سندھ کے ہندوﺅں کی حالت زار اور پیپلز پارٹی


سندھ میں یکے بعد دیگرے تین ہندو لڑکیوں کو جبری طور پر مسلمان کرکے شادی کے واقعات نے ایک مرتبہ پھر ہندو اقلیت کی کسمپرسی کا پول کھول دیا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے, قومی، صوبائی اور سینٹ میں ہندو نمائندگی ہونے اور ہندو پنچایت کونسل ہونے کے باوجود سندھ میں ہندو کمیونٹی کی حالت میں بہتری کیوں نہیں آرہی ۔ کیوں اُنہیں عدم تحفظ کی بنا پر ملک بدر ہونے پر مجبور ہونا پڑتا رہا ہے؟ کیوں اُن کے مندروں کو مسمار کیا جا رہا ہے یا اُن پر قبضے کئے جا رہے ہیں؟

بی بی سی اُردو کی 3اگست 2015ء کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ” پاکستان ہندو کونسل کے مطابق اس وقت پورے ملک میں 1400 عبادت گاہیں ایسی ہیں جہاں مذہبی اقلیتی کو رسائی نہیں ہے ۔ پنجاب میں سب سے زیادہ ہندوﺅں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچا ہے۔ لاہور جیسے شہر میں 1000 سے زائد مقدس مقامات کو ہندوﺅں سے چھین لیا گیا ہے۔” کیوں اُنہیں ہر وقت یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ کہیں اُن کے ساتھ کوئی انہونی نہ ہو جائے۔ ہندو تاجروں کا اغوا برائے تاوان ایک پھلتا پھولتا کاروبار بن چکا ہے، جس کی وجہ سے ہندو تاجر برادری میں خوف کا عنصر نمایاں ہے۔ ہندو اقلیت کا یہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک طویل عرصے سے اُن کے لئے خوف کی علامت بن گیا ہے ۔ زبردستی مذہب تبدیل کرائے جانے کے واقعات میں ہندو لڑکیوں کے ساتھ ہندو لڑکوں کو بھی شکار کیا جاتا ہے ۔

 اگر ہندو کمیونٹی کی سیاسی حیثیت کو دیکھا جائے اور ان کے ووٹر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جائے تو اس حوالے سے ہارون رشید کی بی بی سی اُردو 13جون 2017 کے مطابق ” پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے ووٹروں کی تعداد 30 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔” ایک رپورٹ کے مطابق سندھ کے 13 اور پنجاب کے 2 اضلاع میں اقلیتوں کی تعداد کلیدی حیثیت اختیار کر گئی ہے ۔

سلامت ضیا کھوکھر، ماہنامہ ہم سخن، جنوری 2014ء میں لکھتے ہیں کہ ” ہندو پاکستان کی بڑی اقلیت ہیں جن کی آبادی 70 لاکھ سے زائد ہے ۔ کم و بیش 46 لاکھ ہندو سندھ کے اضلاع تھرپارکر، میر پور خاص، عمر کوٹ، جیکب آباد، مٹھی، دھہڑکی، گھوٹکی، شکار پور اور سکھر میں آباد ہیں۔ اُن کے مطابق قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے مندر سادھو بیلہ کے گدی نشین بابا گنیش داس کو حراست میں لے لیا گیا اور وہ ایک ماہ حراست میں رہنے کے بعد ہندوستان ہجرت کر گئے۔”

ملک کی کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود ہندو کمیونٹی کو سب سے گھمبیر مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ہندو لڑکیوں کو زبردستی اغوا کر کے اُنہیں تبدیلی مذہب پر مجبور کیا جاتا ہے اور اُن کے ساتھ شادیاں کی جاتی ہیں۔ اس قسم کے واقعات کے حل کے لئے ہندو کمیونٹی نے آئینی طریقہ کار اختیار کرنے کی کوشش کی اور سندھ اسمبلی میں جبری طور پر ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے تبدیلی ِ مذہب اور شادی کے مسئلے پر ایک بل پیش کیا۔ اس بل کو سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ فنکشنل کے رُکن آنند کمار گوکلانی نے پیش کیا تھا اور اُن کا کہنا تھا کہ سندھ سے ہندوکمیونٹی کی نقل مکانی روکنے اور اُن کے تحفظ کے لئے یہ بل ضروری ہے۔ ہندوکمیونٹی اس بل کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ بنانا چاہتی تھی کیونکہ جبری تبدیلی کی متاثرہ کو 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنا ہو گا ۔ سزا کم سے کم 5 سال ہو گی اور عدالتیں ان مقدمات کو 90 روز کے اندر نپٹانے کی پابند ہوں گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سندھ کی اکثریت ہندو کمیونٹی کا دُکھ سمجھتے ہوئے اس بل پر بغیر کسی تحفظات کے اسے من و عن قبول کرتی اور اس کو آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے قانون کا درجہ دے دیتی لیکن ایسا ہوا نہیں اور سندھ کی مذہبی قوتوں کی مداخلت سے اس بل کو نظر انداز کر دیا گیا ۔

شنید ہے کہ ہندوﺅں کی موجودہ تشویش کو دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ہندوﺅں کو تحفظ دینے کے حوالے سے گزشتہ سال جو بل پیش کیا گیا تھا اور جسے مذہبی جماعتوں کے دباﺅ کی وجہ سے قانون کا درجہ نہ مل سکا اُس کو ایک مرتبہ پھر لاگو کرنے کے حوالے سے کوشش کی جا رہی ہے جس کے بارے میں اقلیتی اُمور کے مُشیر ڈاکٹر کھٹومل جیون نے کہا ہے کہ

 “آئندہ اجلاس میں جبراً تبدیلی ِ مذہب کا بل دوبارہ پیش کیا جائے گا۔” ہندو کمیونٹی اس پر یقینا خوشی کا اظہار کر رہی ہے کیونکہ قانون بننے اور اس پر عملدرآمد کے بعد اس نوعیت کے واقعات میں کمی آسکتی ہے۔ مذکورہ واقعات میں سے ایک ہندو لڑکی رویتا میگھواڑ کے وکلا بھگوان داس اور علی پلھ کا کہنا ہے کہ نواز علی شاہ (رویتا کا مسلم شوہر ) چائلڈ میرج ایکٹ کی خلاف ورزی کا مرتک ہوا ہے کیونکہ 18سال سے کم عمر میں شادی نہیں کی جا سکتی جبکہ رویتا کی عمر ابھی 18سال سے کم ہے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندو کمیونٹی کے اس تشویش ناک مسئلے کوحل کرنے کےلئے سند ھ حکومت کس قدر سنجید ہ ہوتی ہے آیا اس بل کو قانون کا درجہ مل جاتا ہے یا پھر اُنہیں انتظار کی سولی پر لٹکنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور خدانخواستہ دوبارہ اس طرح کے واقعے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ سندھ کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے شریک چیئرمین ہندوﺅں کے مذہبی تہواروں پر جاکر اُن کے ساتھ اپنی جڑت کو ظاہر کرنے کی تو کوشش کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس بل کو قانون کا درجہ دینے میں خصوصی اختیارات استعمال کریں گے ۔ یہ تو خیر آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ہندو کمیونٹی کے اس دیرینہ مطالبے کو کب عملی شکل پہنائی جاتی ہے ۔

راقم سمجھتا ہے کہ ہندو کمیونٹی نے گزشتہ چھ ، سات دہائیوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ جو جڑت بنائی ہے اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس تعلق کو استوار کر نے کے لئے اس بل کو قانون کا درجہ دینے میں ہر ممکن کوشش کرے تاکہ ہندو کمیونٹی کے تحفظات دُور ہو سکیں او ر سندھ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے محفوظ ہو سکے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی آئندہ الیکشن میں کم از کم ہندوکمیونٹی کے ووٹوں کو تو اپنے حق میں یقینی بنالے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).