انسانی جان اور کٹھور پن کی نفسیات


 ہمارے ہر روز کے نیوز بلیٹن میں مختلف حادثات، وارداتوں اور تخریب کاری میں مرنے والوں کا بیان اب ایک لازمہ بن کر رہ گیا ہے۔ مان لیا کہ ہم ایک ترقی پزیر ملک ہیں ہمارے ذرائع محدود ہیں۔ حادثات، جرائم اور تخریب کاری کی روک تھام کے لیے ناکافی انتظامات کے سبب ایسے واقعات تسلسل سے رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن بنیادی سوال ان رویوں کے بارے میں ہے جو انسانی جانوں کے ضیاع کی جانب اختیار کیا جاتا ہے ۔۔۔ احمد پور شرقیہ کی طرح بعد میں ہونے والے آئل ٹینکر کے دیگر حادثات میں پولیس نے عام افراد کو جاے حادثہ سے دور رکھا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو کیا لوگ اپنی جان کی قیمت پر مفت کا تیل حاصل کرنے کی کوشش سے باز رہتے؟ ایک دوست نے عید کے دن ہونے والے حادثے کی ویڈیو بھیجی ہے جس میں چند افراد ہاتھ چھوڑ کر موٹر سائیکل چلانے کا مظاہرہ کرتے کرتے ہوے ایک جان لیوا حادثے کا شکار ہوے۔ کیا یہ افراد ایسے حادثے کے امکانات سے بے خبر تھے؟ شہروں میں نوجوان شرطیں لگا کر ون ویلنگ کرتے ہیں اور اپنی اور دوسروں کی جان خطرے میں ڈالتے ہیں ۔ ان نوجوانوں کے ذہن کے کسی گوشے میں اپنی موت کا احتمال نہ ہوتا ہوگا؟ آپ نے شہروں کے درمیان چلنے والی بسیں، شہروں میں چلنے والی ویگنیں اور چنگ چی رکشہ ضرور دیکھے ہوں گے اور ان کے ڈرائیوروں کی جاں گسل مہارت بھی دیکھی ہوگی اور اپنے سے یہ سوال بھی کیا ہوگا کہ آخر جان کی قیمت پر اس عجلت کا کیا جواز ہے۔ آپ نے پتنگ بازوں کے ہاتھوں مرنے والوں کے بارے میں خبریں بھی سنی ہوں گی۔ آپ نے پتنگ بازی پر لگنے والی پابندی اور اس پر ہونے والی بحث بھی پڑھی ہوگی۔ پتنگ بازوں نے اپنے مشغلے پر لگنے والی پابندی برداشت کرلی مگر جان لیوا ڈور کا استعمال ترک نہ کیا۔۔ ریلوے کراسنگ پر ہونے والے واقعات اب معمول کی بات سمجھے جاتے۔ کئی مرتبہ سکول جانے والے معصوم بچے ایسے حادثوں میں جاں بحق ہوے۔ مان لیا ریلوے حکام کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہیے لیکن ریلوے لائن یا سڑک پار کرنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھنے میں کیا امر مانع ہوسکتا ہے۔ حکومت اور حکومتی اداروں کی نااہلی مسلم مگر کیا کوئی ذمہ داری سڑک پار کرنے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ چند لمحوں کی تاخیر سے بچتے ہوئے لوگ اپنی جان گنوانے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں جعلی ادویات یا ملاوٹ زدہ دودھ بیچنے والوں کی بات نہیں ہورہی۔ وہ تو ہیں ہی مجرم۔ یہاں “مارو اور مر جاؤ” کی پالیسی پر عمل کرنے والے خودکش حملہ آور کے بارے میں بھی بات نہیں ہورہی۔ یہاں اپنے ہاتھوں اپنی جان لٹانے والوں کا قصہ بیان ہورہا ہے۔

ذہنی امراض کی درجہ بندی میں ایک ذہنی عارضے Necrophilia کا ذکر موجود ہے۔ اس عارضے کے شکار افراد میں مردہ اجسام کے ساتھ جنسی اختلاط کی ایک بے قابو خواہش موجود ہوتی ہے۔ متعدد مواقع پر یہ افراد قبریں کھود کر مردوں کے ساتھ جنسی اختلاط کی کوشش کرتے ہوے پکڑے گئے۔ بعض ماہرین کے نزدیک یہ ایک مزاحمت اور انکار نہ کرسکنے والے جسم کے ساتھ جنسی اختلاط کی خواہش ہے۔ زندہ فرد کے ساتھ جنسی اختلاط اسکی مرضی اور منشا کے بغیر نہیں ہوتا۔ نہیں ہوسکتا اور نہیں ہونا چاہئے۔ زندہ فرد یا تو جنسی اختلاط کے لیے رضامند ہوگا۔ انکار کرے گا یا زبردستی کی صورت میں مزاحمت کرے گا۔ انکار نہ سن سکنے والا یا پھر جس کو انکار کا یقین ہو وہ فرد نیکروفیلیا کی جانب مائل ہوگا۔

ایرک فرام نے نیکروفیلیا کی نفسیاتی اور سماجی تشریحات پر گرانقدر کام کیا ہے۔ ایرک فرام کے مطابق یہ صرف مردہ اجسام کے ساتھ جنسی اختلاط کی خواہش نہیں ہے بلکہ مردہ اشیاء سے محبت کی علامت بھی ہے۔ فرام نے اپنی کتاب The Heart of Man میں نیکروفیلیا کو Syndrome of Decay میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اس کے مطابق یہ صرف جنسی بگاڑ یا بے راہ روی ہی نہیں ہے بلکہ مردہ افراد کی صحبت میں زندگی بتانے کی خواہش کا اظہار بھی ہے۔ یہ لوگ ہر اس شے کی جانب متوجہ ہوتے ہیں جو زندہ نہ ہوں۔ جس کا لازمی نتیجہ ان افراد کی موت، مردہ اجسام اور گلی سڑی غلیظ اشیا سے محبت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اپنے تجزیے کو پھیلاتے ہوے فرام نے ایسے افراد کی خصوصیات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ موت کو زندگی پر فوقیت دینے والے افراد ہوتے ہیں۔ ماضی کو مستقبل پر ترجیح دے کر ماضی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ہر غیر نامیاتی شے جو نشوونما نہ کر سکے ان کی پسندیدہ و مرغوب ٹھہرتی ہے۔ اور اہم ترین اور بنیادی بات۔۔۔ یہ لوگ ہر زندہ شے کو ایک بے جان شے میں تبدیل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ اس لیے انسان اور دیگر نامیاتی اشیاء کو بے جان اور غیر نامیاتی اشیا میں تبدیل کرنے کی شدید خواہش، کوشش اور مظاہرے ان افراد کے ہاں بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں ۔

آپ کو سیالکوٹ کا واقعہ یاد ہوگا جس میں دو بھائیوں کو ایک ہجوم کے سامنے تشدد کا نشانہ بنا کر مار دیا گیا تھا۔ اس واقعے کو پولیس سمیت عوام کی ایک بڑی تعداد نے خوف و ترحم اور اشتیاق کے ملے جلے جذبات کے ساتھ نہ صرف دیکھا بلکہ اسے ریکارڈ بھی کیا۔ یہی کہانی مشال خان کے واقعے میں بھی دوہرائی گئی۔ کسی بھی انسان کو زندہ سمجھ کر اس حد تک اور ایسا تشدد کرنا کسی دوسرے انسان کے لیے ممکن نہیں ہے تاوقتیکہ نشانہ بننے والے افراد کو زندگی سے محروم اور بے جان نہ خیال کیا جاے ۔ ذرا تشدد کرنے والوں کی ویڈیو دوبارہ دیکھیں آپ بآسانی دیکھ سکیں گے کہ وہ ایک احساس اور زندگی سے عاری ایک بدن پر ڈنڈے برسا رہے ہیں ۔

زندگی سے محروم کرنے کے کئی اسلوب اور طریقے ہوتے اور ہو سکتے ہیں ۔ ان میں سے ایک کسی کو واجب القتل قرار دینا بھی ہے۔ جب کسی کو واجب القتل قرار دیا جاتاہے تو اصل میں اس کو آپ ایک غیر نامیاتی حقیقت میں بدل دیتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے کمال حد تک غیر جذباتی ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ظلم نہیں ہے بلکہ موت کی محبت میں زندہ اشیا کو مردہ اشیا میں تبدیل کرنے کا ایک عمل ہے۔ اور ایسا کرنے کے لیے تباہی پھیلانا ناقابل برداشت نہیں رہتا۔

میں نے عرض کیا کہ حقیقت میں یہ ایسے اجسام سے تعلق استوار کرنے کی شدید خواہش ہے جو انکار اور مزاحمت نہ کرسکیں۔ انکار اور مزاحمت کو ختم کرنے کا عمل “سوال” کے قتل سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں باپ اور باپ جیسے سماجی اداروں (مذہب اور فوج) کے سربراہوں کی اتھارٹی کو درجہ تقدیس پر فائز کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان اداروں میں ڈسپلن، امیر اور سپہ سالار کی اطاعت ہر سوال سے بالاتر ٹھہرائی جاتی ہے۔ تیسرے اور آخری درجے میں نافرمانوں کو ایک غیر نامیاتی حقیقت میں بدل دیا جاتاہے ۔ بولنے والے خاموش کرا دیے جاتے ہیں۔

زندگی اور زندہ اشیاء سے نفرت کا لازمی نتیجہ موت، مردہ افراد اور مردہ نظریات سے محبت کی صورت میں نکلتا ہے۔ ایک عام فرد کے حیات صرف ایک شے قرار پاتی ہے جس کا تبادلہ Barter کسی دوسری شے سے ممکن ہوتا ہے ۔ زندگی ایک شے ہے تو آئل ٹینکر سے بہنے والا تیل بھی ایک شے ہے اور ان دونوں کا تبادلہ ممکن ہے۔ ایک کی قیمت پر دوسرے کا حصول نہ صرف ممکن ہے بلکہ روا بھی ہے۔ اس لیے تعجب نہ کیجئے اگر پیسے دے کر ایک خودکش بمبار خریدا جا سکے۔ حیران نہ ہوں اگر زائد مسافروں کے لیے ایک بس ڈرائیور سڑک پر کھڑے افراد کی زندگیوں کا چراغ گل کردے۔ اگر برسوں میں تیار ہونے والے ڈاکٹر علی حیدر کی زندگی ایک کرائے کا قاتل چھین لے۔ بھتے کے لیے بلدیہ ٹاؤن کراچی میں ڈھائی سو افراد زندہ جلا دیئے جائیں۔ موت سے محبت نے زندگی کو ایک شے Commodity میں بدل دیا ہے۔ یہ کٹھور پن نہیں ہے بلکہ موت اور مردہ کو زندگی اور زندہ پر ترجیح دینے کا عملی مظاہرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).