کہانی بہت دور چلی گئی ہے 


اردو کے جدید فکش رائیٹرز شاعری سے بالعموم اور جدید شاعری سے بالخصوص کوئی لگاؤ نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں صرف دو استثنائی مثالیں ہیں۔ ایک مستنصر حسین تارڑ کی جو کہانی کی ٹوٹتی ہوئی یا الجھی ہوئی صورت حال اور بس سے باہر ہوتی ہوئی کیفیات میں کسی عمدہ نظم کو ایک ایسے فعل کی طرح استعمال کرتے ہیں جو مسند الیہ اور مسند کو بیان کیے بغیر کامیابی سے جوڑ دیتی ہے۔ دوسرے ہندوستان کے مشرف عالم ذوقی ہیں جن کا شعری وژن ان کی فکشن نگاری سے کسی طور کم نہیں۔ اگر وہ کہانی نہ لکھتے تو بہت عمدہ نظم نگار ہوتے۔ عبداللہ حسین کو بھی اردو شاعری سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور وہ یہ بات بلا تکلف کہہ بھی دیتے تھے۔  لیکن جانے کیوں میری شاعری ان کو اچھی لگنے لگی تھی اور موقع بموقع اور سوشل میڈیا پر اس کا برملا اظہار کرتے تھے۔ بعض اوقات مجھے فون پر بتاتے تھے کہ نصیر آج میں نے آپ کی فلاں نظم پڑھی۔ بس اس سے زیادہ شاعری پر بات نہیں کرتے تھے۔ گزشتہ سال میری نظموں کے انگریزی تراجم پر مشتمل کتاب ” اے مین آؤٹ سائیڈ ہسٹری ” انڈیا سے شائع ہوئی تو اس کے فلیپ پر صرف عبداللہ حسین کی مختصر رائے تھی جو انہوں نے کسی موقعے پر از خود میری شاعری کے بارے میں لکھی تھی۔ حالانکہ اس کتاب کے لیے انہوں نے بطورِ خاص بھی رائے لکھی تھی جسے، بیک ٹائٹل پر جگہ کم ہونے کے باعث، پبلشر نے شائع نہیں کیا۔ یاد رہے کہ عبداللہ حسین کتابوں کے لیے آرا، فلیپس وغیرہ نہیں لکھتے تھے۔ ظفر اقبال کے ایک کالم سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنی مشکل سے ان کے کلیات کا فلیپ لکھنے پرآمادہ ہوئے تھے۔ “اے مین آؤٹ سائیڈ ہسٹری”  ملنے پر مجھے مبارک باد دیتے ہوئے از راہِ مذاق کہا؛

Now you can come into history

عبداللہ حسین اپنی نسل اور عمر کے واحد ادیب تھے جو تخلیقی اعتبار سے آخر دم تک فعال تھے اور مسلسل لکھ رہے تھے، سوشل میڈیا پر بھی باقاعدگی سے آتے تھے اور دوستوں سے رابطہ رکھتے تھے۔ حتیٰ کہ اپنی وفات سے چند دن پہلے تک، کومے میں جانے سے قبل، کیمو تھراپی کے تکلیف دہ عمل کے دوران بھی نیٹ پر دوستوں سے رابطے میں رہے اور اپنا سٹیٹس بھی اپ ڈیٹ کرتے رہے۔ ایک بار میرے گھر کی تصاویر دیکھیں تو کہا کہ آپ کا گھر تو بڑا خوبصورت ہے یہاں ایک دن گزارا جا سکتا ہے۔ میں نے کہا کہ گھر تو عام سا ہے البتہ آپ کے ایک روزہ قیام سے یہ ضرور خوبصورت ہو جائے گا۔ اپنے مخصوص بے ساختہ پن میں جواب دیا کہ اچھا اب اگر اسلام آباد آیا تو ایک دن آپ کے گھر ضرور ٹھہروں گا۔ افسوس کہ میرے گھر کو یہ  سعادت بخشنے سے پہلے ہی وہ اس سے بڑے گھر میں چلے گئے کبھی واپس نہ آنے کے لیے۔ میں نے ان کے لیے ایک نثری  نظم ” کہانی اور کتنی دور جائے گی؟ ” لکھی تھی جو ان کی زندگی میں شائع ہوئی اور انہوں نے بہت پسند کی۔ نظم پیش ہے:

کہانی اور کتنی دُور جائے گی ؟
( عبداللہ حسین کے لیے )

کہانی ہمارے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا راستہ ہے
شام کے ملگجے اندھیرے میں
جب درخت کسی خلائی مخلوق کی طرح دکھائی دیتے ہیں
تو ہم آگے جانے سے ڈرتے ہیں
اورجب بھاگنے کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں
تو یوں لگتا ہے
جیسے کاندھے کسی بوجھ تلے دب رہے ہوں
اور اس قنطور نما بوجھ کے پچھل پاؤں
کہیں دُور داستانی زمانوں میں ٹکے ہوئے ہوں
اور ہم آسیب زدہ ارتقائی بُوزنے
انسانوں کی طرح مِنمناتے ہوئے سلامتی کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں

جب ہم کہانی میں نہیں تھے
تو ’لا کردار‘ تھے
نہ کوئی ہمارا خدا تھا نہ مذہب
نہ ملک نہ شہر نہ گاؤں
نہ گھر نہ دیواریں
نہ قوم نہ قبیلہ
نہ حسب نہ نسب
کہانی نے ہمیں کرداروں اور خداؤں میں بانٹ دیا ہے
اب ہم کاغذی زندگی میں اصل ہونے کی کوشش کرتے ہیں
اورایک دوسرے کے ساتھ
طفیلیوں کی طرح رہنے پر مجبور ہیں
اور بسا اوقات تو
مصنف کے دیے ہوئے الفاظ اور معانی بھی کھا جاتے ہیں
اور دائمی التوا بلکہ ابتلا میں مبتلا رہتے ہیں

کہانی کار !
ہمیں کچی بستی کے کرداروں کی طرح
بےآسرا مت چھوڑو
وقت نا وقت کی تیز بارشوں میں
کہانی کی دیواریں گر گئی ہیں
اور گھاس پھوس سے بنی ہوئی چھتیں
لگاتار ٹپکنے لگی ہیں
ہم اپنی حدوں سے تجاوز نہیں کرتے
ہم نے تو کبھی بادلوں پر پاؤں بھی نہیں رکھے
اس کے باوجود ہم جانتے ہیں
ایک دن ہماری کہانی پر بُل ڈوزر پھیر دیا جائے گا
ہمارے گھروں کی طرح
پھر ہم کیا کریں گے ؟
اپنے جنازے کہاں لے جائیں گے ؟
شہروں کی مٹی ہمارے مردے قبول نہیں کرتی

کہانی کار !
ہم نہیں جانتے
لیکن آئن اسٹائن کو پتا تھا
کہ کہانی پھیلتی جا رہی ہے
کائنات کی طرح
اور ایک دن اچانک اپنے آپ میں سمٹ جائے گی
آخری چرمراہٹ کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توانائی، مادے اور روشنی کے ادغام و انشقاق میں
دیواروں کے آر پار دیکھ لینے سے
زندگی اتنی عریاں ہو گئی ہے
کہ ہماری ہڈیوں کا پگھلا ہوا گودا بھی نظر آنے لگا ہے
اور زمان و مکاں کی ساری اداسی
ہمارے دلوں میں سے گزرتی ہوئی صاف دکھائی دے رہی ہے
اور ہمارے خواب فرشتوں پر عیاں ہو گئے ہیں
اور وہ حیران ہیں
کہ خوابوں کی دنیا میں انسان اتنا بے بس کیوں ہے
اور روشنی کی رفتار حاصل کر لینے کے باوجود
بھاگ کیوں نہیں سکتا !

ہم ایک بیضوی گھماؤ میں
چلتے چلتے تھک گئے ہیں
کہانی کار! ہمیں بتاؤ
کہانی اور کتنی دور جائے گی؟
کیا زندگی سے بڑا کوئی بیانیہ بھی ہے
جسے لکھنے کے لیے
ساری دنیا داؤ پر لگی ہوئی ہے
اس سے پہلے کہ کسی جنت نواز خود کش دھماکے میں
کہانی کے ٹکڑے اڑ جائیں
ہمیں کہانی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر لینا چاہیئے!

نظم پڑھ کر خلافِ توقع خوش ہوئے اور درج ذیل الفاظ میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا:

“Naseer, What a magnificent poem! A gem of Urdu poetry, a perfectly cut diamond, an elegy that reflects the agony of present times but is also a paean to a lost generation. As for me, I don’t deserve the kindness that you shower on me. Thank you…. “

بعد میں نظم میں موجود ہلکی سی یاسیت اور افسردگی پر بات کرتے ہوئے کہا:

“Come on Naseer, it is people like you who have the duty not to lose hope and by so doing create hope in others. You can become sad but as long as you are alive and can walk a few steps, never ever lose hope.  Your deathless poetry will keep giving hope to generations whom you don’t even know  and will never see. Think about them.”

ہماری گفتگو اور پیغامات کا تبادلہ عام طور پر انگریزی میں ہوتا تھا کیونکہ انھیں انگریزی میں اظہار آسان لگتا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ وہ کس خوبصورتی سے اپنے حوالے یا اپنے بارے میں ہونے والی ہر بات کو ٹال کر ساری توجہ دوسرے پر مرکوز کر دیتے تھے۔ یہ وصف آج کل کے ادیبوں و شاعروں میں عنقا ہے جو اپنے بارے میں خود ہی بول بول کر نہیں تھکتے اور اپنی تعریف کے علاوہ کچھ اور سننا نہیں چاہتے۔ لیکن عبداللہ حسین کے اندر خود نمائی نہ ہونے کے برابر تھی اور اگر کہیں تھی تو اتنی ہی تھی جتنی فطری طور پر انسان کے اندر رکھی گئی ہے۔ جب میں نے سوشل میڈیا پر نظم کو اپ لوڈ کرنے کی بابت پوچھا تو جواباً کہا: میں نظم میں موجود ہلکی سی یاسیت اور افسردگی پر بات کرتے ہوئے کہا:

“These are your words and you can do with them what you want. I greatly value your friendship. But if you ask me, don’t post.”

تاہم میں نے نظم فیس بک پہ پوسٹ کر دی جس پر انہوں نے فراخدلی سے مزے کی رائے زنی کی جو اب ریکارڈ میں نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کہانی کو راستہ بدلتے اور دور جاتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ بالآخر عبداللہ حسین نے کہانی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر لیا۔ اس نزاع، الجھاؤ، ناانصافی، اختلاف، تصادم اور جدال سے بھری دنیا کو چھوڑ کر کہانی بہت دور چلی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments