پیپلز پارٹی کے سندھ کارڈ کا بیلنس ختم ہونے کو ہے؟


 اٹھارہویں آئینی ترمیم آصف علی زرداری کا کارنامہ ہے یا نہیں، مگر اسٹیبلشمنٹ کا عقلمندانہ فیصلہ ضرور ہے۔

20 اپریل 2010 سے نافذ ہونے والی اس آئینی ترمیم سے پاکستان کے 1973 کے آئین کا 36 فیصد حصہ تبدیل ہوگیا۔ 280 میں سے 102 آرٹیکلز میں ترمیم ، اضافہ، کٹوتی یا خاتمہ کیا گیا۔ اس ترمیم کو فیڈریشن کی انتہائی مرکزیت سے لچکدار مرکزیت کی طرف چھلانگ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

زرداری صاحب اٹھارویں آئینی ترمیم کو اپنا کارنامہ تو قرار دیتے ہیں مگر یہ کارنامہ اس لحاظ سے ان کے گلے پڑ گیا ہے کہ اب ان کے پاس پیپلز پارٹی کی سندھ میں ناقص کارکردگی اور کرپشن کو چھپانے کے لیئے پنجابی اسٹیبلشمنٹ اور وفاق پر ناانصافی کرنے اور بجٹ نہ دینے کا الزام لگانے کے لئے کوئی جواز باقی نھیں بچا۔

پنجاب مخالف سندھی قوم پرستی کو ابھار کر ووٹ لینے میں کم از کم اب پیپلز پارٹی تو کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بلکہ پیپلز پارٹی ماضی قریب میں بارہا یہ کوشش کربھی چکی ہے مگر ناکام ہو رہی ہے۔

دوسری طرف ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں مل کر سندھ پر کئی سال حکومت کر تے رہے ہیں ۔ ہر مرتبہ ا لیکشن قریب آتے ہی یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور میڈیا وار شروع کرتے ہیں۔ اس سے دو فائدے حاصل کرتے ہیں۔ ایک نگران حکومت بحیثیت اپوزیشن اور حکمراں جماعت مل کر ساتھ بناتے ہیں۔ دوسرا، سندھی مہاجر قوم پرستی کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے ووٹ لیتے ہیں۔ اور الیکشن کے بعد پھر ایک ہو جاتے ہیں۔ گذشتہ تیس سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں، یہ کھیل اسی طرح چل رہا ہے۔

مگر اس مرتبہ زرداری میڈ سندھی، مہاجر تضاد بھی لوگوں کی توجہ نہیں لے پا رہا۔ کوششیں دونوں پارٹیوں نے خوب کی ہیں۔

لوگ سمجھ گئے ہیں کہ جب حکومت ان کے پاس، ٹھیک ٹھاک بجٹ ان کے پاس۔ نہ روک نہ ٹوک، پھر بھی عام آدمی کی زندگی پہلے سے بھی بد تر ہوتی جا رہی ہے اور حکمرانوں کے بینک بیلنس بغیر کسی نوکری یا کام کے کروڑوں روپوں سے اربوں روپوں میں بڑھتے جا رہے ہیں۔

پہلے پورا سندھ چھوٹی سی انصافی کے بعد بھی رد عمل میں پنجاب کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے روڈ پر نکل آتا تھا۔ ہڑتال، روڈ بلاک، جلوس، جلسے مگر اب اٹھارویں آئینی ترمیم نے سندھ کے لوگوں سے احتجاج کرنے کا یہ بہانہ بھی چھین لیا ہے۔

 کیونکہ خزانہ، ڈیفنس، خارجہ امور، کمیونیکیشن، ریونیو اور ریلوے کے علاوہ سب کے سب کھاتے صوبوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ آئل اور گیس اور بجلی کے معاملات ابھی زیرغور ہیں ۔

باقی، اب صحت، تعلیم، ہائر ایجوکیشن، لوکل گورنمنٹ، سوشل ویلفیئر، رورل ڈیولپمنٹ، زکوۃ و عشر، امور نوجواناں، لائیو اسٹاک، ثقافت کے ساتھ ساتھ سب کے سب کھاتے مکمل صوبائی اختیار اور معاملہ ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے ، صوبوں کو ان کے حصے کا پورا بجٹ دے کر تم جانو، تمہارا کام جانے کہہ کر اسٹیبلشمنٹ نے جیسے اپنا سر درد ختم کر لیا۔

اب سکھر، روہڑی، شکارپور، خیرپور، کندھک وٹ، گھوٹکی، دادو، ٹنڈو آدم، بدین، خیرپور، لاڑکانہ، سہون، سانگھڑ سندھ کے سب کے سب شہروں کا انفرااسٹرکچر تباہ ہے، رستے اور گلیاں کچرے اور گٹر کے پانی سے دائمی طور پر بھرے پڑے ہیں، پینے کے پانی کے لئے سندھ ہائی کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ ہے کہ پورا سندھ گٹر کا پانی پیتا ہے۔ میونسپل نظام مکمل تباہ ہے۔ میونسپلٹی بجٹ کا ایک بڑا حصہ حکمران پارٹی والے نقد اٹھا لیتے ہیں۔

صحت کا نظام مکمل کرپٹ اور تباہ ہے۔ کراچی کے علاوہ پورے سندھ کی اسپتالوں کی حالت قابل رحم ہے۔ بجٹ کروڑوں اور اربوں میں ہے۔ تعلیم کا نظام بھی تباہ ہے۔ سندھ کے اسکولوں کی حالت دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ اربوں روپے کا تعلیمی بجٹ کہاں ہڑپ ہوا۔ پورے سندھ میں گذشتہ دس سال میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اربوں روپے بجٹ کے باوجود کوئی ایک ماڈل اسپتال، ماڈل شہر، ماڈل گائوں، ماڈل اسکول اور ماڈل یونیورسٹی نہیں دی۔ ان سب کی مکمل اور اکیلی ذمہ دار سندھ حکومت ہے جس کے پاس اربوں روپے کا بجٹ آیا مگر پورا کا پورا کرپشن کی نذر ہوگیا۔

سب معاملات مع ایک مقرر بجٹ صوبوں کے حوالے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب پیپلز پارٹی کا سندھ کارڈ بھی نھیں چل رہا ہے۔ ان کے پاس بھی سندھیت کو پنجابیت کے خلاف جگا کر احتجاج کرنے کے لئے کوئی بہانہ اس لئے نہیں رہا کہ جن شعبوں میں سندھ تباہ و برباد ہے وہ سب کے سب دس سال سے بنا شرکت غیرے ان کے پاس ہیں۔

 لے دے کے ایک بجلی کا معاملہ رہ گیا ہے جس کو بنیاد بنا کر پچھلے دنوں پیپلز پارٹی نے پورے سندھ میں احتجاج کرنے کی کوشش کی جو بھی باوجود سرکاری طاقت اور سہولیات ہونے کے عوام کی بھرپور شرکت سے اس لئے محروم رہا کہ مارکیٹ میں خبر چلی کہ یہ احتجاج ملک ریاض کے بحریہ ٹائون کراچی کی بجلی کے پلانٹ کے لئے گیس لینے کی غرض سے تھا۔

 

یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے پنجاب کے خلاف سندھ کارڈ کا بیلنس اٹھارویں آئینی ترمیم نےختم کر دیا ہے۔ جبکہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں کے سندھی مہاجر تضاد والے کارڈ کا بیلنس بھی ختم ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب سندھ کے ہر اس وڈیرے کو ہر قیمت ادا کرکے پر اپنے ساتھ شامل کر رہے ہیں جس کے اثر میں چھ چار لوگ ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).