عورت پر مہربانی کریں اور تانگے کے ساتھ گھوڑا بھی دیں


آج اخبار میں اک خبر پڑھ کر عجیب سی مسرت ہوئی۔ نہ تو پاکستان نے کوئی کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا اور نہ ہی کشمیر فتح کر لیا تھا۔ ایک اخبار کے اندرونی صفحے پر لکھا تھا کہ قومی اسمبلی میں خواتین اسمبلی ممبران کے بچوں کے لیے ڈے کیئر سنٹر کھل گیا ہے۔ اس خبر نے مجھے مسز رونزولی کی یاد کرا دی۔ مسز رونزولی اٹلی سے یوروپئین پارلیمینٹ کی رکن ہیں جو اپنے نوزایئدہ بچے کے ساتھ اسمبلی سیشن پر آتی رہیں اور شہ سرخی بنیں۔ ہونی تو یہ عام سی بات چاہیے تھی مگر پھر بھی خبر بنی کہ مسز رونزولی نے اپنی فطری ذمہ داری کو کام کے ساتھ بغیر کسی معذرت خواہنہ رویہ کے یکجا کیا۔ پاکستانی خواتین سیاستدان بھی عام کام کرنے والی عورتوں کی طرح فکر مند رہتی ہیں کہ کام پر بچہ کہاں چھوڑ کر آئیں۔ دیکھا جائےتو عورتوں کے دکھ سکھ بھی گلوبلی سانجھے ہیں۔

منٹو کے معاشرےمیں عورت کو تانگہ چلانے کی آزادی نہیں تھی۔ آج ہم منٹو کے معاشرے سے آگے نکل آئے ہیں۔ اب عورت کو تانگہ بھی مل گیا ہے بس ساتھ میں بچے پالنا، چولھا چوکھا کرنا، اور شادیاں چلانے کی ذمہ داری بھی اس پر ہی رہی وہ مرد نے تقسیم نہیں کی ہے۔ سو اب عورت تانگے کے آگے گھوڑے کی جگہ خود ہی جت کر تانگہ چلاتی ہے۔ مرد پھر بھی گلہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ عورتیں کام نہیں کرتی ہیں۔ کام نہ کرنے سے عموما مراد یہ ہوتی ہے کہ چونکہ خواتین کی بیویاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان کے کولیگ مردوں کی طرح کے شوھر ہوتے لہذا انھیں ہی اپنے بچے سنبھالنے ہیں جن کی وجہ سے وہ باس کے آفس سے نکل جانے تک غیر موجود علامتی کام کے جھنڈے اٹھائے آفس میں نہیں بیٹھی رہ سکتی ہیں، کام مکمل کر کر گھر چلی جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آفس میں بچے لانے کو عموما بہت ہی نان پروفیشنل رویہ سمجھا جاتا ہے۔ دفتری رویے خاموش زبان میں یہی کہتے ہیں کہ خواتین کو بچے جن پیڑوں پر اگتے ہیں وہیں چھوڑ آنا مناسب ہے۔

ہما رے معاشرے میں خواتین کی ترقی اک انوکھا گورکھ دھندہ ہے۔ جہاں عورت کو آزادی دے کر کام کی اجازت تو دی جاتی ہے مگر اس کے کام کے اوقات یا دفتر کا ماحول اس کی معاشرتی ضروریات کے مطابق نہیں بنایا جاتا۔ اب سے کچھ ہی سال قبل، خواتین وکلائی کے لیے الگ باتھ رومز کچہریوں میں نہیں تھے۔ کسی ڈسٹرکٹ کی خاتون افسر کا کچہری میں دفتر ہی خواتین کے لیے آسانی کا سبب ہوتا تھا کہ آس پاس کی تمام خواتین کو باتھ روم کی سہولت ہو جاتی ہے۔ اب کچھ کچہریوں میں الگ باتھ روم اور بیٹھنے کی جگہ بن گئی ہے۔ بیشتر دفاتر میں آج بھی ڈئے کیئر سنٹر نہیں ہیں۔ چونکہ یہ پالیسی کے معاملات ہیں، اور آج بھی مرد حضرات کے پیش نظر یہ اہم نہیں ہیں۔ عورتیں آج بھی پاکستان کی آبادی کا پچاس فیصد سے زیادہ ہیں مگر گونگی اکثریت ہیں۔ کام کرنے والی خواتین کی بہت قلیل تعداد ہی پالیسی کے بنانے کی پوزیشن تک پہنچ رہی ہیں، بقیہ انہی مسائل کے باعث گلاس سیلنگ سے اوپر نہیں جا پاتی۔

کچھ لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ خواتین کو کام کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے یا کام کرنا ہوتا ہے تو بچے نہ پیدا کریں۔ عموماً خواتین ڈاکٹروں پر یہ الزام ہے کہ وہ میڈیکل کالجوں میں مرد ڈاکٹروں کی سیٹیں لے جاتی ہیں پھر شادیاں کرا کر کام چھوڑ دیتی ہیں۔ خواتین کے انتخابی کوٹے پر منتخب سیاستدانوں پر بھی الزام ہے کہ وہ صرف شو پیس ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ شکایت بجا بھی ہے۔ خواتین کی ایک کثیر تعداد واقعی تعلیم مکمل کر کر کام نہیں کرتی ہے۔ یا شادی کر کے کام چھوڑ دیتی ہے۔ جو کافی ڈھیٹ واقع ہوتیں اور شادی کر کے بھی کام کرتی ہیں وہ بچوں کی پیدائش کے بعد کام کی جگہ پر کوئی مناسب مدد نہ ملنے کے باعث کم کام کی جگہ چن لیتی ہیں اور اپنا کیرئر خراب کر لیتی ہیں۔ ایسے ہم کئی اچھے ورکرز سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ معاشی طور پر بھی ہماری ترقی کی آہستہ رفتار کی ایک وجہ بھی ہے۔ جس معاشرے میں ورک فورس کی آدھی تعداد کام ہی نہ کرے یا کام کی صلاحیت سے نیچے کام کرے یہ بہت بڑا مسلئہ ہے۔

عورتوں کو کام میں شامل کرنا یا ان کی کارکردگی بڑھانا کوئی فیثا غورث کا تھیورم نہیں ہے۔ خواتیں کے لیے علیحدہ باتھ روم، ان کے بچوں کے لئے ڈے کئیر سنٹر، مناسب میٹرنٹی کی چھٹی کچھ آسان حل ہیں۔ یہ تجاویز کوئی پاکستانی خواتین کی انوکھی فرمائش نہیں ہیں۔ جرمنی میں ولادت کی چھٹی ماں کے لیے تنخواہ کے ساتھ 14 ماہ ہے۔ جبکہ کچھ ممالک میں یہ چھ ماہ سے لے کر ایک سال تک بھی ہے۔ پاکستان میں یہ چھٹی بارہ ہفتہ ہے۔ جو کہ انتہائی کم ہے۔ کئی ممالک میں ڈے کیئر کی سہولت خواتین کو فراہم کرنے کے لئے قانون نے اداروں کو پابند کیا ہے۔ میٹرنٹی چھٹی کے بعد یقینی بنایا جائے کہ کام کے وقفے سے خواتین کے آگے بڑھنے کے مواقع متاثر نہ ہوں۔ عورت کو تانگہ چلانے کی اجازت دے ہی دی ہے تو گھوڑا بھی جوت دیں فائدے میں رہیں گے۔

قرۃ العین فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

قرۃ العین فاطمہ

قرۃ العین فاطمہ آکسفورڈ سے پبلک پالیسی میں گریجویٹ، سابق ایئر فورس افسراور سول سرونٹ ہیں۔

quratulain-fatima has 16 posts and counting.See all posts by quratulain-fatima