حیوان صفت نوجوانوں کا خاتون سیاح کے ساتھ شرمناک سلوک


کچھ دن پہلے ایک دوست کے توسط سے معلوم ہوا کہ ایک نجی ادارے کی انتظامی عہدے پر براجماں شخص ادارے کی ایک ملازمہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ملازمہ نے ایک حد تک یہ ستم ظریفی برداشت کی مگر وہ صاحب جب اخلاقیات کی تمام حدیں پار کر کے انسانیت سے حیوانیت کا روپ دھارنے لگا تو خاتون نے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک وکیل سے مشاروت کے لئے رابطہ کیا۔ وکیل نے ملازمہ کی پردہ داری اور اسے قانونی پیچدگیوں سے نجات دلانے کی خاطر معاملہ ادارے کی اعلیٰ انتظامیہ کے نوٹس میں لایا۔ اس کے بعد کی کارروائی کا وکیل صاحب کو بھی کوئی علم نہیں۔

اس سے کچھ عرصہ قبل ایک اور ادارے میں ملازمت پیشہ خاتون کی کہانی کا علم ہوا۔ کہانی یوں تھی کہ ایک نامعلوم موٹر سائیکل سوار ہر صبح گھر سے دفتر جانے کے راستے خاتون کا تعاقب کر رہا تھا۔ کبھی وہ خاتون کو موٹر سائیکل پر لفٹ دینے پر اصرار کرتا تو کبھی اُلٹے سیدھے کومنٹس پاس کر کے آگے نکل جاتا۔ خاتون نے شرم کے مارے کچھ دن تک اس عمل کو پوشدہ رکھا لیکن معاملہ جب برداشت سے گزر گیا تو انہوں نے اپنے شوہر کو صورتحال سے اگاہ کیا۔ میاں نے معاملے کی نوعیت جاننے کی غرض سے بیوی کو وین سٹاپ پر ڈراپ دینا شروع کر دیا۔ دیکھا تو واقعی میں اس شخص کی حرکات مشکوک تھیں۔ ردعمل کے طور پر میاں نے ایک دو بار اس شخص کو ایسا گھورا کہ اس کے بعد اس میں کسی اجنبی خاتون کا بلاوجہ تعاقب کرنے کی مجال ہی نہیں رہی۔

ایک اور دوست کا سنایا ہو ا پرانا سا قصہ یاد آیا۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل لڑکی کو کسی نجی کمپنی میں ملازمت اختیار کیے ہوئے ابھی چند دن گزر گئے تھے کہ ایک روز کمپنی کے باس نے اسے اپنے ساتھ فیلڈ پر جانے کے احکامات صادرکیے۔ لڑکی چھٹی تک منکر رہی کہ کسی اجنبی شخص کے ساتھ شہر سے دور جانے کے لئے اس کے گھر کی طرف سے اجازت نہیں مگر باس کو یہ بہانہ کسی قیمت پر منظور نہ تھا۔

چھٹی کے بعد لڑکی جب گھر پہنچی تو پیچھے سے باس کی طرف سے ایس ایم ایس کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ لڑکی نے باس کے کسی میسیج کا جواب نہ دیا اور اس پریشانی میں رات گزاری کہ صبح دفتر جا کر باس کو کیا جواب دیا جائے۔ دیکھا تو باس صبح سویرے منہ اٹھا کر لڑکی کے گھر پر حاضر ہوا۔ دروازے پر دستک دے کر لڑکی کو باہر بلوایا اور فوری طور پر اپنے ساتھ فیلڈ پر جانے کی تیاری پر اصرار کیا۔

باس کی اس مکرو حرکت پر لڑکی کا پارہ چڑ گیا۔ شیر کی بچی نے اپنا استعفیٰ نامہ باس کے منہ پر دے مارا اور لعنت بھیج کر واپس کر دیا۔

گزشتہ برس ہوٹل میں منعقدہ کسی تقریب میں خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم ایک عورت نے میری آنکھوں کے سامنے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے چند ارکان کو یہ کہتے ہوئے آڑے ہاتھوں لے لیا کہ شہر سے ایک شادی شدہ خاتون کو اغواء ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا مگر کوئی ٹس سے مس نہیں۔

چند سال قبل گلگت کے علاقے جوٹیال میں ایک راہ چلتی دوشیزہ کو نامعلوم افراد نے زبردستی اٹھا کر کار میں ڈالنے کی کوشش کی۔ لڑکی کی چیخ و پکار سن کر آس پاس سے لڑکے آں پہنچے تو درندے ناکامی سے موقع سے فرار ہو گئے۔ لڑکی یتیم تھی اور اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں جارہی تھی۔ واقعہ کی اطلاع ملنے پر لڑکی کے آبائی گاؤں سے تعلق رکھنے والے کچھ نوجوانوں نے اسے قریب کسی یتیم خانہ نما ہاسٹل پہنچا دیا جہاں پر اسے سکھ کا سانس نصیب ہوا۔

گزشتہ عید پر گلگت میں خودکشی کرنے والی خاتون کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر غم و غصے کا اظہار کیا تو ایک عورت نے میرے مضمون پر تاثرات میں لکھا : ’ مر د تو عورتوں کے ساتھ کیا کیا نہیں کرتے، بڑا جلدی خیال آیا‘۔

کل رات یوٹیوب پر شینا زبان کے معروف شاعر محترم ظفر وقار تاج صاحب کے دل کو چھونے والے گانوں پر مشتمل نئی البم سے لطف اندوز ہونا چاہا تو ٹویٹر پر حیوان صفت نوجوانوں کی اذیت میں مبتلا اسلام آباد کی ایک خاتون سیاح کی کہانی گردش میں نظر آئی۔

مینا طارق نام کی خاتون کے بقول پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع خنجراب بارڈر پر غالباً لاہور سے تعلق رکھنے والے اوباش لڑکوں کے ایک ٹولے نے انہیں خوب ہراساں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان لڑکوں نے اس کا تعاقب کرتے ہوئے اپنے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں۔ مزاہمت کرنے پر یہ کہتے ہوئے تسلیاں دیتے رہے ’’ لے لے ایک تصویر۔ اچھا فِیل کرے گی‘‘۔ اوپر سے پھر دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ وہ ان کے خلاف کچھ نہیں کرسکتی۔

مینا لکھتی ہیں کہ خنجراب کے مقام پر سیاحوں کی ایک کثیر تعداد کی موجودگی کے باوجود انہیں ان خوفناک انسانوں سے بہت ڈر لگ رہا تھا کیونکہ اس کا شوہر اسے روڈ پر چھوڑ کر خود ہائیکنگ کے لئے گلیشیر پر گئے تھے۔ جنہیں نہ وہ دیکھ پا سکتی تھی نہ ان سے موبائل پر رابطہ ممکن تھا۔ مینا پریشانی کے عالم میں کسی طرح ان لڑکوں سے جان چھڑانا چاہ رہی تھی۔ اس نے لڑکوں کے چنگل سے آزاد ہو کر قریب واقع آرمی کی چیک پوسٹ پر واقعہ رپورٹ کرنا چاہا مگر وہ اس کے راستے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ وہ اسے اپنی جانب متواجہ کرنے کے لئے گانے بجا کر ناچ رہے تھے اور ’’ لاہور لاہور ہے ‘‘ کے نعرے بھی لگا ر ہے تھے۔ یہ حیوان صفت نوجوان غالباً لاہور سے تعلق رکھتے تھے۔

مینا کا کہنا ہے ’’ میں ان کے کلاس میٹس، پروفیسرز، دوست اور گھر والوں کو اگاہ کرنا چاہتی ہوں کہ ان کے ہاں آخر کس طرح کے انسان ہیں‘‘۔ اسی لئے انہوں نے ثبوت کے طور پر ان کی تصویر لی۔ وہ کہتی ہے کہ خنجراب کی سرحد پر بہت سارے مرد کھلے عام خواتین کی تصاویر لے رہے تھے اور ویڈیوز بھی بنا رہے تھے جو کہ انٹرنیٹ پر بھری پڑی ہیں۔

گلگت بلتستان کی گمنام پہاڑیوں میں جنسی ہوس کے بھوکے درندوں کی کوئی کمی نہیں۔ آئے روز کسی نہ کسی کونے سے ہوس کے پُجاریوں کے ہاتھوں بنت ِ ہوا کی عزتوں کو تار تار کرنے کی خبریں نظروں سے گزرتی ہیں مگر حاکم وقت ان خبروں کا سنجیدگی سے نوٹس لینے سے گریزاں ہے۔

ایک زمانہ تھا جب ایک عورت دادی جواری کے روپ میں اسی گلگت پر راج کیا کرتی تھی جہاں آج اس کی بیٹیاں معاشرتی درندوں سے اپنی عزتیں محفوظ کرنے کی خاطر کن انگنت مسائل سے دوچار ہیں۔ کیا یہ ہم سب کے لئے ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟

پہاڑی علاقے تو درندوں کا مسکن ہو سکتے ہیں لیکن سوچا تھا لاہور جیسا کھلا کشادہ شہر اور تہذیبوں کی دنیا کے باسی اس طرح کی حرکتوں سے مبرا ہوں گے۔ جہاں کے حکمران بھی تو شریف زادہ ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ وہاں کے ایسے نام نہاد شریفوں سے یہاں کے درندے تو لاکھ درجہ بہتر ہیں۔

گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے گرمیوں کے موسم میں علاقے کا رخ کرنے والے سیاحوں کی سہولت کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے جو کہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ ہونا بھی یہی چاہیے کیونکہ سیاحوں کو سہولیات بہم پہنچانا حکومت وقت کا اہم فریضہ اور علاقائی روایات کا تقاضا بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاحوں کے ساتھ اس طرح کی حرکتوں کے مرتکیب افراد پر بھی حکومت کی کوئی نظر ہے؟ خاص طور پر خواتین سیاحوں کے لئے۔ کیا حکومت کے پاس عمومی طور پر معاشرے میں خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی حکمت عملی ہے؟ اگر ہے تو وہ کب کام آئے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).