لندن میں رہے لیکن لاہور نہیں بھولے


”پرانی چیزیں بڑی ظالم ہوتی ہیں یہ گزرا وقت واپس لے آتی ہیں”۔ یہ جملہ ڈاکٹر یونس جاوید نے اپنے ایک لانگ پلے دھوپ دیوار کے لیے لکھا تھا ، محمد نثار حسین کی ہدایات میں ڈرامہ82ء کے اس ڈرامے کی کہانی فردوس جمال، اس کی بیوی (جس کا کردار مدیحہ گوہر نے ادا کیا) اور اس کی کلاس فیلو، خالدہ ریاست کے گرد گھومتی ہے۔

ہم اپنے گھر کے سٹور کا کبھی کبھار چکر لگائیں تو یوں لگتا ہے جیسے اپنا ماضی ایک فلم کی صورت میں دیکھ رہے ہوں پرانی چیزیں جو کئی بار ارادہ کرنے کے باوجود بیچی نہیں جاتیں اور سٹور کی زینت بنتی رہتی ہیں۔۔ ہمیں اپنا پرانا وقت یاد کرا دیتی ہیں۔ اکثر جس چیز کو ہم ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اس کی بجائے کئی اور اشیاء ٹٹولنے لگتے ہیں۔ پرانی میز جس پر میٹرک یاFSC  کی تیاری کی ہو اور ان دنوں کی یاد دلاتی ہے ،جب ہم شاید اسی میز کا کوئی حصہ ہوں، بچوں کے ایسے کھلونے جو انھوں نے کسی کو دینے کی اجازت نہ دی ہو آپ کی آنکھوں کے سامنے ان کا بچپن واپس لے آتے ہیں۔

صحافیوں کے لیے انگلستان کی حکومت نے کچھ فیلوشپس کا علان کیا اور اسی سلسلے میں مجھے پچھلے دنوں لندن کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی میں ایک کورس کرنے کا موقع ملا اور ساتھ ہی ان تین ماہ میں لندن، اس کے لوگوں اور وہاں کی تہذیب کا بھی قریب سے مشاہدہ کرنا ممکن ہوا۔ لندن کی سڑکیں لاہور کی سڑکوں سے کشادہ بالکل نہیں مگر صاف ستھری ہیں وہاں گاڑیاں بے شمار ہیں مگر ٹریفک کا مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ وہاں ٹریفک کو Manage کیا گیا ہے۔ پیدل چلنے والوں کے لیے گاڑیاں رک کر انھیں راستہ دیتی ہیں۔ زیادہ تر لوگ بسوں اور زیرزمین ٹرینوں پر سفر کرتے ہیں اور Public Transport پر سفر کرنے کا سٹیٹس سے کوئی تعلق نہیں۔ صبح دفتر جانے اور شام چھٹی کے اوقات میں زیر زمین ٹرینیں کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں اور بہت سے لوگ کھڑے ہو کر سفر کرتے ہیں، سوٹ اور ٹائی میں ملبوس بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگ اور نہایت عام سے کپڑے پہنے لوگ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے اپنے اسٹیشن کا انتظار کرتے ہیں، کوئی دھکم پیل نہیں ہوتی، پلیٹ فارم پر اپنی ٹرین کا ا نتظارکرنے والے لوگوں کو ٹرین کے ٹریک سے دور ایک پیلی لائن سے ایک طرف کھڑا ہونا ہوتا ہے اور واقعی لوگ اس لائن سے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے سسٹم، اپنے شہر، اور اپنے ملک سے واقعی میں محبت کرتے ہیں کیونکہ ان کی اپنے ملک کے لئے محبت ان کے عمل میں نظر آتی ہے۔

اپنے سٹور میں پڑی بے کار اس میز کے علاوہ جس پر میں نے FSC کے امتحان کی تیاری کی تھی دیواروں پر لٹکتی پتنگیں بھی مجھے گزرے وقت میں واپس لے جاتی ہیں۔ اب یہ پتنگیں اتنی خستہ حالت ہیں کہ صرف دیوار پر لٹکانے کے کام ہی آ سکتی ہیں، لاہور میں پتنگ اڑانے پر پابندی ختم بھی ہو گئی تو میرا نہیں خیال کہ یہ اڑ پائیں گی۔ یہ پتنگیں مجھے اس بسنت کی یاد دلاتی ہیں جب لاہور کی فضا میں رنگ بکھر جاتے تھے اور لوگ خوشی سے اپنی چھتوں پر بسنت مناتے تھے، چھت کی تہذیب لاہور میں بڑی پرانی ہے، پہلے جب وقت ذرا آسان تھا تو خواتین چھتوں پر ہی کپڑے رنگا کرتی تھیں، مسالے بھی گھروں میں پیس کر چھتوں پر ہی سکھائے جاتے تھے، ماڈرن دور میں اب مسالے پیکٹوں میں مل جاتے ہیں اوردوپٹے بازاروں میں رنگے جاتے ہیں، پتنگ اڑانے پر پابندی نے موچی گیٹ کے ان پتنگ بنانے والوں، جن کی کسی دور میں منت سماجت کی جاتی تھی کہ وہ منہ مانگی قیمت لیں مگر بسنت کے لیے اپنے ہاتھ سے کچھ پتنگیں بنا دیں آج یہی پتنگ ساز پتنگوں کے لیے مشہور اسی گلی میں چائے کے کھوکھے پر چائے بناتے، سائیکلوں کی پنکچر کی دکانوں پر پنکچر لگاتے اور تندور پر روٹیاں لگاتے نظر آتے ہیں۔

لندن میں پارکوں میں جانا اور وہاں چہل قدمی کرنا لندن کے لوگوں کا معمول ہے مگر جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ مزہ دیا وہ ان پارکوں میں ہونے والی پتنگ بازی تھی وہاں پتنگیں پلاسٹک کی اور ڈور کانچ کے بغیر ہوتی ہے آپ صیح معنوں میں پتنگ صرف آسمان میں رنگ بکھرنے کے لیے اڑاتے ہیں مجھے وہاں پتنگ اڑاتے ہوئے یہ بھی احساس ہوا کہ پتنگ اڑانے کے لیے کسی دوسرے کی پتنگ کاٹنا ضروری نہیں۔ وہاں رشتوں میں بھی ہماری کانچ لگی ڈور کی طرح شدت نہیں۔ جس طرح لاہور میں ڈور سے ہلاکتوں نے پتنگ بازی پر پابندی لگا دی شاید ہمارے معاشرے میں رشتوں کی شدت پر بھی پابندی کی ضرورت ہے تاکہ عزت کے نام پر قتل غیرت کی نشانی نہ رہے۔ لندن میں عورتوں کی ا کثریت پردہ نہیں کرتی مگر مرد انھیں آنکھیں پھاڑ کر نہیں دیکھتے۔ کاش پاکستان میں غیرت کی مثا ل قندیل بلوچ کا قتل نہ ہوتا بلکہ اس کا غیرت مند بھائی ان حالات کو ختم کرتا جن حالات نے ایک عام سی دیہاتی فوزیہ عظیم کو قندیل بلوچ بنایا۔

میں نے تو لاہور نہ سہی، لندن میں پتنگ اڑا لی مگر کیا حکومت کے لیے بسنت کی بجائے قاتل ڈور پر پابندی لگانا ممکن ہے؟ اور کیا بحثیت معاشرہ اتنے غرت مند نہیں ہو سکتے کہ عورتوں پر بے جا پابندیاں ہی عزت دار ہونے کی نشانی نہ ہو بلکہ ”ہم سب” مردوں کے  لیے عورتوں کی ترقی، تعلیم اور خوشی پر فخر کرنا عزت دار ہونے کی نشانی ہو۔     ٓ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).