ننگے گوشت پر ۔۔ کتوں کی عید ملن!


یاران جہاں فیس بک خنجراب ٹاپ پر ہراساں کی گئی خاتون کی فیس بک پروفائل ڈھونڈتے ہوئے جب منزل پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ تو ایک جدید وضع قطع کی ایک خاتون ہیں ۔ دلیل لانے میں مشکل پیش کیا آنی تھی ، اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں سانس لینے والے دلیل لائے کہ ۔۔ننگے گوشت پر کتے تو آئیں گے۔ دوسری برہان قاطع دلیل یہ آئی کہ ایک اکیلی لڑکی کسی محرم کے بغیر جائے تو ایسا تو ہو گا۔

جہاں ان دلائل نے بہت سارے مغالطے دور کیے وہاں پاکستان کے آئین پر کئی سوال کھڑے کر دیے۔ آئین میں کیسا کیسا سقم ہے ذرا دیکھئے کہ آئین میں جا بجا “فرد کی آزادی” فرد کے حقوق” “فرد کی ذمہ داریاں” لکھا ہے آپ چاہے تو فرد کی جگہ شہری لگا لیں لیکن سقم پھر بھی بدستور قائم ہے۔

آئین میں آخر فرد سے کیا مراد ہے؟ فرد یا شہری لفظ کی شرح میں کئی وضاحتیں درج ہیں لیکن کسی جگہ گوشت اور کتے یا ننگے اور ڈھانپے کی تقسیم نظر نہیں آتی۔ اس سے نقصان یہ ہوا کہ مغالطوں نے جنم لیا اور عوام اپنے ہی بنائے آئین سے کوسوں دور جا کھڑے ہوئے ۔ اس آئین میں ایک عجب اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔

اگر یہی آئین گوشت اور کتوں کی تقسیم کو مد نظر رکھ حقوق و ذمہ داریوں کی تقسیم کرتا تو آج یہ معاشرہ دنیا بھر کے لیے مثالی معاشرہ ہوتا ۔ آئین بتاتا کہ گوشت کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور کتوں کے حقوق کیا ہیں۔ کب اور کن مواقع پر گوشت کو بھنبوڑ کھانے پر کتوں کو بھرپور آئینی تحفظ حاصل ہو گا اور گوشت کو شکایت کا سرے سے کوئی حق حاصل نہیں ہو گا۔

بڑے بڑے دلچسپ پیرا ڈاکسز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذرا اس پیرا ڈاکس کو لیجئے۔۔

میری بہن بیٹی اور ماں دنیا کی مقدس ہستیاں ہیں۔اس تقدس کا دائرہ میں زیادہ سے زیادہ قریبی رشتہ دار خواتین تک بڑھا سکتا ہوں۔ اب ذرا پاکستان کی فضا میں پرواز کر کے 100 کلومیٹر اوپر فضا سے اپنے معاشرے کو دیکھئے جہاں ہر فرد کے نزدیک دائرہ قابل عزت واحترام خواتین بہت محدود ہے۔ ایسے لاکھوں دائرے اپنے دائرے کو چھوڑ کر دوسرے دائروں کو غضب نظروں سے دیکھنے میں کوئی احساس جرم محسوس نہیں کرتے۔اگر کوئی دوسرے دائرے کا فرد میرے دائرہ تقدس میں آئی خواتین کو دیکھے گا تو آنکھیں نکال دوں۔

سماج میں اکائیوں نے اپنی منفعت کے لیے ایسے فقرے تراش کر کہ “دوست کی عزت بھی اپنی عزت اور دوست کی بہن بھی اپنی بہن” کچھ دائروں کی ہئیت کو کسی قدر فربہ کر دیا ہے لیکن 100 کلومیٹر دور سے وہ بھی ننھے منے دائرے ہی ہیں۔

اب یہ ایک ایسا پیرا ڈاکس ہے کہ آپ حل کرنے نکلیں گے تو حل نہیں ملے گا ۔ الجھتے چلیں جائیں گے۔ ایسے پیراڈاکسز کے حل کے طور پر آئین وضح ہوئے ۔ آئین کے دائرے کی وسعت نے کسی قدر معاشرے میں تحفظ کا احساس پیدا کیا۔

یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ پسماندہ معاشروں میں محدود ثقافتی پس منظر پر بنیاد بنانے والی سطحی اخلاقیات اس قدر مقبول کیوں ہوتی ہیں۔ آپ کو ایسے پیراڈاکسز پسماندہ اور قبائلی طرز کی نفسیات میں ہی کیوں ملتے ہیں۔

آپ ایک نفسیات کا تجربہ کیجئے۔

پیرا مڈ سکیم” یا اہرام طرز کا دھوکہ ۔۔سے آپ کافی حد تک واقف ہی ہوں گے۔ ڈبل شاہ ہمارے ہاں اس کی ایک درخشندہ مثال ہے۔ آپ اس طرز کے دھوکے پر مبنی کوئی بھی دھوکہ مارکیٹ میں لائیے۔۔اس حوالے سے تیاری کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ سے ایسے سوالات پوچھیں جائیں گے جیسے ۔۔جب میں پانچ افراد آپ کو دوں گا اور وہ پانچ افراد پچیس افراد آپ کو دیں گے اور وہ پچیس مزید۔۔۔۔۔۔ تو میں تو اہرام کے ٹاپ یا مڈل میں آنے کی وجہ سے فائدے میں رہوں گا لیکن اہرام کی بنیاد کا کیا ہو گا؟

دنیا کی آبادی محدود ہے توضیحی انداز سے بڑھوتری کے بعد کہیں تو یہ بلبلہ پھٹے گا ۔۔تو دھوکے کے اس اہرام کی بنیادوں کے ساتھ کیے جانے والے دھوکے سے مجھے منافع ہو گا ۔۔تو یہ تو فراڈ ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ

نہیں صاحب یہ آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کو صرف ایک چیلنج درپیش ہے اور وہ ہے اعتماد کا حصول ۔۔۔کچھ سرمایہ کاری کیجئے ۔۔کچھ لوگوں کو پیسے ڈبل کر کے دیجئے ۔۔ لینے دینے کا ایک خاص سائیکل پیدا کیجئے اور پھر تماشا دیکھئے ۔۔ آپ پر قانون کی گرفت کرنے والے آپ کے پاس خود گاہک بن کر آئیں گے ۔۔

اب یہ بحث کرتے رہیے کہ معاشرے کی مجموعی دانش کو اس سطح پر کون لایا۔اوسط سے بھی نچلی سطح کی دانش جو اپنے آپ کو اوتار مخلوق سمجھتی ہے اور اپنے اوپر تنقید کو ہتک عزت و باعث غیرت سمجھتی ہے ۔ ایسی مخلوق اگر یہ کہے کہ عورت ایک گوشت ہے ۔۔اور گوشت ننگا ہو تو کتے تو آئیں گے۔۔ایسے بیانات پر حیرانگی کیسی؟ مزے کی بات یہ کہ کوئی ایسا نہیں پوچھتا کہ کہ کیلا ننگا ہو گا تو مکھیاں کیوں نہیبں آئیں گی۔

گاؤں کی مسجد میں اعلان ہوں کہ میلاد کا جلوس گلیوں سے گزرے گا ، کوئی خاتون چھتوں پر بیٹھ کر جلوس نہ دیکھے۔۔اس اعلان کی وجہ اسی طبقے کے ایک فرد سے پوچھی تو جواب ملا ، دل خراب ہوتا ہے۔۔۔دل خراب ہوتا ہے جنس کے حوالے سےایک مقامی محاورہ ہے جو جنسی خواہش کے بیدار ہونے کی بعد جسمانی تبدیلیوں یعنی ایستادگی کا نام ہے۔۔۔

اسی معاشرے کی شہری (عورت) جو فقط جنسی اعضا کی وجہ سے اتنی ہی مختلف ہے جتنا آپ (مرد) اس شہری کے لیے مختلف ہیں۔ لیکن ذرا تصور کیجئے کہ جنس کی ایک قسم دوسری قسم کے بارے میں کیسی رائے رکھتی ہے۔ جبکہ جنس کی یہ معترض قسم دوسری جنس کے جسم میں 9 ماہ مہمان رہی ہے۔

اجی چھوڑیئے ، یہ بے کار کی بحث ہے۔ آئیے، ننگے گوشت پر کتوں کی عید ملن پارٹی پر چلتے ہیں 

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik