کیا مرد اور عورت محض دوست ہو سکتے ہیں؟


اس موضوع پر بے تحاشا تحقیق ہوئی، بہت سی کتابیں لکھی گئیں اور بے شمار فلمیں بنیں۔ گوروں نے بھی اکثر یہ نتیجہ نکالا کہ ایک حد سے زیادہ قربت کی دوستی جو کہ ایک گروپ نہیں بلکہ صرف ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہی ہو، رومانوی انجام پر ہی اختتام پزیر ہوتی ہے۔ مگر کیا ہر لڑکا اور لڑکی جو آپس میں اچھے طریقے سے بات کرتے اور پیش آتے ہیں کیا ان میں لازمی طور پر ایک رومانوی کشش یا تعلق ہی ہوتا ہے؟ مجھے علم ہے کہ مجھے زیادہ تر تو یہی جواب ملے گا کہ آپ بطور خاتون مردوں کے ذہن سے واقف نہیں، وہ تو بس خواتین کے بارے میں ایک ہی سوچ اور ایک ہی نظریہ رکھتے ہیں۔ مگر میں جن انتہائی مہذب اور شائستہ مرد حضرات سے میں حقیقی طور سے واقف ہوں، جو میرے قریبی رشتوں میں ہیں اور میں یقینی طور پر اس بات سے واقف ہوں کہ وہ دیگر خواتین کے ساتھ واقعی ہی میں ایک تندرست دوستانہ رویہ روا رکھتے ہیں، تو کیا شائستگی اور تہذیب کا یہ پیمانہ دیگر مردوں میں پایا جانا ممکن نہیں ہے کیا؟

میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں مگر جس سکول میں جاتے ہیں وہاں لڑکے اور لڑکی کی کچھ زیادہ تخصیص کی نہیں جاتی۔ چودہ پندرہ سال کی لڑکیاں بھی مٹی کے بھرے جوتوں اور کپڑوں کے ساتھ لڑکوں کے ساتھ برابر میں ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ اور کھیل کر رہی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اکٹھے بھاگنے دوڑنے کے باوجود ان میں صنفی تفریق تو برقرار رہتی ہے مگر اس تفریق کو ابھی تک انہوں نے یا ان کےاساتذہ نے ان کے ذہنوں پر حاوی نہیں کیا۔

جب میں یونیورسٹی میں پڑھتی تھی تو میرے شعبہ میں بھی بہت زیادہ پابندیاں نہیں تھیں، لاہور شہر ویسے بھی ایک ذہنی کشادگی لئے ہوئے ہے۔ خیر، کبھی ہم لڑکے لڑکیاں پٹھورے اور چنے منگواتے تو کبھی سموسےاور ایک ہی شاپر میں چھے سات کلاس فیلو بنا تخصیص صنف کے مل کر کھا لیتے۔ یہ نہیں تھا کہ کسی لڑکے کو کسی لڑکی میں کشش محسوس نہیں تھی، دو چار جوڑے بھی بنے جن میں سے کچھ ٹوٹ گئے اور کچھ بیاہ کر اب اس وقت کو پچھتاتے ہیں، مگر جو لوگ جوڑے نہیں تھے اور بس دوست تھے وہ واقعی ہی میں بس دوست ہی تھے۔ فارغ وقت میں ڈرائینگ بورڈ بجا کر ساری جماعت مل کر گانے بھی گا لیتی تھی اور ہمارا ماڈل جو صرف ایک لنگوٹ باندھ کر بیٹھا ہوتا تھا اسے بھی مرد سمجھے بغیر محض انسان سمجھ کر اسکی خاکہ کشی بھی کر لیتے تھے ہم۔ سب آزادی کے ساتھ بھی بیشتر ذہنوں میں غلاظت نہیں تھی۔ یہی چیز میں نے ایک پرانا پی ٹی وی کا ڈرامہ دیکھتے ہوئے محسوس کی جس میں دو پڑوسی لڑکا لڑکی جو ساتھ پلے بڑھے وہ بنا کسی کشش کے بس مخلص دوست ہی رہے۔ پرانے زمانے میں میڈیا بہت زیادہ ذہنی کشادگی کی منظر کشی کرتا تھا۔ میری امی بھی ستر کی دہائی کی بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ بیٹا اس زمانے میں بنا آستین کا لباس تو عام تھا مگر دیکھنے والوں کی نظریں ایسی نہ تھیں۔ سب کو علم ہے کہ دیکھنے والوں کی نظریں کس دہائی میں بدلیں۔

میرے نزدیک تو دوستی بہت سی انواع کی ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں سے ہمیں بات کرنے پر معلومات ملتی ہیں، کچھ لوگوں سے ہمیں اپنی ذات کے بارے میں حوصلہ افزائی اور اپنے نظریات کی توثیق ملتی ہے، کچھ لوگ صرف ہنساتے ہیں اور کچھ سے صرف ایک عزت اور احترام کا رشتہ ہوتا ہے اور ان تمام رشتوں کو ایک بڑے پیمانے سے دیکھا جائے تو بس دوستی کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔ چاہے یہ دوستی دفتر میں ہو، تعلیمی ادارے میں، یا خاندان میں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان تمام طرح کے رشتوں یا دوستی کے لئے صنف کی کوئی قید نہیں۔ مسئلہ شاید وہاں شروع ہوتا ہے جہاں یا تو جذباتی تعلق اور توقع کو ایک حد سے زیادہ بڑھایا جائے اور یا پھر ذہنوں میں گھٹن اس حد تک بڑھ چکی ہو کہ ذہن بس کیلے، چلغوزے اور ٹافی تک محدود ہو جائے۔

حدیں تو آپ کو ہر انسانی رشتے میں مقرر کرنا پڑتی ہیں۔ صرف خواتین بھی ایک دوسرے سے نہ تو ہر موضوع پر کھل عام گفتگو کر لیتی ہیں اور نہ ہی مرد حضرات دوسرے حضرات کے ساتھ اپنے تمام ذاتی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ تو ہر شخص اور ہر رشتے کے ساتھ ہم اس رشتے کے تقاضوں کے ساتھ چلتے ہیں اور چل سکتے ہیں۔

میرے دو دوست تھے، جن کی آپس میں بہت دوستی تھی، ان میں سے ایک لڑکا تھا ور ایک لڑکی۔ وہ مل جل کر شاپنگ پر بھی چلے جاتے اور اگر کسی کا دفتر میں کوئی انٹرویو ہوتا تو لڑکی ڈرائیو کر کے اسے وہاں لے جاتی۔ دونوں ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے، بات بھی سنتے تھے مگر انہیں ایک دوسرے سے محبت نہیں تھی۔ وہ لڑکا بھی کسی اور سے ہی شادی کرنا چاہتا تھا اور لڑکی نے بھی کسی اور سے ہی شادی کی۔ انہیں اکٹھا دیکھ کر بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا کہ تم دونوں ہی شادی کر لو تو ان کو بہت غصہ آتا کہ آخر کسی بھی تعلق کا اختتام لوگوں کے نزدیک ایک ہی کیوں ہوتا ہے۔ وہ ابھی بھی بہت اچھے دوست ہیں۔ میں نے لڑکی سے پوچھا کہ تمہارے میاں کو تمہاری دوستی پر اعتراض نہیں تو کہنے لگی کہ ہماری کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں۔ میرے میاں کو میں نے اس سے ملا دیا تھا کہ یہ میرا دوست ہے اور اب وہ جب بھی ملتا ہے میرے میاں کی موجودگی میں ہی ملتا ہے یا میں خود اپنے میں کو اس کے فون وغیرہ کا بتا دیتی ہوں۔ ہم اب ساتھ میں زیادہ گھومتے نہیں کیونکہ میرے حالات کی نوعیت بدل گئی ہے، مگر اس میں کسی شک یا شبہے کا ہاتھ نہیں، مجھے یہ علم ہے کہ حالات کے ساتھ رشتوں کو دیا جانے والا وقت اور نوعیت کچھ بدل جاتے ہیں۔ کیا کوئی بھی پڑھنے والا اس بات پر یقین کرے گا کہ یہ دوستی اتنی ہی سادہ، بے ریا اور صاف دل تھی اور ہے؟ میرے نزدیک تو میری دوست اور اس کے میاں کا رشتہ مثالی ہے۔

میں ذاتی طور پر اس سوچ کی قائل ہوں کہ تہذیب کی حدود، شائستگی اور اخلاقیات سیکھنے سے سکھائے جا سکتے ہیں اور ذہنوں کی تربیت جتنی کشادگی اور کھلے پن کے ساتھ ہو اتنا ہی صحتمند معاشرہ تشکیل پائے گا مگر کیا ہمارا اب کا معاشرہ اس بات سے متفق ہے؟ شاید نہیں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim