ڈیلز اور سمجھوتے تو ہمارا اوڑھنا بچھونا ہیں


ریمنڈ ڈیوس رہائی ڈیل کے انکشاف پر اہل وطن بے چارے پریشان اور ماتم کناں ہیں۔ چھ سال پیشتر ہونے والی اس ڈیل کو کوئی ملکی سالمیت کا گلا گھونٹنے سے تعبیر کررہاہے تو کسی کے ہاں یہ پاکستان کی سبکی کے مترادف ہے۔ جتنے منہ اسی حساب سے شکوے، ان گنت منتیں اورمایوس کن تبصرے سن کر مجھے اونٹ کے بارے میں پشتو زبان کی وہ مشہور کہاوت یاد آتی ہے جب برہم شتربان نے اس عجیب الخلقت جانور کو ’’ٹیڑھی گردن والے جانور‘‘ کا طعنہ دیاتھا۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے باس کا یہ طعنہ سن کراونٹ کی فوراً ہنسی نکل گئی اوربولا ’’ اوئے احمق! میرے وجود میں سیدھی اندام سرے سے ہی نہیں کہ تُو فقط میری گردن کے اوپر نقد کرکے اپنا غصہ نکالے رہے ہو‘‘۔ ریمنڈ ڈیوس ڈیل سے متعلق بھی میرے عزیز ہم وطنوں کو اب کون سمجھائے کہ وطن عزیز بھی اسی عجیب الخلقت مخلوق کا ایک شاہکار نمونہ ہے جس کی نہ صرف گردن میں ٹیڑھا پن ہے ناہی لمبے تڑنگے ٹانگوں اوردُم میں، بلکہ تاحد نظر ٹیڑھے پن کا مجموعہ ہے۔

ان یار لوگوں کے تجزیوں اور تبصروں سے لگ رہاہے جیسا کہ پاکستان کی اہانت صرف پہلی مرتبہ اس وقت ہوئی جب فیضان اور فہیم کو دن دیہاڑے گولیوں سے بھون ڈالنے والے ریمنڈ ڈیوس کو عزت و تکریم کے ساتھ رہائی ملی۔ یاں یوں سمجھیے کہ اس ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگانے والے صرف اور صرف اسی وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، امریکہ میں سفیر حسین حقانی، میاں نوازشریف یا شجاع پاشا ہی ہیں۔ واشنگٹن کے خزانے کی بجائے اسلام آباد کی جیب سے چوبیس لاکھ روپے کے عوض ڈیوس رائی ڈیل بلاشبہ ملکی تاریخ کا بدترین ڈیل تھی لیکن یہ توصرف وہی ٹیڑھی گردن سمجھیے جس کا تذکرہ ہم پہلے کرچکے ہیں۔ ہم اگر اپنے ستر سالہ ماضی میں جھانکنے کی زحمت کرلیں تو پیچھے بھی ہم ٹیڑھے پن اور کج رویوں کی ایک لمبی داستان رکھتے ہیں۔ آنجناب ایوب دور سے اگر کہانی کا آغاز کیا جائے تب بھی ہم ایسے ہی ڈیلز اور سمجھوتوں کے ریکارڈز قائم کرنے کے خوگر تھے۔ جب امریکہ بہادر کو چین کے خلاف سی آئی آئے کا بند اڈہ دوبار بحال کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی تو مرحوم ایوب کو طیارے میں بٹھاکر نہایت عزت اور احترام کے ساتھ جارج واشنگٹن ہاوس میں ڈنر دے دیا، گویا امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار کسی غیرملکی سربراہ کو اس تاریخی ہاؤس میں بطور مہمان ٹھہرایا گیا۔ چونکہ موصوف صدر نے ہمسایہ ملک چین کے خلاف ڈھاکہ میں ’’ سی آئی اے کا ‘‘ فضائی اڈہ بند کیا تھا، سو جارج واشنگٹن ہاوس میں ایوب کوصرف اس شرط پر مذکورہ اڈہ دوبارہ بحال کرنے پر راضی کرلیا کہ چین کے بھارت پرحملہ آور ہونے کے وقت امریکہ پاکستان سے مشورہ کیے بغیر بھارت کو اسلحہ فراہم نہیں کرے گا۔ ایک برس بعد جب چین نے بھارت پرحملہ کیا تو امریکہ نے اپنے وعدے کے برعکس نہ صرف بھارت کو اسلحہ فراہم کیا بلکہ ایوب خان سے مشورہ تو کجا، پوچھنے تک کی زحمت نہیں کی۔

اسی طرح بنگالیوں کو آج کے روہنگھیا مسلمانوں سے بھی کمتر سمجھنے والے جنرل یحیٰی خان اور دیگر حکمرانوں کی انیس سو اکہتر والی ڈیل (جس کے عوض ڈھاکہ ساقط ہوگیا)، کیا دوہزار گیارہ کے ریمنڈ ڈیوس رہائی ڈیل سے کوئی کم ڈیل تھی یا اس کے مقابلے میں ہزار گنا بڑی؟ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر کیا مرحوم جنرل محمد ضیاء الحق نے ایسا اپنی مرضی سے کیا تھا یا باہر بیٹھے آقاؤں کی منشا و رضا پر؟ ملک کے کندھے پر امریکن راکٹ لانچرزاور بندوق رکھ کرسوویت یونین کے خلاف ایک دہائی پیہم مزاحمت بھی جنرل ضیاء کی ذاتی خواہش تھی یا اس دس سالہ ٹھیکے کا سارا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم واشنگٹن والوں کے ہاتھ میں تھا؟ کہاں پہ ہمارے ملک کے ان رووساء اور مقدر سنوارنے والوں نے سمجھوتوں اور مصلحتوں سے احتراز کیا ہے اور کہاں پہ ان حکمرانوں نے اپنی ارواح کو سکون پہنچانے کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگانے سے گریز کیا ہے؟

نو سال جیسا طویل عرصہ اس مل مملکت خداداد کا آقا رہ کر محترم سپہ سالار جنرل پرویز مشرف کی زندگی کا وہ کونسا دن رہ گیا ہوگا جو ڈیلوں اور مصلحتوں کی عیاشیوں سے گزرا نہیں ہوگا۔ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے دوران شمسی، جیکب آباد اور دیگر ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کرکے ساٹھ ہزار کے قریب پروازیں یہیں سے افغانستان پر بمباری کے لئے بھیجنا کیا کوئی ادنیٰ ڈیل تھی یا پرلے درجے کی دلالی تھی؟ امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر کیا ہمارے ان کرم فرماؤں نے اس خطے میں پھول کھلا ڈالے یا آگ اور خون کے بے پایاں طوفان کو مدعو کیا تھا، جس کی سزائیں آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس ڈیل کے بعد اسامہ بن لادن کا راتوں رات کاکول اکیڈمی کی بغل سے امریکی کمانڈوز کے ہتھے چڑھ جانا پاکستان کی سلامتی، خودمختاری اور سالمیت کے لئے مفید تھا یا ضرر رساں؟ سعودیہ کی قیادت میں ایران اوراس کے دیگر ہم خیال ملکوں کے خلاف بننے والی فوجی اتحاد کا حصہ بننا ہو یا پھر ملکی خزانے کے اربوں روپوں کو پانامہ، سوئس اور اماراتی بینکوں تک پہنچانا ہو، انتخابات میں کسی کو جتوانا ہو یا دیار غیر سے دیگر اشاروں پر آمناً صدقناً کہنا علیٰ ہٰذالقیاس، سب ڈیل ہی ڈیل اور سمجھوتے ہی سمجھوتے ہیں۔ گویا بقول فارسی شاعر

تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے ہاں فقط سال دوہزار گیارہ بدقسمت سال نہیں کہ جس پر ہم ریمنڈ رہائی ڈیل کے اوپر آنسو بہا لیں، نہ ہی اسامہ بن لادن والی رات ایک بدشگون رات ہے، بلکہ ہم روز اول ہی سے ڈیلوں اور سمجھوتوں کے خوگر ہوکر ملکی سالمیت اور خودمختاری پر کلہاڑا چلاتے آرہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).