یوم سیاہ: مؤرخ اور جمہوریت پسند نے کیا سیکھا؟


تاریخ میں، وہ کالی رات آج بھی چیختی اور چلاتی ہے، جب حرص و ہوس میں ملبوس تیرگی اور تعصب نے ضیاءالحق کی شکل میں سیاست، ثقافت اور جمہوریت پر شب خون مارا !

وہ 4 اور 5 جولائی 1977 کی درمیانی اندھیری شب جس میں کالے ناگوں نے جمہوریت اورتہذیب کومحض اس لئے ڈس لیا، کہ امریکی سامراج جوگی ان کا ہم راز اور ہم نوالہ تھا۔ غاصب بھول گیا کہ جب مشرقی اور مغربی پاکستان دو لخت ہوئے تو نکیل اقتدار جن کے ہاتھ میں تھی وہ پریشان تھے کہ، مغربی پاکستان کو مزید ٹوٹنے سے کیسے بچایا جائے؟ ان کو خوف تھا، اور اب آگہی بھی کہ، کہیں پھر سے ہمارے غیرمنصفانہ اقدامات اور کم فہمی کسی بلوچ ایریا یا پختون علاقہ کو فرسٹریٹ نہ کردے۔ کوئی اور شورش جنم نہ لے لے۔ مکتی بانی، بھارتی اور بھارت کے اندر مجیب الرحمٰن کے میڈیا اور باغی سیل کہیں کسی اور علیحدگی پسند تحریک کو جنم دے کر تاریخ کو ہمارے لئے مزید “کالک” نہ بنا دیں، اب کے سیاہی پھیلی تو پھر تاریکی کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔ لہذا ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل کردیا گیا۔ ذرا سوچئے !انتقال اقتدار سے قبل اقتدار تھا کس کے پاس؟ آج کا تاریخ کا طالب علم اور سیاست سے دلچسپی رکھنے والی نئی پود غور تو فرمائے کہ، مجیب الرحمٰن اور مکتی بانی کے پیچھے کون تھا، اور ڈوری ہلا کون رہا تھا؟ بنگلا دیش کی بنیاد کی خشت اول کس کس “دست مبارک” میں تھی؟ یہ تحقیق آج کے طالب علم پر ابھی فرض ہے، اور استاد کا بھی فرض ہے کہ محقق کی رہنمائی کرے۔۔۔۔ غاصب نے تاریخ اور تحریک کا گلا گھونٹ کر، انسانی حقوق اور جمہوریت کے خلاف اپنی آمریت، لالچ اور سازش کو بے نیام کرلیا۔ جنرل ضیاءالحق نے جمہوریت اور منزل کی جانب رواں دواں سوچ کا قلع قمع کرکے خود کو فریب اور منافقت کے سپرد کرکے اپنے آپ کو “امیرالمومنین” بنانے کی ٹھان لی۔ جھوٹی قسمیں اور جھوٹے وعدے کئے کہ جلد اقتدار کے انتقال کو جائز مقام دے دوں گا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لالچ کا قد بڑھتا گیا اور فریب فلک بوس ہوگیا تاہم ضیائی قد بونا بنتا گیا۔

آپریشن فیئر پلے نامی اقدامات سے ان فیئر کھیل کھیلا گیا۔ پیپلزپارٹی کے مینڈیٹ کو پیوند خاک کیا گیا اور 5 جولائی 1977 کے یوم سیاہ سے کوڑوں کی بارش۔ انسانی حقوق اور جمہوری حقوق کی پامالی، نظریاتی سیاست کے خاتمے اور کہیں لالچ اور کہیں خوف کی بنیاد پر صداقت کو بالائے طاق رکھنے اور “گرگٹ زدہ” سیاسی رنگوں کا دور شروع ہوگیا۔ منافقت کو رواج بخشنے والے لوگوں کو دین کا جھانسا دینے لگے۔ جمہوریت کی جگہ آمریت نے لے لی۔ کلاشنکوف اور ہیروئین “عہد امیرالمومنین” میں غالب ہوگئے، آئین مفلوب ہوگیا اور قانون مفلوج۔ ناانصافی کے سنگ سنگ پی پی پی کارکنان کے لئے کوڑوں کی جھنکار اور ہتھکڑیوں کے زیور عام ہوئے۔ قیادت کی قلعہ بندیاں اور 1973 کے آئین ساز کے کارکنان کے لئے زندان خانوں کی صعوبتوں کا اعزاز شروع ہوا۔

 سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ بارہا یہ بات دہرا چکے، کہ مرحوم جنرل ضیاءالحق نے کعبہ شریف نے بھٹو کو پھانسی نہ دینے کی قسم کھائی اور وعدہ کیا بعد ازاں وہ وعدے وہ قسمیں اس وقت کے امریکی صدر رونالڈریگن پر قربان کر دیے …… نرگسیت پسندی کا عالم دیکھئے، اپنے اس وزیراعظم کو جسے خود بنایا، جس حکومت کی خاطر غیرجماعتی الیکشن 1985 کرائے گئے اور جب اس حکومت اور اس کے وزیراعظم نے خود کو واقعی وزیراعظم سمجھنا شروع کیا تو اپنی ہی آٹھویں ترمیم سے متشکل 58-(2)-بی سے اس حکومت کا بھی 29 مئی 1987 کو خاتمہ کر دیا اور خودپسندی کو تقویت بخشی۔ اپنے چھوڑے نہ بیگانے محض “خود ستائشی اور خودپرستی” کو مقدم جانا۔ آئین میں اپنا نام رقم کرنے کی کالی تاریخ رقم کی۔ غلطیاں و کوتاہیاں بشر کا خاصا ہے، ہر ایک میں ہوتی ہیں۔ لیکن اپنی زلف کی تاریکی کو حسن سمجھ لینا اور وہی خضاب جب کسی دوسرے کی زلف میں ہو تو اسے نامہ سیاہ گرداننا کہاں کی شرافت اور دیانت ہے؟ سیاسی تقریروں میں جھوٹ کی سمجھ کسی حد تک تو آتی ہے مگر قبل از تقریر آیات اور بعد از خطاب بھی آیات لیکن ان کے بیچ میں جھوٹی تقریر! کوئی بتائے یہ کیا طرز تکلم ہے اورکیسا انداز حکمرانی ؟

 انسان اپنی چالیں چلتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی ہم سب یہ بھول جاتے ہیں کہ حاکم اعلی، حکیم اور مالک الملک کی صفات صرف رب تعالی کی ہیں۔۔۔۔۔ بھٹو کی حکومت ختم کی جاتی ہے کہ اقتدار انجوائے کیا جائے پھر ایک نام نہاد مقدمہ کے ذریعے بھٹو کو کئی سال تک جیل میں رکھ کر ایک “عدالتی قتل” کے تحت 4 اپریل 1979ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ کیونکہ بھٹو کی زندگی میں اقتدار انجوائے کرنا ممکن نہیں تھا۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا، ضیائی ریفرنڈم سے بڑا کوئی فراڈ تھا؟ مؤرخ الیکشن1977 کا پس منظر اور پیش منظر بھی بتائے اور ضیائی ریفرنڈم 19 دسمبر 1984 کا “مبارک عمل” بھی۔ آخر اپنے اقتدار کی خاطر اپنے وزیراعظم کو فارغ کرنے پانے بہانے بھی تراش لئے جاتے ہیں۔ کوئی لکھے یہ سب نصابوں میں اور کتابوں میں! کوئی بتائے 90 ہزار قیدی کس نے چھڑائے اور ضیا دور میں سیاچین گلیشئر کا بڑا حصہ کہاں گیا؟ قادیانیوں کو اقلیت قرار بھٹو کے سوا کوئی نہ دے سکا۔ ایٹمی پاکستان کی بنیاد کس نے رکھی؟ ہاں ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھنا، آزادئ کشمیر کا مصمم ارادہ رکھنا ہی بھٹو کے جرم تھے جو اقتدار اور حکومت جانے کا سبب بنے.

بمطابق سابق جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی پروفیسر غفور ( نظام مصطفی تحریک کے اہم رہنما اور مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن) کی بات آن ریکارڈ ہے کہ بھٹو کے ساتھ سب طے ہوگیا لیکن ضیاء الحق کی نیت ہی خراب تھی۔

آج مسلم لیگ سے جماعت اسلامی تک اور اے این پی سے ایم کیو ایم تک، جمعیت علمائے اسلام سے جمعیت علمائے پاکستان تک۔ میاں نواز شریف سے عمران خان تک بھٹو کو لیڈر مانتے ہیں اور 5 جولائی 1977 سے 4 اپریل 1979 تک کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پی پی پی کی ایم آر ڈی، اے آر ڈی کی تحریکوں سے میثاق جمہوریت تک کو آج کا ہر لیڈرمانتا ہے۔ میاں نواز شریف ضیائی شاہراہ پر چل کر شہر اقتدار اور عنان حکومت تک پہنچے مگر بمطابق میاں نواز شریف اور ان کے سیاسی رفقاء انہوں نے بھی ضیاء الحق کو چھوڑ دیا جبکہ آج یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بھٹو قومی لیڈر کی حیثیت حاصل کرچکا ہے۔ حتی کہ بے نظیر بھٹو کی حیثیت قومی لیڈر کی ہوچکی ہے!

 اسلامک سوشلزم سے چڑنا کسی طرح سمجھ میں آتا بھی ہو لیکن اسلام میں منافقت سازی کی بنیاد بالکل سمجھ سے باہر ہے۔ اسلام کے لبادے میں جابر سرمایہ دارانہ نظام کیسا نظام ٹھہرا؟ عورت کو جبر اور غیر اخلاقی اور غیر اصولی بنیادوں پر مقید کرنا اور نفسیاتی مریض بنا دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ الحمدللہ، اسلام کی عالم گیری اور ہمہ گیری نے جو عورت کو تقدس اور اپروچ دی اس کی مثال کسی اور ضابطہ اخلاق اور ضابطہ حیات میں ہے ہی نہیں ! بہت ہوچکا، اب حقائق تسلیم کرلیے جائیں، درست تاریخ کے راستے ہموار کئے جائیں، نئی نسلوں کو سیاسی اور جذباتی دھوکہ نہ دیا جائے۔ نظام اور ادارے صاف شفاف ہونے چاہئیں۔ قول و فعل میں تضاد کا خاتمہ لازمی ہے۔ خواتین صرف احترام اور حقوق ہی کی متلاشی نہ ہوں ان کے فرائض بھی ہیں جن کا احساس خواتین کے لئے بھی ضروری ہے۔ پروفیشنلزم بھی ضروری ہے جو معیار دیتا ہے۔ ووٹرز میں ووٹنگ سینس اور موازنہ صلاحیت بھی ضروری ہے۔نئی نسل صرف نعرے یا ری ایکشن پر نہ جائے بلکہ سوشل انجنئرنگ اور سماجی چیلنجز اور نفسیاتی معاملات کو سمجھ کر مستقبل تراشیں۔ دنیا گلوبل ولج ہوجانے سے اور اطلاعات میں تیزی کے سبب دونمبری اور منافقت سے یا قول و فعل کے تضاد سے ریاستی یا نظام کی کوئی تبدیلی ممکن نہیں! تاریخ اور تحریک کے سبق یاد رکھنے ضروری ہیں!

 5 جولائی یوم سیاہ کے نوحوں اور مرثیوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سانحوں کی گنجائش نہ رہے اور غلطیاں نہ دہرائی جائیں!

نیلم جبار چوہدری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نیلم جبار چوہدری

نیلم جبار چوہدری پاکستان پیپلز پارٹی کی فعال رہنما ہیں۔ وہ 2008 سے 2013 تک پنجاب کی صوبائی وزیر رہیں۔

neelam-jabbar-chaudhary has 2 posts and counting.See all posts by neelam-jabbar-chaudhary