھنے والے بھی اتنے ہی قابل نفرین ہیں۔ بالکل اگر مرد ہی جسم کا خریدار نہ ہو تو کوئی عورت کیوں خود کو بیچے۔ جب تک خریدار موجود ہیں مارکیٹ میں مال آتا رہے گا۔ ہمیں دونوں طرف توجہ دینی ہے بچیوں پر بھی اور بچوں پر بھی۔ لڑکوں کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ انہیں سنی لیون دیکھنے میں دلچسپی نہ ہو۔ اور لڑکیوں کی اس انداز سے کہ انہیں سنی لیون بننے میں دلچسپی نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).