کہانی بہت دور چلی گئی ہے 


عبداللہ حسین! ہمارے عہد کی کتھا میں

الفاظ کاغذ پر نہیں اسکرین پر ابھرتے ہیں

قلم کے بجائے کی بورڈ لکھتا ہے

ہماری نسلیں ھیری پوٹر کی فلمیں دیکھتی ہیں

اور پائلو کولو کو پڑھتی ہیں

اور حقیقت سے دور بھاگتی ہیں

عبداللہ حسین! ہماری نسلیں اب اداس نہیں، مایوس ہو چکی ہیں

عبداللہ حسین کو اردو ادب کا کون سا شاعر، ادیب اور طالب علم ہو گا جو نہہیں جانتا ہو گا، خاص طور پر ان کے اولین  مشہور ناول ” اداس نسلیں ” کے حوالے سے۔ اب یاد نہیں کہ میں نے یہ ناول کب پڑھا تھا۔ لیکن ان سے دلی اور ذاتی تعلقات استوار ہوئےابھی کچھ ہی سال ہوئے تھے۔ ان سے پہلی ملاقات بشریٰ اعجاز کے گھر پر ہوئی تھی۔ اس ملاقات سے پہلے ان سے کبھی کبھی ٹیلیفون پر بات ہو جاتی تھی یا نیٹ پر رابطہ رہتا تھا۔ چوہدری اعجاز، بشریٰ اعجاز اور ان کے خاندان سے میرے دیرینہ تعلقات ہیں۔ میں جب بھی لاہور جاتا ہوں تو ڈاکٹر امجد پرویز یا بشریٰ اعجاز کے ہاں ٹھہرتا ہوں۔ بعض اوقات تو فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کے ہاں ٹھہروں۔ کیونکہ ایک کے ہاں رہوں تو دوسرا گلہ گزار ہوتا ہے۔ تاہم قرعہء فال زیادہ تر بشریٰ اعجاز کے گھر کا ہی نکلتا ہے۔ جب تک لاہور رہوں دونوں میاں بیوی باقی ساری مصروفیات ترک کر دیتے ہیں اور ان کی محبت اور توجہ لاہور میں مجھےکسی اور سے ملنے کے قابل نہیں چھوڑتی۔

یہ پس منظر بتانا اس لیے ضروری تھا کہ عبداللہ حسین بہت کم کسی کے ہاں جاتے تھے لیکن بشریٰ اعجاز کے گھر اکثر آیا کرتے تھے۔ میں بالخصوص سینئرز سے ملنے ملانے، تعلقات بنانے اور برقرار رکھنے میں بڑا سست اور کمزور واقع ہوا ہوں۔ اس لیے مشترک اورانفرادی رابطوں اور کئی بار پروگرام بننے کے باوجود عرصہ دراز تک عبداللہ حسین سے ملاقات نہ ہو سکی۔ بالاخر ایک بار میں خاص طور پر یہ طے کر کے لاہور گیا کہ عبداللہ حسین صاحب سے ضرور ملنا ہے۔ چنانچہ جب بشریٰ نے انہیں فون کر کے بتایا کہ نصیر احمد ناصر آئے ہوئے ہیں اور ہم ان کی طرف آ رہے ہیں تو انہوں نے بچوں جیسی بے ساختہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اچھا واہ ناصر صاحب آئے ہیں پھر تو میں خود اُن سے ملنے آپ کی طرف آ جاتا ہوں۔ مجھے تو ظاہر ہے ان کے اس جواب سے بے حد خوشی ہوئی کہ اتنا سینیئرادیب خود مجھ سے ملنے آ رہا ہے لیکن بشریٰ کے لیے بھی یہ بات حیران کن تھی اور مذاق سے کہنے لگی کہ مجھے تو جیلسی فیل ہو رہی ہے کہ وہ آپ کو اتنا پسند کرنے لگے ہیں۔ مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ وہ کتنے اوریجنل انسان ہیں، اپنی کہانیوں کے کرداروں کی طرح حقیقی ورنہ میرے جیسے بے نام آدمی سے جو کسی کہانی کا کردار بھی نہیں، یوں ایک دم ملنے نہ چلے آتے۔ یہاں تو لوگ ایک کتاب اپنے پلے سے چھاپ کر خود کو صاحبِ دربار سمجھنے لگتے ہیں اور مسند سے نیچے پاؤں رکھنا گناہِ عظیم خیال کرتے ہیں۔

تھوڑی دیر بعد گھٹنے میں شدید تکلیف کے باوجود عبداللہ صاحب آ گئے اور اتنی اپنائیت اور گرمجوشی سے ملے کہ میں شرمندہ سا ہو گیا کیونکہ میں اپنی کم آمیزی کی عادت کے باعث جواباً شاید اتنے وفور کا مظاہرہ نہ کر سکا۔ ان کی سادگی اور بے ساختگی  ہمیشہ کے لیے دل میں گھر کر گئی۔ وہ ایک یادگار ملاقات تھی جو شام سے رات تا دیر جاری رہی، درمیان میں پرتکلف کھانے کا دور بھی چلا جو بشریٰ نے بطورِ خاص عبداللہ صاحب اور میری پسند کا بنوایا تھا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ دورانِ گفتگو وہ خود کو دوسروں پر مسلط نہیں کرتے تھے اور اپنی تعریف اور شہرت کے طالب نہیں ہوتے تھے۔ کھری اور بے لاگ بات کرتے تھے۔ میں نے بہت کم ادیبوں کو اتنا ذی ادراک پایا ہے۔ جب عبداللہ صاحب بہت تھک گئے اور ان کے لیے مزید بیٹھنا مشکل ہو گیا تو یہ محفل برخاست ہوئی اور بشریٰ اور میں انہیں ان کےگھر تک چھوڑنے گئے۔ وہ بمشکل گاڑی سے اترے۔ ان کے لیے کھڑا ہونا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ چنانچہ مین گیٹ سے گھر کے اندرونی دروازے تک میرا ہاتھ تھامے ہوئے گئے حالانکہ عام طور پر انھیں کسی کا سہارا لینا پسند نہیں تھا۔ وہ اپنے بیشتر کام خود کرتے تھے۔ اپنا کھانا خود پکاتے تھے۔ اپنی زندگی کے معمولات اور وقت اور وعدے کے بڑے پابند تھے۔ بشریٰ اعجاز کے ساتھ وہ اپنے ذاتی دکھ سکھ پھولتے رہتے تھے اور وہ باتیں بھی کرتے تھے جو شاید ہی کسی اور سے کی ہوں گی۔ بشریٰ پر ان کے بارے میں ایک مفصل مضمون لکھنا واجب آتا ہے۔

 ہر اچھے مصنف کا ایک بھوت ہوتا ہےجو مصنف سے زیادہ مقبول ہوتا ہے۔ شخصیت کی دکھائی نہ دینے والی شبیہہ بھوت کی طرح مصنف کے ساتھ لگے پھرتی ہے اور دیکھنے اور پڑھنے والوں کا تماشا دیکھتی ہے۔ عبداللہ حسین بھی جتنا نظر آتے تھے اس سے کہیں زیادہ نظر نہیں آتے تھے۔ ہمارے ہاں اچھے مصنف کم ہیں لیکن شہرت اور عظمت کی چڑیلیں زیادہ ہیں جو اکثر لکھاریوں کی روحوں میں حلول کر جاتی ہیں۔ عبداللہ حسین کو ان سے بچنے کا وظیفہ آتا تھا۔ فنی اور تنقیدی حوالوں سے دیکھا جائے توعبداللہ حسین اپنے ناولوں اور کہانیوں میں کرداروں کو زمین پر رینگتے کیڑوں کی طرح پا برہنہ چلاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے پاؤں ٹخنوں تک گھس جاتے ہیں لیکن مٹی انہیں دلاسا نہیں دیتی۔ کردار عہد بہ عہد لنگڑاتے رہیں یا زمانے کے سرکس میں کرتب دکھائیں، اس بارے میں کوئی فیصلہ صادر کیے بغیر وہ خود کہانی سے نکل جاتے ہیں۔ بعض اوقات وہ کرداروں کو اشرافیہ کی طاقت یا دیہاتی کے تہ بند کی طرح کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔ سیمنٹ فیکٹری کی ملازمت سے لندن کے پب اور ڈیفینس لاہور میں بیٹی کے گھر تک لفظوں کی بلا نوشی میں عبداللہ حسین نے ایک ہی بات ثابت کی کہ لکھنے کے لیے زبان نہیں حروفِ ابجد کی کیمسٹری معلوم ہونی چاہیے۔ سیمنٹ سنگ و خشت کو جوڑتا یے، دیواروں، چھتوں اور پلوں کو قائم رکھتا ہے لیکن عبداللہ حسین اپنی کہانیوں میں روحوں سے جسم اتارتے ہیں اور جسموں سے کھال اور پھر کھال کے بال۔۔۔۔ عبداللہ  حسین ہی کیا، ہر اچھے فکشن نگار کو بے رحم ہونا پڑتا ہے۔ یہ بات بیشتر اردو لکھاریوں کو نہیں معلوم ورنہ اب تک کئی اپنے تئیں عبداللہ حسین بن چکے ہوتے۔ کچھ لوگ عبداللہ حسین کو خوامخواہ مذہب سے لاتعلق سمجھتے تھے۔ یہ عبا پوش، عباد اللہ کیا جانیں کہ لفظوں اور کہانیوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ان کی اپنی شریعت، اپنا فقہ ہوتا ہے اور لکھنے والا خود اپنا خدا ہوتا ہے اور قراطیس پر بکھرے ہوئے کردار اس کے عبادت گزار جن کی خاطر وہ زمانے کے سارے خداؤں سے اور کبھی کبھی اپنے آپ سے بھی لڑ جاتا ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments