اخلاقیات؟ یہ کس چڑیا کا نام ہے؟


اگر آپ حالیہ سال کے دنیا کے سب سے ایماندار شہر کو انٹر نیٹ پر گوگل کریں تو آپ کے سامنے جاپان کے شہر ٹوکیو کا نام تمام تر تفصیلات کے ساتھ نظر آئے گا۔

جاپان کے میٹرو پولیٹن ڈیپارٹمنٹ کی 2017؁ء کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال 3.67 بلین ین یعنی 32 ملین ڈالر مالیت لگ بھگ رقم شہریوں نے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو گمشدہ اثاثہ جات کے طور پر جمع کرائی۔ ان اثاثہ جات میں رقم سے لے کر گم شدہ گھڑیاں، موبائلز سن گلاسز وغیرہ شامل تھے۔ ٹوکیو دنیا کا وہ محفوظ ترین ملک ہے جہاں آپ بھاری رقم جیب میں لے کر کہیں بھی گھوم پھر سکتے ہیں۔ اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ ٹوکیو ایک بڑی آبادی کا شہر ہے مگر اس کی ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شہری ہوٹل کاوئنٹر تک اپنا آرڈر بک کرانے جانا چاہتا ہے تو وہ اپنی سیٹ پر اپنے موبائل فون کو Reserve کے طور پر نشانی بنا کر چھوڑ کر جاسکتا ہے اور واپسی پر اس کو اپنا موبائل فون محفوظ ملے گا۔ ٹوشیناری نیشی اوکا پروفیسر کنسائی یونیورسٹی اس ایمانداری کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جاپان کے سکولوں میں Ethics(اخلاقیات ) کا مضمون لازمی قرار دیا گیا ہے جس میں سکول کے بچوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ایک اچھا شہری ہونے کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ پھر ایک دس سال کا بچہ بھی آپ کو پولیس اسٹیشن میں گمشدہ اشیاء جمع کراتا بہ آسانی نظر آئے گا۔

ٹوکیو میں یہ قانون ہے کہ گمشدہ چیز کا اصل مالک مل جانے کے بعد انعام کے طور پر 5 سے 20 فیصد کی رقم اس شخص کو دی جائے گی جس نے گمشدہ چیز پولیس اسٹیشن میں پہنچائی اور اصل مالک نہ ملنے کی صورت میں 6 ماہ کے عرصے کا انتظار کرنے کے بعد وہ گمشدہ شے بطور انعام مکمل طور پر اس کے ڈھونڈنے والے کو دے دی جائے گی۔

اس تمام تمہید کو باندھنے کے بعد دل کیا کہ ہمیں بطور پاکستانی اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے اگر ہمیں اپنے شہر میں کوئی گمشدہ چیز ملتی ہے تو تو اس کو من و عن اپنے قبضے میں کرنا ہمارے اس فقرے کی تصدیق کرتا ہے۔

’’ یہ چیز ہماری ہے کیونکہ ہمیں یہ چیز االلہ کی زمین سے ملی ہے ‘‘

تو پہلا حق تو ہمارا اپنا ہے۔ لیکن چلیں اگر ضمیر نے اجازت نہ دی تو پولیس اسٹیشن جانے سے پہلے مسجد کے مولوی تک پہنچادینا۔ جہاں مدرسے کے طالبعلموں کا اس پہ حق ہونا قطعی فیصلہ قرار پائے گا۔ ایسانہ ہو تو پھر یقیناً اگلا حق پولیس کا اپنا ہے۔

تصور کریں کہ آپ اپنا موبائل اپنی سیٹ پر چھوڑ کر جا سکتے ہیں؟ یہاں تو سٹریٹ کرائم کے نام پر آپ کی جان لے کر بھی موبائل چھینا جائے گا۔ یہاں رقم تو بینکوں اور ATM میں محفوظ نہیں تو۔ جیب تو ہے ہی کٹنے کے لئے۔

اخلاقیات، ہاں یاد آیا۔ ایک عزیزہ کا فون آیا کہ میری بچی کو یونیورسٹی میں اختیاری طور پر اخلاقیات کا مضمون لینا پڑا ہے اب اسائنمنٹ ملی ہے۔ بچی بڑی پریشان ہے کہ اسائنمنٹ بہت مشکل ہے اور استاد محترم نے اس کے نمبربھی زیادہ رکھے ہیں تو آپ تو ایک اور یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں میری بچی کی یونیورسٹی کے استاد محترم کو کیا پتہ چلے گا تو آپ مہربانی کریں اور اپنے کسی طالب علم کی اسائنمنٹ کی کاپی مجھے بھجوا دیں۔ االلہ آپ کا بھلا کرے گا۔ میری بچی کو اچھے نمبر مل جائیں گے۔ اخلاقیات جیسی چڑیا سے ہم واقف ہی کہاں ہیں؟ لوٹ کھسوٹ کرنی ہو تو تیل کے ٹرکوں سے لے کر لوکا کولا کے ٹرکوں تک کو لوٹنے تک کی ویڈیوز ہم دیکھ چکے۔ عزت نفس پر سمجھوتہ کرتے ہوئے موٹر سائیکلوں کے لئے بھیک مانگنا ہو تو کسی انعام بانٹے ٹی وی شو میں ہمارا کردار دیکھ لیں۔ ایمان کا معیار ناپنا ہو تو مسجد میں اعتکاف میں بیٹھے لوگوں کی جیبیں خالی کرتا دیکھ لیں۔

ہمارے سرور کے حصول کی اونچائیوں کو جانچنا ہو تو عام دنوں سے لے کر چاند رات کی بھیڑ میں غلطی سے ہمارے ہاتھوں کو صنف نازک کے اعضا سے ٹکراتا دیکھ لیں۔

ہم کسی علاقے میں ٹورسٹ بن کر جائیں گے تو وہ ہٹلر بن جائیں گے کہ وہاں کے علاقہ مسکینوں کا گھر سے باہر نکلنا مشکل کر دیں گے اور جب اپنے گھروں کو واپسی اختیار کریں گے تو ان علاقوں کو کوڑے کے ڈھیر تھما کر دے کر آئیں گے۔ بہت آسان ہے سیاست دانوں کو گالیاں دینا حکومتوں پر کریشن کے الزامات کی بوچھاڑ کرنا کبھی ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھا کیا ہم سب اپنے اپنے حصے کی کرپشن میں مبتلا نہیں؟ کیا اخلاقی طور پر ہم پستی کا شکار نہیں؟

کیا ہم ذمہ دارشہری، کیا ہم بطور انسان قدرت کا وہی شاہکار ہیں جسے اشرف المخلوقات کہا گیا تھا۔

آئیے سوچتے ہیں، بقول شاعر

شکوہ ٔ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

(احمد فراز)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).