مولوی مکالمہ: چار سو برس میں کچھ نہیں بدلا


کل ایک نمبر ون ٹی وی پرنمبر ون پروگرام دیکھا۔ جس کے میزبان ہمارے پسندیدہ عامر لیاقت حسین تھے، مہمانوں میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام موجود تھے، جن میں دیوبندی، اہلحدیث، شعیہ، بریلوی اور سنی شامل تھے، موضوع تھا ملک میں فرقہ واریت کا خاتمہ اور مذہبی ہم آہنگی وغیرہ وغیرہ۔ پروگرام کا ٹاپک اچھا لگا تو میں بھی رک گیا۔

پروگرام میں اہل حدیث مکتب فکر کے مولوی صاحب نے فرمایا کہ بریلویوں اور ہندووں میں کوئی فرق نہیں۔ ہندو کھڑا کر کے پوجتے ہیں اور یہ لٹا کے پوجتے ہیں۔ یہ سنتے ہی بریلوی مسلک کے مولوی صاحب طیش میں آگئے اور پروگرام چھوڑ کر جانے لگے۔ تاہم عامرلیاقت نے بڑی عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں روک لیا، کیونکہ ریٹنگ تو ابھی شروع ہوئی تھی، چلیں خیر اس کے بعد تمام مکاتب فکر کےعلماء حضرات ایک ساتھ بولنا اورجھگڑنا شروع ہوگئے اور یوں پروگرام کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف وہ یہ کہ مسلمانوں کے درمیان مذہبی فرقہ واریت کوئی آج کا مسئلہ نہیں۔ یہ صدیوں سے نسل در نسل چلتا آ رہا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہےکہ عامر لیاقت حسین کے طرح اکبر بادشاہ نے بھی ایک کوشش کی تھی کہ تمام علماء کرام کو بلا کرمناظرہ کرایا جائے اور کسی ایک نقطے پر پہنچ کرفرقہ واریت کو ختم کیا جائے۔ چنانچہ پندرہویں صدی میں اس نے ایک عبادت خانہ تعمیر کرایا، جس میں مختلف مسلمانوں کے فرقوں کے علماء کرام کو مدعو کیا جاتا تھا۔ جو اختلافی مسائل پر بحث کیا کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ ہر جمعہ کو ان مباحثوں میں شریک ہوتا تھا، ان مباحثوں کا مقصد سچائی تک پہچنا تھا۔ مگر جو علماء کرام تشریف لاتے وہ اس اعلی مقصد کے اہل نہ تھے۔ ان کی خواہشات چھوٹی چھوٹی اور ذہن محدود تھے۔ جب پہلی بار اکبر مباحثےمیں شرکت کے لیے آیا توعلماء کرام نشستوں کی ترتیب پر ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ ان میں سے ہر کوئی حاکم وقت کے قریب بیٹھنا چاہتا تھا۔ جھگڑا ختم کرنے کی خاطر نشستوں کا از سرنو تعین کیا گیا۔ ہر بندے کی اوقات کے مطابق نشست مقرر کی گئی۔

اس کے بعد جب بحث شروع ہوئی تو اکبر کو یہ دیکھ کر ذہنی صدمہ پہنچا کہ علمائے دین میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی بات سننےکو تیار نہیں۔ ہر عالم ایک دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے اور قرآن و سنت کے ذریعے ان کو کافر اور واجب القتل قراردینے پر آمادہ ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر اکبر بادشاہ کافی بدظن ہوا اور اس نے تمام علماء کو قندھار بھیجنے کا حکم جاری کر دیا۔

عامر لیاقت حسین صاحب کا پروگرام دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ جہاں تک علما کے باہم مکالمے کا تعلق ہے، چار سو برس میں کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).