آخر ہم پاکستانی گندگی کے شوقین کیوں ہیں؟


کیا ہی کمال کی جگہ ہے دور افتادہ پہاڑوں میں بسا دومیل۔ پہاڑوں میں گھری اس کی رینبو جھیل کا پانی اتنا شفاف ہے کہ آپ اس کی تہہ میں پڑی کوئی چیز بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اس میں تیرتی ہوئی مچھلیاں، پتھر، پودے حتی کہ اس کی تہہ میں پڑا ہو ٹین کا وہ خالی ڈبہ بھی صاف دکھائی دے رہا تھا جو کوئی سیاح استعمال کرنے کے بعد اس میں پھینک گیا تھا۔ اسے لانے والا اسے کسی مناسب جگہ ٹھکانے لگا سکتا تھا۔ اسے اپنی گاڑی میں واپس بھی لے جا سکتا تھا اور کسی کوڑے دان میں ڈال سکتا تھا۔ مگر ساکن پانی میں شڑپ کر کے ڈبہ پھینکنے کا مزا کوئی کیوں نہ لے؟

ہم خوبصورت جہانوں کی تلاش میں نکلتے ہیں اور جب وہاں پہنچ جاتے ہیں تو انہیں اس قابل نہیں چھوڑتے کہ کوئی انہیں خوبصورت کہہ پائے۔ بہترین مناظر سے گھر علاقے میں ہم کوڑے کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں۔ شہر میں بھی جب ہم اپنی گاڑی میں نکلتے ہیں تو چپس کے خالی پیکٹ اور مشروب کی خالی بوتلیں سڑک پر اچھال دیتے ہیں حالانکہ ان کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا نہایت آسان ہے۔ ہمیں بس چند لمحے صبر کرنا ہو گا اور کسی کوڑے دان میں یا اپنے گھر لے جا کر باقی کوڑے کے ساتھ اسے ٹھکانے لا سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم گندگی کو پسند کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گرد و نواح گندے ہوں۔

کاغذ کے لفافے اور اس طرح کی چیزیں چند دنوں میں مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتے ہیں مگر کوڑے کو ٹھکانے لگائے گئے گڑھوں (لینڈ فل) میں پلاسٹک کی اشیا کو اس عمل میں ایک ہزار برس تک لگ سکتے ہیں۔ پلاسٹک کے لفافے مٹی بننے میں 10 سے 1000 برس لیتے ہیں۔ پلاسٹک کی بوتل کو خاک ہونے میں 450 برس درکار ہوتے ہیں۔ بچوں کے ڈائپر کو 250 سے 500 برس چاہیے ہوتے ہیں اور سینیٹری نیپکن کو 500 سے 800 برس۔ المونیم کا کین 80 سے 200 برس لیتا ہے۔ شیشے کو خاک ہونے کے لئے کئی ملین برس درکار ہوتے ہیں اور کئی اندازوں کے مطابق یہ کبھی بھی مٹی نہیں ہو سکتا۔ سگریٹ کے فلٹر والے حصے کو مٹی میں ملنے میں 10 برس لگتے ہیں، ربڑ سے جوتوں کے تلے کو 50 سے 80 برس، فوم کے ڈسپوزیبل پلاسٹک کپ کو 50 برس، دودھ کے ڈبوں کو 5 برس، بیٹریوں کو 100 برس کی مدت لگتی ہے۔ ٹن فوائل بائیو ڈی گریڈ نہیں ہوتی اور مٹی میں شامل نہیں ہوتی۔ پیٹرول کی بنی اشیا، جن میں پلاسٹک بھی شامل ہے، کبھی بھی مکمل طور پر بائیو ڈی گریڈ نہیں ہوتی ہیں۔

جبکہ کاغذ کو خاک ہونے میں محض 2 سے 6 ہفتے لگتے ہیں۔

آئندہ پلاسٹک کی کوئی شے ادھر ادھر پھینکنے سے پہلے آپ یہ ضرور سوچ لیں کہ آپ کا پھِیلایا ہوا یہ گند آئندہ آنے والی پچاس نسلوں یا زیادہ کو آپ کی ناخوشگوار یاد دلاتا رہے گا۔ اپنی گاڑی یا گھر کی کھڑکی سے کوئی چیز باہر اچھالنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ ہم اپنی اس خوشگوار جنت کو کیوں جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہیں؟

جبکہ اگر ہم موزوں طریقے سے ان چیزوں کو کوڑے دان میں پھینکیں تو یہ دوبارہ استعمال میں لائی جا سکتی ہیں۔ کاغذ کا دوبارہ کاغذ بنایا جا سکتا ہے، پلاسٹک کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے، ٹین یا المونیم کے کین بھی دوبارہ ڈھال کر استعمال کیے جا سکتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر اس شیشے کو دوبارہ استعمال میں لانا ممکن ہے جو کہ شاید کبھی بھی مٹی میں نہیں ملے گا۔

اس معاملے میں ہماری حکومت بھی برابر کی قصور وار ہے۔ اس کی پہلی نااہلی تو یہ ہے کہ وہ نصاب میں بچوں کو بنیادی اخلاقیات اور شہری ذمہ داریوں کی تعلیم نہیں دیتی ہے۔ کیا بچوں کو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کوڑے کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے اور اس کو ادھر ادھر پھینکنے کے کیا کیا نقصانات ہیں؟ اس کی دوسری نااہلی یہ ہے کہ اگر کسی فرد کو علم بھی ہو کہ کوڑے کو ذمہ داری سے کوڑے دان میں پھینکنا چاہیے، تو وہ پھر بھی ایسا کرنے میں دشواری محسوس کر سکتا ہے کیونکہ ہماری شہری حکومتیں کوڑے دان ہی نصب نہیں کرتی ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت بچوں اور بڑوں کو کوڑے کے متعلق تعلیم دے، اور ہر جگہ کوڑا پھینکنے والوں کو جرمانہ کرے؟

گزشتہ ماہ ہم گلگت بلتستان کے دور افتادہ دیوسائی کے میدان میں گئے۔ بخدا دل خوش ہو گیا۔ اس ویرانے میں جہاں گولڈن مارمٹ نامی لدھڑ نما جانور اور چند مبینہ ریچھوں کے سوا کسی حیوان کو تلاش کرنا مشکل ہے، سکردو کی ضلعی اور انتظامیہ دیوسائی نیشنل پارک کی انتظامیہ کی جانب سے باقاعدہ کوڑے دان نصب ہیں۔ دیوسائی کے ویرانے میں نصب یہ کوڑے دان دیکھ کر لاہور، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کے حکومتی اداروں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے۔ ایک خوبصورت علاقے کو صاف رکھنے کے اس بہترین منصوبے پر گلگت بلتستان کی حکومت کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar