ریمنڈ ڈیوس اور شکیل آفریدی : پاک امریکہ تعلقات کے دو رخ


 ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے مندرجات نے ملکی و غیر ملکی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ہلچل مچا رکھی ہے۔ ہر کوئی اپنے مطلب کی باتیں لیکر خود کو دانشور ثابت کر رہا ہے جبکہ عالمی تعلقات کے اس معاملے کو بہت سے لوگ ملکی سیاست کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنی اپنی پوائنٹ سکورننگ میں مصروف ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے سرعام دو معصوم پاکستانیوں کا قتل عام کیا، وہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا، امریکی حکومت نے اس کی گرفتاری پر دباو ڈالا، امریکہ کے ساتھ ملکر جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھ پاوں پھولنا یقینی بات تھی، ایسا ہی ہوا، لمبی ملاقاتیں اور منصوبہ بندی ہوئی، امریکی ایک ایک لمحے پر غصے میں تھے، ”چوہدری “ کا بندہ تھا چھوڑنا ہی پڑنا تھا، سب ہی جان چھڑانا چاہتے تھے، سب نے ہی جان چھڑائی اور ”قاتل ریمنڈ ڈیوس“ انتہائی آسانی سے اپنے ملک جا پہنچا۔

اب اس کی کتاب آئی ہے جس میں اس نے دعوے کئے ہیں کہ کیسے پاکستانی حکومت، اپوزیشن اور فوج کے ادارے سب ہی اس کی خدمت کو حاضر رہتے تھے اور اسے رہائی دلائی گئی۔ امریکیوں کی عادت ہے کہ کچھ لکھتے وقت خود کو نیک و پارسا قرار دیتے ہیں اور باقی سب کو مجرم۔ اپنے کارنامے گنواتے ہیں۔ یکطرفہ کہانی سناتے ہیں۔ جذباتیت اپنی جگہ لیکن حققیت یہی ہے کسی امریکی کو پھانسی لٹکانا خوابوں میں تو سوچا جا سکتا ہے، پرجوش نعرے بھی لگائے جا سکتے ہیں، بڑے بڑے احتجاج بھی کئے جا سکتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جب نائن الیون ہوا تو ایک جنرل کی حکومت تھی وہ ایک فون کال کا دباو برداشت نہ کر سکی۔ اگر ناراض نہ ہوں تو عرض کروں کہ اگر اس وقت امیر جماعت جناب سراج الحق صدر پاکستان ہوتے، جناب عمران خان وزیر اعظم ہوتے اور محترم جناب حمید گل آئی ایس آئی کے سربراہ تو بھی یہی ہونا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنا پڑنا تھا۔ جذباتی نعرے صرف لگانے کے لئے ہوتے ہیں، کیا آپ کو یاد ہے کہ لیبیا نے ایک طیارے تباہ کرنے والے قاتل نہ دے کر ملک تباہ کرایا ہے۔

خوابوں کی دنیا میں تو کسی بڑے سے اجتماع میں پرجوش تقریروں کے ذریعے ” انڈیا ٹوٹتا اور امریکہ جلتا “ ہوا دیکھا جا سکتا ہے لیکن ابھی دنیا میں ایسے حقائق موجود نہیں ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی ہی ہے کہ ہر کوئی اپنی مار پر رہتا ہے۔ دونوں ساتھ بھی چلتے ہیں اور ایک دوسرے پر نظر بھی رکھتے ہیں بلکہ دونوں کو ایک دوسرے سے یہاں تک شکائتیں بھی ہیں کہ ان کے مخالفین کو سپورٹ کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کو پتہ ہے کہ افغان مزاحمت کے پیچھے کتنا پاکستانی ہاتھ ہے اور امریکہ پاکستانی طالبان کو سپورٹ کرکے،بلیک واٹر جیسے غنڈوں کے ذریعے غصہ نکالتا رہتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب امریکی پروپیگنڈہ ہے۔ سی آئی اے نے غصہ نکالا ہے جو ان کے بندے کو پکڑا گیا۔ عدالتوں میں گھسیٹا گیا اور پھر باقاعدہ دیت لیکر قانونی طریقے سے چھوڑا گیا۔ کتاب سے تو ایسا لگتا ہے کہ ریمینڈ ڈیوس جیل سے سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا۔ ہمارے نادان دوست اس پروپیگنڈے کا شکار ہو رہے ہیں۔ امریکہ کے بندے کو پکڑ لینا بڑی بات تھی اور پھر جیل میں رکھنا بس یہی کچھ ہو سکتا تھا جو کر لیا گیا۔

اب چاہے وہ جو مرضی لکھے۔ وہ یہ بھی لکھ دیتا کہ جیل میں اس کی خدمت کے لئے حمزہ شہباز۔ بلاول بھٹو اور جنرل پاشا کا بیٹا مامور تھے، اس کا کھانا کور کمانڈر کے گھر سے آتا تھا، ہمارے سیاسی تجزئیہ نگاروں نے وہ بھی تسلیم کر لینا تھا۔ امریکہ کا بندہ تھا چھوڑنا ہی تھا چاہے کوئی بھی وزیر اعظم یا صدر ہوتا لیکن انہیں غصہ یہ ہے کہ رگڑا کیوں گیا۔۔ جناب اگر صدر وزیر اعظم اور فوج اتنی ہی ڈری ہوئی تھی تو پھر اسے پکڑا ہی کیوں تھا۔ پہلے ہی دن کیوں نہ چھوڑ دیا۔ عدالتوں میں کیوں گھسیٹا اور دیت لے کر کیوں چھوڑا گیا اور اس کے بدلے بلیک واٹر کا بوریا بستر کیونکر گول کر دیا۔ اگر ملک میں سب کچھ امریکہ کے کہنے پر چلتا ہے تو جناب اب تک امریکہ کے شدید ترین دباو کے باوجود شکیل آفریدی کو حوالے کیوں نہیں کیا گیا؟ اگر امریکہ کی ہر بات مانی جاتی ہے تو پھر وہ حافظ سعید، جماعت الدعوہ کے خلاف کارروائی اور ان کے کام کو بند کیوں نہیں کرا سکتا ؟

عرض صرف اتنی ہے کہ ملکی سلامتی کے ادارے اتنے بھی غافل اور فرمان بردار نہیں کہ آنکھیں بند کرکے ہر بات پر عمل کر لیں، کچھ کام کرنے پڑتے ہیں اور بہت سے کام نہیں کئے جاتے۔ عالمی سیاست کے معاملات جذبات سے طے نہیں کئے جاتے، ” غیرت“ کی باتیں اچھی لگتی ہیں لیکن پیارے ہم وطنوں یہ نعرے تب لگانا جب اپنی معیشت کو خودکفیل بنا لو، معاشی پابندیاں برداشت کر سکو اور شائد جنگ بھی۔۔ جذباتیت اپنی جگہ لیکن اس مقام تک پہنچنے میں دیر لگتی ہے، سب مل کر کوشش کریں تو شائد ہماری اگلی نسل کسی ریمنڈ ڈیوس کو پھانسی لگا دے۔ ہمارے ہاں حکومت سے باہر رہتے ہوئے امریکہ مخالف ہونا ایک فیشن ہے، نواز شریف بھی عافیہ صدیقی کے گھر گئے تھے، میمو گیٹ پر شور مچایا تھا، فضل الرحمن یہودی لابی کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن یہودی امریکی سفیر سے وزارت عظمی کی خواہش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے، آج کل زرداری بھی امریکہ مخالف ہیں اور خورشید شاہ حکومت کو ایجنٹ قرار دے رہے ہیں جبکہ خود جب صاحب اقتدار تھے تو میمو گیٹ بنایا تھا، ہر کوئی جب باہر ہوتا ہے تو امریکہ مخالف ”مجاہد “ ہوتا ہے لیکن حکومت میں آتے ہی آٹے دال کا بھاو معلوم ہوتا ہے۔ سیاسی پوائنٹ سکورننگ کرکے ملکی اداروں پر تنقید کرنا تو بہت آسان ہے۔ لیکن ان کی طرح جانوں پر کھیل کر ملکی سلامتی کی حفاظت کرنا کافی مشکل کام ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے وہ اس کتاب کو لیکر جسے چاہے مرضی گالی دے۔ لیکن یہ کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ پاک امریکہ تعلقات کے ایسے کئی جھوٹ سچ ہیں جن کے بارے ہر ایک کی اپنی اپنی کہانی ہے، ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑنا بزدلی سہی لیکن پھر شکیل آفریدی کو ابھی تک قید رکھنے کو آپ کیا کہیں گے !

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).