جے آئی ٹی کی رپورٹس کون تیارکررہا ہے؟ ارکان صرف دستخط کرتے ہیں، معاملہ مزید الجھ گیا، ذرائع


جےآئی ٹی کے ایک رکن سے قریبی تعلق رکھنے والے بینکنگ ذرائع نے اس نمائندے کو تصدیق کی ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کی اکثریت کو وہ دستاویزات پڑھنے کے لئےوقت نہیں دیا گیا جو جے آئی ٹی کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جارہی تھیں اور آخری لمحات میں انہیں ان دستاویزات پر دستخط کےلئے کہا گیا ہے۔

صرف اتنا ہی نہیں، سامنے آنے والے دستاویزی ثبوت اور 2ـحالیہ شواہدان شکوک وشبہات کو ثابت کرچکے ہیں کہ تفتیشی ٹیم کے ارکان کو جے آئی ٹی کی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے سے متعلق جمع کروائی گئی غیر اہم شکایت کو پڑھنے کا وقت بھی نہیں دیا گیا بلکہ عدالت عظمیٰ میں رپورٹ جمع کروانے سے قبل انہیں صرف دستخط کےلئے کہا گیا ، یہ کوئی نہیں جانتا کہ کس نے اس رپورٹ کو تیار کیا اور جے آئی ٹی ارکان کو اس پر دستخط کےلئے کہا۔

سپریم کورٹ کے سامنے جمع کروائی گئی شکایت میں جے آئی ٹی نے الزام عائد کیا تھاکہ چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) نے شریف خاندان کی چوہدری شوگر ملز کیخلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات کو ختم کرنے کے احکامات دیے تھے، جے آئی ٹی کی شکایت میں یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا ’’اس بات کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ چوہدری شوگر ملز کیخلاف پرانی تاریخوںمیں منی لانڈرنگ کی تحقیقات بند کرنے اور ریکارڈ میں ردو بدل کرنے کے حوالے سے چیئرمین ایس ای سی پی کے احکامات پر ایس ای سی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی عظیم اکرام کی جانب سے عمل درآمد کیا گیا، علی عظیم اکرام کو چیئرمین ایس ای سی پی کی جانب سے موجودہ جے آئی ٹی کےلئے رکن نامزد کیاگیا تھا ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی عظیم اکرام کی نامزدگی جے آئی ٹی کی تحقیقات میں خلل ڈالنے کےلئے واضح ارادے کےساتھ کی گئی تھی۔

مندرجہ بالا سیاق وسباق میں ہر کوئی اب اس صورتحال کا اندازہ لگا سکتا ہےجو چیئرمین ایس ای سی پی کی ایما پر ’’ واٹس ایپ کال تنازع‘‘ کے باعث سامنے آئی تھی جس میں سپریم کو رٹ کے معزز رجسٹرار کوبلاجواز گھسیٹنے کی کوشش کی گئی تھی حالانکہ معزز رجسٹرار کادر حقیقت اس سارے معاملے میں عمل دخل نہیں تھا۔ اب دی نیوز کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ایس ای سی پی کا سرکاری ریکارڈثابت کرتا ہے کہ یہ ایس ای سی پی کے چیئرمین نہیں بلکہ پورا کمیشن تھا جس نے پاناما جے آئی ٹی میں نامزدگی کےلئےافسران کی فہرست کی منظوری دی تھی، ایس ای سی پی کو جے آئی ٹی کےلئے سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نام تجویز کرنے کے احکامات دیے گئے تھے اور ان میں سے ایک نامزد شخص کا جے آئی ٹی کےلئے ججز نے چنائو کرنا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایس ای سی پی کے پورے کمیشن کی جانب سے منظور کردہ فہرست میں سے سپریم کورٹ کو بھیجے گئے پہلے تین ناموں میںایس ای سی پی کے افسر علی عظیم اکرام کا نام شامل ہی نہیں تھا،اس سے بھی زیادہ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ بلال رسول جو آخر کار واٹس ایپ کال کے بعد جے آئی ٹی میں شامل ہوئے ایس ای سی پی کے سیکرٹری تھے ۔ سرکاری ایس ای سی پی ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ کمیشن کے سیکریٹری کی حیثیت سے بلال رسو ل نے نہ صرف ایس ای سی پی کے پورے کمیشن کے اجلاس کی منٹس کا مسودہ تیار کیا تھا جس میں جے آئی ٹی کے لئے نامزد کئے جانے والے افسران کی فہرست کی منظوری دی گئی تھی بلکہ انہوں نے انہی منٹس پر دستخط بھی کئے تھے ، مذکورہ اجلاس کے منٹس بلال رسول کے دستخطوں کے ساتھ سپریم کوٹ میں بھی جمع کروائے گئے تھے۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی شکایت جس پر جے آئی ٹی کے تمام 6ارکان بشمول بلال رسول نے بھی دستخط کیے ، اس میں واضح طور پرالزام عائد کیا گیا ہے کہ علی عظیم اکرام کو ابتدائی طور پر چیئرمین ایس ای سی پی کی جانب سے نامزد کیا گیا تھا۔

جب کہ عدالت عظمیٰ میں ایس ای سی پی کے نمائندے جو سپریم کورٹ کے ریکارڈ میں اب بھی موجود ہیں اور خصوصی بینچ کے معزز جج صاحبان اسے دیکھ بھی سکتے ہیں ، اسے بلال رسول کے دستخطوں کے ساتھ بھجوایا گیا تھااور اس میں کبھی بھی علی عظیم اکرام کا نام شامل نہیں تھا۔مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ایس ای سی پی کے اس مسئلے کوپہلے صفحے اور 12جون کو عدالت عظمیٰ میں جے آئی ٹی کی دوسرے شکایت میں بھی زیر بحث لایا گیا۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کی اکثریت کو جے آئی ٹی کی شکایت کی درخواست کا پہلا صفحہ تک پڑھنے کی اجازت نہیں تھی اور ان سے صر ف صفحہ 8 پر دستخط لیے گئے۔

یہ ایک الگ بات تھی کہ بعد ازاں عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے ایس ای سی پی کولکھا کہ وہ مزید ناموں کی سفارش کرے اور کسی نے عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس کے لینڈ لائن نمبر سے ایس ای سی پی چیئرمین کو فون کیا اور ان سے کہا کہ وہ واٹس ایپ کال پر بات کریں۔ بعد ازاں چیئرمین ایس ای سی پی نے فیس ٹائم پر کال اٹھائی، جس پر انہیں کہا گیا کہ وہ لازمی طور پر جے آئی ٹی کے لیے بلال رسول کو نامزد کریں۔فیس ٹائم پر فون کرنے والے نے اپنا تعارف بحیثیت رجسٹرار سپریم کورٹ کے کروایا۔

ایس ای سی پی کے کمیشن نے علی عظیم اکرام کا نام فہرست میں چوتھے نمبر پر جب کہ یاسر منظور کا نام پانچویں نمبر پر منظور کیا تھا۔عدالت عظمیٰ کے خط کے مطابق، کمیشن کی منظوری کے لیے دو مزید نام درکار تھےجو عدالت عظمیٰ میں بھجوائے گئےاور واٹس ایپ کی خفیہ کال کو نظر انداز کیا گیا۔ایس ای سی پی کمیشن کے اجلاس کے اہم نکات جس پر بلال رسول کے دستخط تھےان پر عمل درآمد کیا گیا ۔ آفیشل ریکارڈ بلا شک وشبہ ثابت کرتا ہے کہ ایس ای سی پی کی ابتدائی سفارشات میں علی عظیم اکرام کا نام شامل نہیں تھاجیسا کہ جے آئی ٹی کی شکایت میں کہا گیا ہے اور جس پر بلال رسول کے دستخط ہیں۔یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جے آئی ٹی، اصل جے آئی ٹی ارکان کے علم میں لائے بغیر عدالت عظمیٰ کو حقائق توڑ مروڑ کر گمراہ کررہی ہے۔

جے آئی ٹی واضح طور پر چیئرمین ایس ای سی پی اور دوسر ے ادارے کے سربراہ کو دیگر وجوہات کی بنا پر ہدف بنائے ہوئے ہے۔ایس ای سی پی ذرائع کے مطابق، اس کا مقصد ان اداروں کے سربراہوں سے جان چھڑانا ہے، جنہوں نے اپنے اداروں کی بہتری کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کے الزامات جس میں کہا گیا ہے کہ ایس ای سی پی چیئرمین نے منی لانڈرنگ تحقیقات 2016 کی بندش کا حکم پچھلی تاریخوں یعنی 2013 میں کرنے کا حکم دیا تھا۔یہ الزام بھی غلط ثابت ہوچکا ہےکیوں کہ جن لوگوں نے ایف آئی اے کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے، انہوں نے اس بنیادی حقیقت کا اقرار کیا ہے کہ تحقیقات 2013 میں ہی بند کی گئی تھیں۔

دی نیوز نے بھی اس بات کی تصدیق آفیشل ریکارڈ سے کی ہے ، یہاں تک کہ جو لوگ چیئرمین ایس ای سی پی کے خلاف الزامات عائد کررہے ہیں جو کہ فائل پر نوٹ لکھنے سے متعلق ہے۔انہوں نے بھی اپنے تحریری بیان میں اقرار کیا ہے کہ تحقیقات 2013میں بند ہوئی تھیں۔ذرائع کے مطابق، 2013 میں تحقیقات باقاعدہ طور پر بند ہونے کے بعد اصل فائل پر نوٹ نہ لکھنا دراصل ایس ای سی پی کے کچھ افسران کی نااہلی تھی اور انہوں نے پچھلی تاریخ اس لیے ڈالی تاکہ اپنے آپ کو بچایا جاسکے اور اب وہ چیئرمین کے خلاف الزامات عائد کررہے ہیں۔ایس ای سی پی ذرائع کا کہنا ہے کہ جیسے ہی تحقیقات تمام ضروری معلومات2013 میں چوہدری شوگر ملز سے متعلق فراہم کرنے کے بعد باقاعدہ طور پر بند ہوئیں ۔

اس فائل پردرست نوٹ ڈالنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا اگر افسران اس پر جون 2016 کی درست تاریخ ڈالتے،جب کہ وہ ایسا کررہے تھے۔تاہم انہوں نے 2013کی تاریخ اپنی غلطی سدھارنے کے لیے ڈالی۔ایس ای سی پی ذرائع کے مطابق، منی لانڈرنگ کی تحقیقات ایس ای سی پی کے دائرہ کار میں نہیں آتی اور اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں کہ منی لانڈرنگ ہوئی تھی تو وہ انہیں بھجوائے تاکہ ازسر نو تحقیقات ہوسکیں اورجس کی غلطی ہے اسے سزا دی جاسکے ۔

حالیہ کیس سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے اور تمام متعلقہ عہدیدار اس بات پر متفق ہیں کہ چوہدری شوگر ملز کی جانب سے تفصیلی جواب دیے جانے کے بعد منی لانڈرنگ کا کوئی کیس تھا ہی نہیں ۔ تفصیلی جواب میں تمام شواہد بشمول جاپان، کوریا، تائیوان اور ملائیشیا وغیرہ کی رسیدوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاں تک پاناما کیس کا تعلق ہےتو منی لانڈرنگ الزامات کیس تک محدود رہنا چاہئے اور ایس ای سی پی میں کیا ہوا اس پر نہیں جانا چاہئے۔اگر کسی کو اس بات کا یقین ہے کہ منی لانڈرنگ ہوئی تھی تو وہ اس کی علیحدہ تحقیقات کا حکم دے ۔

ذرائع نے استفسار کیا کہ ایس ای سی پی میں کسی عہدیدار کی غلطی کو اس پورے کیس کا حصہ کیسے بنایا جا سکتا ہے جو کہ منی لانڈرنگ کیس کیا تھا اس بات کو کلی طور پر نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔دوسراواقعہ جو جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹس سے لاتعلقی کو ثابت کرتاہے وہ حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کا مسئلہ ہے ۔بعض لوگوں کے نزدیک تصویرلیک ہونااہم نہیں لیکن یہ حقیقت ان کیلئے نہایت اہم ہوگی ‘حسین نوازکی تصویر میڈیااورسوشل میڈیا پر 4جون کو لیک کی گئی تھی جس کے بعد حسین نواز نے 7جون کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں وزیراعظم نوازشریف کی جے آئی ٹی میں پیشی سے قبل معاملے کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی گئی تھی ۔

جس دن پٹیشن فائل کی گئی اس روز سپریم کورٹ کے عملدرآمد بنچ نے تصویر لیک پر جے آئی ٹی ارکان سے پوچھ گچھ کی اوراس معاملے پر جواب/ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔12جون کو جے آئی ٹی نے اپنا جواب جمع کرادیا ۔اپنے جواب میں جے آئی ٹی کا کہناتھاکہ 4جون کو تصویرلیک ہونے کے بعد تفتیشی ٹیم نے اپنے تئیں تحقیقات کیں‘مجرم کا پتہ لگایا‘اسے اس کے محکمے میں واپس بھیجا جبکہ مذکورہ ’’محکمے ‘‘نے بھی مجرم کو سزا دی ۔جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں ایک اورجملہ بھی درج تھا جس میں کہاگیا تھا کہ مختصروقت میں نہ صرف تصویر لیک کی داخلی تفتیش مکمل کی گئی بلکہ تفصیلی رپورٹ اوراس ضمن میں اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیل سپریم کورٹ کے عملدرآمدبنچ کے سامنے ’’24 گھنٹے اور حسین نوازکی درخواست فائل ہونے سے پہلے ہی ‘‘جمع کرادی گئی تھی ۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جے آئی ٹی کے تمام چھ ارکان سپریم کورٹ کی تمام سماعتوں کے موقع پر موجودتھے ‘اس میں 7جون کی وہ اہم سماعت بھی شامل تھی جس میں ججز نے تصویر لیک پر جے آئی ٹی سے جواب مانگاتھا۔اگر جے آئی ٹی کی جانب سے 12جون کو دائر شکایت جس پر تمام 6ارکان کے دستخط تھے توانہیں چاہئے تھا کہ وہ یہ نازک جملہ حذف کردیتے کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ تصویر لیک کے 24گھنٹوں کے اندرعملدرآمد بنچ میں جمع کرادی ہے ۔شکایت تیار کرنے والا شخص 7جون کو سپریم کورٹ میں ہونے والی پیشرفت سے لاعلم تھا اس لئے اس نے مذکورہ جملہ تحریر کردیا جبکہ جے آئی ٹی ممبران نے اس کا پہلا صفحہ پڑھے بغیر ہی اس پر دستخط کردیئے ۔

( احمد نورانی) بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).