مشکلا ت کی آنچ پر پکنے والا زہریلا پکوان


اگر پاکستان کو سیاسی استحکام ،معاشی تسلسل اور تخلیقی تصورات رکھنے والی قیادت کی کبھی ضرورت تھی وہ یہی وقت ہے ۔ اس وقت داخلی اور خارجی ماحول انتہائی تشویش ناک ، جبکہ ناقابل ِبرداشت سیاسی اور معاشی افراتفری کے سیاہ بادل افق پر چھا رہے ہیں۔

منتخب شدہ سیاسی اداروں اور فوجی قیادت ،سول اور جوڈیشل اداروں ، سیاسی جماعتوں اور عدلیہ اور مختلف سیاسی جماعتوںکے درمیان کشمکش سے داخلی ماحول آلودہ ہوچکا ہے ۔ یہ کشمکش حیرت انگیز طور پر انتہائی مربوط ، جامع اور جچی تلی ہے ۔ جارحانہ مزاج رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کی جگہ متعدل مزاج اور غیر جانبدار سمجھی جانے والی قیادت آنے کے باوجود مقتدر ادارہ ابھی تک منتخب شدہ وزیر ِاعظم ، نواز شریف کے لئے تیز و تند جذبات رکھتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اُنہیں اور اُن کی صاحبزادی ، جو ممکنہ طور پر اُن کی سیاسی جانشین ثابت ہوسکتی تھیں، کو سیاسی میدان سے نکالنے کا سامان ہورہا ہے ۔ تاہم اس مرتبہ یہ کاوش اسلام آباد میں مخصوص ہاتھوں کے مہمیز کردہ دھرنوں کی بجائے انصاف کے ایوانوں میں کی جارہی ہے ۔ اس کوشش میں جے آئی ٹی انتہائی متنازع ہوچکی ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو اس کا اپنا کھلم کھلا تعصب اور مخصوص سمت اختیار کرنے والا جارحانہ رویہ ہے ، اور دوسری وجہ اس کی ساکھ مجروح کرنے کی حکمران جماعت کی شعوری کوشش۔ بمشکل ہی کوئی دن گزر پاتا ہے جب تحقیقاتی عمل کا حصہ بننے والے تینوں فریق، سپریم کورٹ کے جج صاحبان، جے آئی ٹی اور حکمران جماعت اور وزیر اعظم ایک دوسرے کے خلاف تیزو تند شکایات نہیں لگاتے ۔ چونکہ پی ایم ایل (ن) پہلے ہی بہت سے کردہ و ناکردہ گناہوں کی پاداش میں کٹہرے میں کھڑی ہے اور اس پر کیچڑ اچھالا جاچکا ، لیکن اس وقت جے آئی ٹی اور فاضل جج صاحبان کو اجلا رہنے کی ضرورت ہے مبادا تحقیقات اور ٹرائل کا نتیجہ اُن کی ساکھ کو داغدار کردے ۔

جے آئی ٹی اور عدلیہ مختلف ریاستی اداروں کے خلاف کمر بستہ ہو کر اُن پر تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام لگارہی ہیں۔ جج صاحبان نے نیب ، ایف بی آر اور سیکورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن کے چیئرمینوں کو نوٹس بھجوائے ہیں، جبکہ آئی بی کو خبردار کیا ہے کہ وہ تحقیقات کرنے والوں کو ہراساں کرنے سے باز رہے ۔ عدلیہ اور اہم ریاستی اداروں کے درمیان محاذآرائی کی آنچ سول ملٹری کشمکش کے حدت سے کسی طور کم نہیں۔ ہر دو ملک کے استحکام کے لئے خطرناک ہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعتیں بھی عدلیہ کے ساتھ سنگین مسائل رکھتی ہیں۔ اگر نواز شریف اپنے منی ٹریل کی تحقیقات کرنے والی جوڈیشل انکوائر ی کے راستے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو عمران خان بھی اپنے مالیاتی امور اور پارٹی کے منی ٹریل کی تحقیقات کرنے والے الیکشن کمیشن آف پاکستان کا راستہ روک رہے ہیں۔

اس پس ِ منظر میں سلگتا ہوا بیرونی ماحول شدید پریشانی کا باعث ہے ۔ افغانستان کا مسام دار بارڈر دونوں ممالک میں سرحد پار دہشت گردی کا بدستور موجب بنا ہوا ہے ۔ پاکستان مخالف طالبان افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں اور افغانستان مخالف طالبان پاکستان میں۔ پاراچنار اور کوئٹہ میں ہونے والے حالیہ دہشت گردحملے کابل میں ہونے والے حملے کی یاد دلاتے ہیں۔ اس میں دونوں ممالک کے خفیہ ہاتھوں کی کارفرمائی کاتاثر تقویت پاتا ہے ۔ پاک افغان تنازعات حل کرانے کے لئے امریکی سہولت کاری ناکام ہوچکی ۔ اس کے بعد چینیوں نے خطے میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کے لئے قدم رکھا ۔ اس سے امید پیدا ہوچلی تھی کہ معاشی سرگرمیاں امن کی راہ ہموار کریں گی ، لیکن دونوں ممالک(افغانستان اور پاکستان) کی سیاسی قیادت کو داخلی مسائل نے مفلوج کررکھا ہے ۔ چنانچہ فوری معاشی کامیابی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات حسب معمول عوامل اور عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ اگروزیر ِاعظم نریندر مودی اور اُن کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اے کے ددول پاکستان مخالف رویہ رکھتے ہیں تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی حکومت کو نئی دہلی کے ساتھ بات چیت کا عمل آگے بڑھانے اور غیر مشروط مذاکرات کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ چنانچہ ہم سرحدوں کو ابھی کچھ دیر تک گرم دیکھیں گے ،جبکہ طرفین کو ایک دوسرے کے پراکسی لشکروں کا خطرہ بھی رہے گا۔ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نریندرمودی کی واشنگٹن میں بھرپور پذیرائی کررہے ہیں۔ دوسری طرف کانگریس نے ’’دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی ناکامی‘‘ کا الزام لگاتے ہوئے اس سے اہم غیر نیٹو اتحادی کا درجہ واپس لینے اور فوجی امداد کم کرنے کا بل پیش کیا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ پاکستان کی وجہ سے امریکی خون بہا ہے ۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے علاوہ یہ اسٹیٹس پاکستان کو ترجیحی بنیادوں پر دفاعی ساز وسامان اور قرضوں کے حصول کے لئے ضمانت فراہم کرتا تھا۔ یہ رپورٹس بھی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ بھارت کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کے بارے میںمزید سخت موقف اختیار کرسکتی ہے ۔ ورلڈ بنک نے واشنگٹن کے تبدیل ہوتے ہوئے موڈ کو بھانپ کر فنانس منسٹر اسحاق ڈار کو وارننگ دی ہے کہ اُنھوں نے اہم مالیاتی اہداف حاصل کرنے کا موقع گنوا دیا ہے، اس لئے وہ قرض فراہم کرنے والوںسے کسی نرمی کی توقع نہ کریں۔

 

جس دوران عام انتخابات قریب آتے جارہے ہیں، سیاسی جماعتیں نئے انتقامی جذبے سے سرشار ہوکر ایک دوسرے کا گلا دبوچ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی نے پی پی پی کے کم از کم سات اہم رہنمائوں، جن میں بابر اعوان بھی شامل ہیں، پر ہاتھ صاف کرلیا ہے ۔ اسی طرح پی پی پی نے اپنے سابق وزیر ِ داخلہ ، رحمان ملک، جنہوں نے اپنے دور میں شریفوں کی منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی تھیں، کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر نواز شریف کے خلاف ثبوت پیش کرنے کی شہ دی ہے ۔اس تمام پیش رفت میں غیر معمولی بات یہ ہے کہ ریاستی اداروں اور ملک کے مقبول سیاسی رہنمائوں کو چیلنج کرنے میں عدلیہ مرکزی کردار ادا کررہی ہے ۔ موجودہ صورت ِحال میں ، جبکہ انتخابات اگلے برس ہونے جارہے ہیں، قابل ِ غور بات یہ ہے کہ کیاقابل ِ احترام عدلیہ کے لئے ایسی مجرمانہ تحقیقات کی دلدل میں قدم رکھنا درست ہے جس کے نتیجے میںافراتفری اور عدم استحکام کا کیچڑ پھیلے سیاسی فضا مزید مکدر ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).