عدالت بیگم کے انتقال کی خبر درست نہیں


محترم عطاء الحق قاسمی صاحب کے کالم سے عدالت بیگم کے انتقال پر ملال کی خبر ملی تو عدالت بیگم کے حالات زندگی جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ تحقیق سے پتا چلا، عدالت بیگم کے انتقال کی خبر درست نہیں ہے۔ بہرحال تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے، اندازہ ہوا کہ عدالت بیگم کے کردار پر سب سے پہلے اکتوبر 1954ء میں انگلی اٹھی اور جب کسی کے کردار پر ایک دفعہ انگلی اٹھ جائے توشرفاء ہمیشہ اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

عدالت بیگم نے اب اپنے وقت کے ہرشریف شخص کے انگلی کے اشارے پر سر تسلیم خم کرنا شروع کردیا تھا۔ عدالت بیگم زیادہ تر تو اپنے بھائی شجاعت خان یا اس کے منظور نظر شرفاء کی بات پر سب سے زیادہ توجہ دیتی تھی اور ان کا کہا ٹالنے کی ہمت اس میں نہ تھی۔ لیکن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ شجاعت خان کی شہادت سے پہلے عدالت بیگم نے بھائی کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ جس پر بھائی نے عدالت بیگم کو دربدر کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

اس موقع پر عدالت بیگم کے دوستوں کے ساتھ ان کی بہن صداقت بیگم نے اپنی بہن کے موقف کو درست جانتے ہوئے، ان کا ساتھ دیا تو عوام کی نظر میں عدالت بیگم کی وقعت کچھ بڑھی لیکن شرفاء کو عدالت بیگم کا یہ انداز کچھ زیادہ بھلا نہ لگا۔ عدالت بیگم جو کبھی کسی شریف گھر کی لونڈی ہوتی تھی اور وہ جب چاہے اس کو اپنے اشارے پر نچاتا تھا بلکہ بعض دفعہ تو کہنا نہ ماننے پر مار پیٹ اور گالم گلوچ پر بھی اتر آتا تھا۔ ایسی صورتحال میں عدالت بیگم نے بھائی کے دوستوں اور شریف لوگوں سے جان چھڑا لی اور بقیہ زندگی آزادی کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا۔ آزادی حاصل کرتے ہی عدالت بیگم نے سب سے پہلے بھائی کے فیصلوں کو ردی کے ٹوکرے میں ڈالنا شروع کیا اور شریف لوگوں کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنے کے ساتھ، کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا۔ شریف لوگ چاہتے ہیں کہ عدالت بیگم صرف ان کی کردار کشی نہ کرے بلکہ ان کی طرح کے اور کرداروں کے کردار بھی بے نقاب کرے۔ لیکن عدالت بیگم کو اس وقت سب سے زیادہ غصہ شریف لوگوں پر ہی ہے۔ اس لیے عدالت بیگم کے انتقال پر ملال کی افواہ اڑائی گئی ہے۔ جب کہ عدالت بیگم کافی عرصہ بعد ہوش و حواس میں نظر آرہی ہے۔                      

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).