آپ کی غیرت تو بہت سستی نکلی؟


ایک شہزادی ہوتی تھی، انتہائی خوبصورت، کھلتی رنگت، سرو قد، تراشا ہوا جسم، سنہرے بال، اور یہ بال لمبے نہیں تھے ۔ اس شہزادی نے صدیوں سے چلتے ہوئے فیشن میں یہ دراڑ ڈالی کہ وہ بوائے کٹ ہو گئی۔ اس کے بال چھوٹے تھے ، بہت چھوٹے ، لیکن وہ پھر بھی خوبصورت لگتی تھی۔ وہ بہت شرمیلی تھی، میڈیا کے سامنے بھی بلا ضرورت نہیں آتی تھی۔ اسے موسیقی پسند تھی، وہ ڈانس کرتی تھی، اسے بچوں سے کھیلنا ان میں رہنا، ہنسنا بولنا، سب کچھ بہت پسند تھا۔ وہ سوئٹزر لینڈ سے تعلیم ختم کر کے آئی تو لندن میں بچوں کی ٹیچر بن گئی۔ اس کے ابا کو ارل سپنسر کا خطاب ملا تو وہ بھی لیڈی کہلائی جانے لگی۔

لیڈی ڈیانا کی بدقسمتی تب شروع ہوئی جب سولہ سترہ برس کی عمر میں اس کی ملاقات شہزادے چارلس سے ہوئی۔ چارلس اس سے تیرہ برس بڑا تھا اور چونکہ وہ ولی عہد تھا اس لیے میڈیا کے لیے یہ خبر بہت بڑی تھی۔ کہاں ہر وقت ریزرو رہنے والا ایک گٌھنا سا شہزادہ اور کہاں جدید تراش خراش کے کپڑے پہننے والی، فیشن ایبل خوبصورت جوان لڑکی، وہ لوگ ہر وقت کیمروں کی زد میں رہتے تھے ۔ پھر ان کی شادی ہو گئی۔ یہ شادی بلامبالغہ پچھلی صدی کی سب سے بڑی شادیوں میں سے ایک تھی۔

ان کے دو بچے ہوئے لیکن کوئی بھی شاہی یا نجی مصروفیت لیڈی ڈیانا کو ان تمام فلاحی کاموں سے دور نہ رکھ سکی جو وہ ہمیشہ سے کرتی آئی تھی۔ وہ بے گھر لوگوں کی امداد کرتی تھی، ایڈز کے مریضوں کی فلاح کے لیے کام کرتی اور بہت سے ضرورت مند بچوں کی پڑھائی اور دیگر اخراجات کا بندوبست کرتی۔ وہ بہت سے چیریٹی کے اداروں سے وابستہ تھی۔ وہ ہر وقت عام لوگوں میں رہنا پسند کرتی اور شاہی خاندان اس کی ہر عادت شدید ناپسند کرتا تھا۔ چارلس ویسے ہی شادی کے چار پانچ برس بعد بیوی سے بیگانہ ہو چکا تھا۔ ان کے درمیان سردمہری کی خبریں آئے روز اخباروں میں چھپتیں اور آخر شادی کے بارہ برس بعد ان میں علیحدگی ہو گئی۔

ڈیانا اب بھی اتنی ہی مشہور تھی۔ وہ طلاق کے بعد بس اپنے دونوں بچوں اور فلاحی کاموں کی دنیا میں غرق ہو گئی تھی۔ اب اس نے بارودی سرنگوں کے خلاف ایک مہم چلائی اور پوری دنیا کو اس بات پر قائل کیا کہ جنگوں کے دوران کسی بھی علاقے میں بارودی سرنگیں بچھانا شدید غیر انسانی فعل ہے ۔ وہ جوان تھی، خوبصورت تھی، طلاق کے بعد اس کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بہت سی خبریں سامنے آئیں اور انہیں خبروں کا تسلسل اس کی جان لے گیا۔ مغرب میں غیرت پر کیا جانے والا سب سے مشہور قتل ڈیانا کا تھا۔ اس کی موت ایک سازش تھی یا حادثہ، ہر دو صورتوں میں ڈیانا کا واحد قصور یہ تھا کہ وہ شاہی خاندان سے وابستہ رہ چکی تھی اور آزادی کے بعد بھی درحقیقت آزاد نہیں تھی۔

یکم جولائی اس کا یوم پیدائش تھا۔ یکم جولائی کو ہی ایک اور شہزادی غیرت کے نام پر وطن عزیز میں قتل ہوئی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ ایسی خبریں اس قدر تسلسل کے ساتھ آتی ہیں کہ ان پر لکھنا تو کجا انہیں پڑھنا بھی کوئی پسند نہیں کرتا، ایسے ہی سرسری سی نظر ڈال کر سب گزر جاتے ہیں۔ اپنے ماں باپ کی وہ شہزادی ہنجروال میں قتل ہوئی اور غیرت مند شہزادے بھائی نے اینٹیں مار مار کر اسے ہلاک کرنے کا مقدس کام سرانجام دیا۔ سوال یہ ہے کہ غیرت کس چیز کا نام ہے ؟ معاشرتی روایات غیرت ہیں، مردانہ بالادستی غیرت ہے یا دنیا کی آدھی آبادی، عورت، پوری کی پوری باقی مردانہ آبادی کی غیرت کا سبب ہے ؟ یہ کیسی غیرت ہے جو اس وقت تو نہیں جاگتی جب بیٹا یا بھائی کوئی ایسا کام کرے بلکہ گلی کے کونوں پر اور شاپنگ مالز میں گزرتی عورتوں کا جینا حرام کر دے ، جاگے گی تو پرائی عورت کو کرکٹ میچ کھیلتے دیکھ کر بھی جاگ جائے گی۔ آج تک کتنے مرد ہم نے دیکھے ہوں گے جنہیں کسی غلط کام کرنے کے نتیجے میں ماں، بہن، بیٹی یا بیوی نے تیزاب سے جلایا ہو، اینٹیں مار کر قتل کیا ہو، سر میں گولی مار دی ہو، چاقو چھری پیٹ میں گھونپ دئیے ہوں یا زندہ ہی آگ لگا دی ہو، کتنے کیس آج تک ایسے سامنے آئے ہیں؟

اصل میں اگر ریاضی والے فارمولے لگائے جائیں تو جیسے ن م راشد لا مساوی انسان (انسان لا کے برابر ہے ، یعنی انسان کچھ نہیں ہے ، اس کی اہمیت نہ ہونے کے برابر ہے ) کہتے تھے ویسے اب غیرت مساوی عورت ایک کلیہ بن چکا ہے بلکہ اگر انسان اور غیرت کو عام میتھمیٹیکل ٹرمز پر حل کیا جائے تو لا مساوی عورت ایک نئی ایکوئیشن بنتی ہے ۔ لا = عورت۔ یہ مساوات ٹھیک ٹھیک ہمارے معاشرے پر فٹ ہوتی ہے ۔ نہ عورت ہو گی نہ غیرت جاگے گی۔ پرانے عرب معاشرے میں بھی یہ رولا اتنا زیادہ تھا کہ بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا، آج ہمارے یہاں بس اتنا فرق ہے کہ پیدا ہوتے ساتھ نہیں گاڑتے جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے ویسے ویسے مٹی ڈالتے رہتے ہیں، یا مرضی کی شادی اور یا پھر وہی غیرت وغیرہ کے چکر میں جوان لڑکی دفنا دی جاتی ہے ۔ ہر سال پاکستان میں ہزار بارہ سو عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔ قتل کرنے والے بھائی، باپ یا شوہر ہوتے ہیں جنہیں باقی وارثوں سے معافی مل جاتی ہے اللہ اللہ خیر سلا۔ کبھی ان کیسوں کی فائل اٹھا کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اصل میں پیچھے کبھی جائیداد کے معاملے تھے ، کبھی کوئی خاندانی تنازعہ تھا، کبھی لڑکی اپنی مرضی کی شادی کرنا چاہ رہی تھی، کبھی وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی، کبھی اسے اپنی مرضی کے کپڑے پہننے پر اصرار تھا، اور کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جرم مرد کرتا ہے ، پنجایت عورت کو ونی کر دیتی ہے ، بعد میں پھنسے تو پھر سے یا غیرت تیرا آسرا۔

موت برحق ہے ، زندگی موت کی امانت ہے لیکن یہ فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے کہ کسی جیتے جاگتے انسان کی زندگی کب تک ہے ۔ اگر یہ فیصلے زمین پر ہونے ہیں اور غیرت کے نام پر اس بے غیرتی سے ہونے ہیں تو خدا معاف کرے پھر کسی کے عورت ہو کر زندہ رہنے کا جواز کیا رہ جاتا ہے ۔ اگر عورت کو انسان سمجھا جائے تو ہر انسان کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ غیرت کھانے یا جوش میں آنے کے لیے اور بہت سے معاملات ملکی و قومی سطح پر وافر اویلیبل ہیں، سرفہرست ان میں دہشت گردی اور اقلیتوں کے مسائل ہیں، بسم اللہ کیجیے ، اپنی توانائیاں وہاں استعمال کیجیے ، عورت تو بے چاری پہلے ہی پسی ہوئی ہے اسے جان سے مار کر کیا حاصل ہو جائے گا؟

  بشکریہ روزنامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain