اہل تشیع کا قتل عام اور آل لائیوز میٹر


آج قاری حنیف ڈار صاحب نے خالد محمود کیانی صاحب کا ایک سٹیٹس نقل کیا ہے جس میں مزارات میں دہشت گردی کے واقعات نقل کر کے ایک بنیادی نقطہ لکھا ہے کہ:

’ اتنی زیادہ شہادتوں کے باوجود بھی آفرین ہے بریلوی سنی قیادت پر اور ان کے عوام پر جنہوں نے آج تک یہ نہیں کہا کہ پاکستان میں ہمارا ’قتل عام‘ ہو رہا ہے۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت ہماری ’نسل کشی‘ کی جا رہی ہے۔ جان بوجھ کر ہمارے مقدس مقامات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ یا ہم اپنی حفاظت کے لئے عسکری لشکر بنائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ شیعہ بھاہیو (نقل بمطابق اصل) خدا کے لئے آپ بھی یہ الزام تراشیاں چھوڑ کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دو تاکہ تکفیریت اور دہشتگردی کے اس ناسور سے ہم سب کا پیارا وطن پاکستان پاک کی جا سکے۔ ‘

قتل کسی کا بھی ہو قابل مذمت ہے، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، مسلمان ہو یا غیر مسلم، پاکستانی ہو یا غیر پاکستانی۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ کسی ’ثابت شدہ‘ گناہ گار کا قتل بھی قابل مذمت ہے کہ االلہ نے ہمیں لوگوں پر داروغہ نہیں بنایا۔ لیکن جب کسی قوم کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا جا رہا ہو، اور قتل کرنے والے اس قتل کو قتل خطا نہیں بلکہ جہاد و ثواب کی خاطر قتل کر رہے ہوں اور اس کی توجیہات اور دلائل دیتے ہوں تو وہ پھر عام دہشتگردی سے ہٹ کر ٹارگیٹڈ قتل عام ہی کہلایا جائے گا۔

امریکا میں 2014 میں مائیکل براؤن کے قتل کے بعد فسادات پھوٹ پڑے اور ایک نعرہ بڑا مشہور ہوا کہ ’بلیک لائیوز میٹر‘ کہ سیاہ فام لوگوں کی زندگیاں اہم ہیں۔ اس نعرے کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کے نزدیک امریکہ کی پولیس سیاہ فام لوگوں کو صرف شک کی بنیاد پر ہی گولیاں مار دیتی ہے جو کہ وہ کسی سفید فام کے ساتھ نہیں کرتی۔ اس کے جواب میں ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ ’آل لائیوز میٹر‘ یعنی کہ سب کی زندگیاں اہم ہیں۔ یہ بیانیہ دینے والے اس بات کو مدنظر رکھنا چوک گئے کہ ’بلیک لائیوز میٹر‘ کہنے والے یہ نہیں کہتے کہ سیاہ فام کے علاوہ باقیوں کی زندگیاں اہم نہیں ہیں، بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح باقی سب کی زندگیاں اہم ہیں اسی طرح سیاہ فام لوگوں کی اہم ہیں۔ اب امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں بھی اور سفید فام لوگوں کے ہاتھوں بھی ہزاروں کی تعداد میں سفید فام لوگ مرتے ہیں مگر وہ اس طرح ٹارگٹ نہیں ہوتے جس طرح سیاہ فام لوگ ہوتے ہیں اس لئے لوگوں کو احتجاج کرتے ہوئے سیاہ فام لوگوں کی اہمیت بھی بتانی پڑتی ہے۔

امریکا اور مغرب کی ہی ایک اور مثال لے لیں۔ وہاں پر آج کل اسلاموفوبیا کا بڑا زور ہے۔ سفید فام بالادستی کے خواہاں نے ان ممالک میں مسلمانوں کو لے کر ہوہوکار مچائی ہوئی ہے۔ خاص کر مسلمانوں کو ٹارگٹ کر کے نہ صرف یہ کہ قلمی طور پر ان کا محاصرہ کیا جا رہا ہے بلکہ جان سے مارنے سے اور زندگی اجیرن کر دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ اب وہاں پر کیا دوسرے سفید فام لوگ نہیں مرتے یا باقی قوموں کو تنگ نہیں کیا جاتا؟ بالکل کیا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمانوں کے خلاف جرائم کا جو تسلسل ہے اس سے ہی انکار کر دیا جائے۔

بھارت کے مسلمانوں کو ہی دیکھ لیں۔ ہم جتنے بھی بھارتی مسلمانوں سے ملتے ہیں بظاہر وہ وہاں پر خوش ہیں اور ان کو پاکستان جیسے ’اسلامی قلعے‘ میں آنے کی کوئی خواہش بھی نہیں ہے مگر وہاں پر بھی گائے کے گوشت پر یا صرف مسلمان ہونے پر ہی جو مظالم کیے جاتے ہیں کیا ان سب پر صرف اس لئے چپ رہا جائے کہ وہاں پر دلتوں کے ساتھ یا باقی قوموں کے ساتھ بھی ایسے ہی مظالم کیے جاتے ہیں؟

جب کسی بھی قوم کو خاص ان کے عقیدے کی وجہ سے ٹارگٹ کیا جائے گا تو اس کا ذکر اس فرقے کے حوالے سے ہی کیا جائے گا نہ کہ عمومی طور پر۔ کہتے ہیں کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے پہلے اس مسئلے کی تہہ تک پہنچنا لازمی ہے، جب ہم مسئلے کو ہی عمومی رنگ دے دیں گے تو ہم سے خاک حل نکلنا ہے؟

پاکستان میں لشکر جھنگوی جیسی تنظیم صرف اہل تشیع کو نشانہ بنانے کے لئے ہی بنائی گئی ہے۔ پاکستان میں ہر روز کے حساب سے اہل تشیع کو ٹارگٹ کر کے مارا جاتا ہے۔ ڈاکٹرز، وکلاء، استاد، اور باقی شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع جس حساب سے مارے جاتے ہیں کیا یہ سب عمومی دہشتگردی کے ذیل میں رکھنا چاہیے؟ جس حساب سے شیعہ ہزارہ برادری کا قتل عام روا رکھا گیا، جس حساب سے چن چن کر امام بارگاہوں کو نشانہ بنایا گیا، عباس ٹاؤن، علمدار روڈ اور پارہ چنار جیسے واقعات کیا ہمیں یہ ثابت نہیں کرتے کہ پاکستان کہ اہل تشیع صرف اور صرف اپنے مسلک کی وجہ سے ہی دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں؟

ظلم کے خلاف پر امن احتجاج کرنا اور ظلم کو ظلم کہنا کب سے مورد طعن ہونے لگ گیا؟ پاکستان میں یقیناً شیعہ کو چن چن کر مارا جا رہا ہے اور ہمیں اس کا ادراک کرنا ہوگا اور اس نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).