نیند کیوں رات بھر نہیں آتی – چند مشورے


نیند پر پرانے زمانے کے فلسفیوں سے لے کر اردو شاعروں تک نے طبع آزمائی کی ہے۔ اردو شاعری نیند، خواب، رت جگے کے بغیر ادھوری ہے ان اشعار کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف ہمارے شعراء کو نیند کی اہمیت کا اندازہ تھا بلکہ اُنہیں Insomnia (ان سومنیا) رت جگے کی تکلیف سے بھی گزرنا پڑا تھا۔ مرزا غالب رت جگے کے کرب کو کس مہارت سے بیان کرتے ہیں۔

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

میرتقی میر اپنی ڈپریشن کی کڑی نیند سے یوں ملاتے ہیں۔

سرھانے میرکے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

پروین شاکر اپنے رت جگے کو اس طرح بیان کرتی ہیں

اک پل کو جھپک سکی نہ پلکیں
آنکھوں میں رہی رُکی ہوئی رات

نیند زندگی کا ایک لازمی جزو ہے۔ جس طرح جسم کو زندہ رہنے کے لیے کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح نیند بھی ضروری ہے۔ نیند کی کمی سے انسان کی دماغی قابلیت، یاداشت، موڈ، فیصلے کرنے اور امتحان دینے کی صلاحیت پر برا اثر پڑتا ہے۔ نیند بچوں کی دماغی نشو ونما کے لیے از حد ضروری ہے۔ اس کی کمی انسان کے ہر سسٹم پر اثر انداز ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اس کی کمی بیماریوں کے خلاف جسم کی قوت ِمدافعت کو بھی کم دیتی ہے۔ کچھ سائنسی تحقیقات کے مطابق کئی دماغی اور جسمانی بیماریوں کی نیند کی خرابی سے کڑیاں ملتی ہیں۔ ان میں ڈپریشن، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپا اور کئی اقسام کے کینسر شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بہت سے ملکوں میں نیند پر بہت زیادہ ریسرچ ہو رہی ہے۔ اب نیند کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے یہ جسم کی توانائی محفوظ کرنے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ دماغ کے مختلف خلیوں میں نئے کنکشن بناتی ہے جس سے انسان کی نئی چیزیں سیکھنے اور انہیں یاد رکھنے کی قابلیت اُستوار ہوتی ہے۔

اس سے پہلے کہ نیند سے متعلقہ بیماریوں کی بات کی جائے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمیں نیند کیسے آتی ہے اور ہمیں کتنے گھنٹے نیند کی ضرورت ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ہمارے اندر Circadian Rhythm یا باڈی کلاک (گھڑی ) موجود ہے جو کہ ہمارے جسم و دماغ کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے دن اور رات کی موجودگی کو نوٹ کر کے رات کو دماغ میں موجود نیند کے مرکز کو فعال کر دیتا ہے جس سے نیند آجاتی ہے۔ نیند کو دو مرکزی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ NonREM اور NonREM۔ REM کے تین حصے ہیں۔ گہری نیند اسی کا ایک حصہ ہے۔ REM کو آپ خوابوں کی بستی کہہ سکتے ہیں۔ ہم زیادہ خواب نیند کے اسی حصے میں دیکھتے ہیں۔ اس میں دماغ اور آنکھیں تو متحرک ہوتے ہیں مگر جسم ہلنے جلنے کے قابل نہیں ہوتا۔ اسی لیے اس کا نام REMٰؑ یعنی Rapid Eye Movement ہے۔ ایک رات میں ان دونوں مرکزی حصوں کے دورانیے کئی بار دھرائے جاتے ہیں۔ انسان کے جسم و دماغ کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے یہ سارے حصے مکمل کرنا ضروری ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک تسلسل کے ساتھ سونا ضروری ہے۔

عمر کے ساتھ ساتھ نیند کی ضرورت بھی کم ہو جاتی ہے۔ ایک نومولود بچے کو چودہ سے سولہ گھنٹے کی نیند ضرورت ہے۔ ایک سال کے بچے کے لیے بارہ سے پندرہ گھنٹے، سکول جانے والے بچوں کے لیے نو سے گیارہ گھنٹے اور بالغ لوگوں کے لیے سات سے نو گھنٹے سونا ضروری ہے۔ تیرہ سے انیس سال کے بچوں کا باڈی کلاک لیٹ نائٹ کے لیے سیٹ ہوتا ہے لہٰذا وہ دیر تک جاگتے ہیں اور نیند پوری کرنے کے لیے دیر تک سوتے ہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ میں ہائی سکول کے بچوں کے سکولوں کو دیر سے لگانے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور جن سکولوں نے اس پر عمل درآمد کیا ہے۔ اُن سکولوں کے سٹوڈنٹ کے امتحانوں میں نمبر باقی سکولوں کے سٹوڈنٹ سے زیادہ آئے ہیں۔ یہ صرف ایک گھنٹہ زیادہ سونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ آج کل کمپیوٹر، فون وغیرہ کے استعمال کی وجہ سے باڈی کلاک کو اور بھی آگے دھکیلا جاتا ہے جس پر دھیان لازمی ہے۔ بوڑھے لوگوں کا باڈی کلاک کچھ گھنٹے پیچھے ہو جا تا ہے اور وہ رات کو جلدی سو کر صبح جلدی اٹھ جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا باڈی کلاک مستقل لیٹ نائٹ کے لیے سیٹ ہوتا ہے۔ اُنہیں رات کے الو یا NightOwel کہتے ہیں۔ کچھ کا جلد ی سونے اور صبح جلدی اٹھنے کے لیے سیٹ ہوتا ہے۔ اُنہیں Lark یا صبح سویرے کا پرندہ کہتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ ہیں جو چار پانچ گھنٹے کی نیند کرکے فریش ہو جاتے ہیں اور دن میں نیند اور تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے کچھ آٹھ گھنٹے سو کر ہی فریش ہوتے ہیں۔ مگر اکثریت کو سات سے آٹھ گھنٹے کی نیند کی ضرورت ہے۔

نیند سے متعلقہ بہت سی بیماریاں ہیں۔ اس کالم میں میں صرف دو کا ذکر کروں گی جو کہ بہت عام ہیں۔

1۔ Sleep Apnea یا نیند میں سانس کادو دفعہ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے بند ہو جانا۔ اس کی وجہ سے دماغ کو آکسیجن نہیں ملتی اور مریض سانس لینے کے لیے بار بار اٹھ جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو ان وقفوں کے تعداد ایک رات میں سینکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ وقفے چونکہ بہت تھوڑی دیر کے لیے ہوتے ہیں اس لیے زیادہ دیر تک مریض کو اپنے اٹھنے کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر اس وجہ سے وہ دن میں تھکاوٹ اور غنودگی محسوس کرتا ہے۔ ٹریفک کے ایکسیڈنٹ کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔ اسی لیے امریکہ میں ٹرک اور بس ڈرائیوروں کو میڈیکل ایگزام کروانا ہوتا ہے۔ جس میں ڈاکٹر کو اور بہت سی بیماریوں کے علاوہ Sleep Apnea کو خصوصاًمد ِنظر رکھنا ہوتا ہے۔ ایسے مریضوں کی شناخت یہ ہے کہ یہ اونچے اونچے خراٹے لیتے ہیں اور وقفے وقفے سے سانس لینے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہر وہ شخص جو خراٹے لیتا ہے اُس کا سانس بند نہیں ہوتا اور اس کو Sleep Apnea نہیں ہوتا۔

Sleep Apnea (سلیپ ایپنی یا) کی وجہ سانس کی نالی اور نرخرے کا پریشر سے بند ہونا ہے۔ یہ زیادہ تر موٹاپے کی وجہ سے ہوتا ہے مگر کچھ دبلے پتلے لوگوں کو بھی کئی اور وجوہات سے ہو سکتا ہے۔ موٹاپے کی صورت میں وزن کم کرنے سے اس بیماری کی شدت میں کمی آسکتی ہے۔ وزن کو کم کرنے کے موضوع پر ایک علیحدہ کالم کی ضرورت ہے۔ مختصراًیہ عرض ہے کہ آپ سوڈا، کوک، پیپسی، سیون اپ، فروٹ جوس پینا چھوڑ کر صرف سادہ پانی پئیں۔ ڈیپ فرائیڈ چیزوں کی بجائے تھوڑے سے گھی میں تل کر کھانا پکائیں، زیادہ تر سبزیوں اور دالوں کا استعمال کریں۔ مرغن کھانے، چیس، مٹھائیاں، آئس کریم وغیرہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی کھائیں۔ اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کو یا گھر میں کسی اور کو Sleep Apnea ہے تو اپنے ڈاکٹر کو کہیں وہ مریض کو اُس ہسپتال بھیجے جہاں سلیپ لیبارٹری کی سہولت موجود ہے۔ اس لیب میں سلیپ ٹیسٹ کرکے اس مرض کی تشخیص کی جاتی ہے۔ اس کے لیے آپ کو لیب میں ایک رات سونا پڑتا ہے۔ اس کے علاج کے لیے C-Pap یا Bi-Pap مشینیں موجود ہیں جس کو مریض منہ اورناک پرلگا کر سوتے ہیں اور یہ مشینیں پریشر سے اُن کی سانس کی نالی کو کھلا رکھتی ہیں۔ اُن لوگوں کو یہ ٹیسٹ ضرور کروانا چاہیے جن کا بلڈ پریشر بہت سی دواؤں کے باوجود کنٹرول نہیں رہتا۔

2۔ Insomnia یا نیند نہ آنا۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جس میں ڈپریشن بھی شامل ہے۔ اس کا سب سے موثر علاج Cognitive Behavior Therapy یا CBT ہے۔ اس میں آپ کو اپنے ان خیالات اور عادات پردھیان دینا ہوتا ہے جو آپ کی نیند کو خراب کر رہے ہیں اور اس طرح آپ اپنے Circadian Rythm یا باڈی کلاک کو صحیح سیٹ کرتے ہیں۔ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ نیند کو آرام سے آنے دیں کہ آپ اپنے اوپرنیند زبردستی مسلط نہیں کر سکتے۔ بظاہر آپ کو CBT کے اصول بہت سہل نظر آئیں گے مگر اس کو سائنس کی ریسرچ نے موثر ثابت کیا ہے۔ اس کی تفصیل پڑھنے کے لیے انٹرنیٹ پر بہت سے مضامین اور سٹڈیز موجود ہیں جو Cognitive Behavior Therapy For Insomnia گوگل سرچ کر کے پڑھے جاسکتے ہیں۔ میں اس کالم میں صرف چند اصول بیان کروں گی۔

(i۔ رات کو بستر پر سونے کے لیے اُسی وقت لیٹیں جب نیند آ رہی ہو مگر صبح جاگنے کا ایک وقت مقرر کریں چاہے وہ چھٹی کا دن ہی کیوں نہ ہو۔

(ii۔ شروع کے دنوں میں اپنے جسمانی کلاک کو سیٹ کرنے کے لیے دن کو ہرگز نہ سوئیں چاہے کتنی نیند کیوں نہ آرہی ہو۔

(iii۔ سونے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے بلیو لائٹ بند کر دیں، ان میں کمپیوٹر، فون، اور ٹی وی شامل ہیں۔

(iv۔ اپنے بستر کو صرف سونے اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں سیکس تک ہی محدود رکھیں۔ مثلاً بیڈ روم میں ٹی وی نہ دیکھیں۔ اگر سونے سے پہلے کتاب پڑھنے کی عادت ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

(v۔ بیڈ روم کو شور اور روشنی سے بچائیں۔ اگر گلی سے ٹریفک کا شور آتا ہو تو گرمیوں میں پنکھا لگا کر رکھیں تاکہ باہر کی آواز کم آئے۔ سردیوں میں کانوں میں روئی ڈال کر سوئیں۔

(vi۔ سونے سے پہلے ایک خاموش جگہ پر کم از کم پندرہ بیس منٹ تک سکون سے بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے گہری گہری سانسیں لیں۔ شروع کے دنوں میں سانس کھینچتے وقت چار کی گنتی گنیں، سانس اندر لے کر چھے تک کی اور پھر باہر نکالتے وقت سات تک کی گنتی گنیں۔ کچھ دن بعد آپ کو خود ہی گہری سانسیں لینے کی پریکٹس ہو جائے گی۔ سانس لینے کی یہ پریکٹس اگر نیند کا مسئلہ نہ بھی ہوتو بھی دن میں ایک یا دو دفعہ کرنا چاہیے

(vii۔ جو چیزیں آپ کو پریشان کر رہی ہیں۔ اُن کے بارے میں سونے سے پہلے کرسی پر بیٹھ کر سوچیں اور اُن کے مناسب حل تلاش کر کے نوٹ بک پر لکھ لیں۔ اس کے علاوہ جو کام اگلے دن کرنے ہیں اُن کو بھی لکھ لیں تاکہ یہ خیالات آپ کو سونے کے وقت تنگ نہ کریں۔

(viii۔ دن کو سورج کی روشنی میں کچھ وقت ضرور گزاریں۔ ہو سکے تو دن میں ورزش کریں یا کم از کم واک کریں۔ یہ ورزش سونے سے کم از کم چار گھنٹے پہلے کریں۔

(ix۔ چائے، کافی، سوڈا اور وہ ڈرنک جن میں کیفین موجود ہے دوپہر کے کھانے کے بعد نہ پئیں۔ پانی بھی سونے سے دو گھنٹے پہلے تک ہی پئیں۔

(x۔ اگر رات کو آنکھ کھل جائے تو اپنی سانسوں پر توجہ دے کر گہری گہری سانسیں لیں۔ اگر بیس پچیس منٹ تک دوبارہ نیند نہ آئے تو بستر سے اٹھ کر کہیں اور بیٹھ جائیں۔ کوئی بور نگ کتاب پڑھ لیں مگر ٹی وی، فون، کمپیوٹر کو بالکل نہ چلائیں۔ گھڑی کی طرف بھی مت دیکھیں بلکہ گھڑی کا رخ دیوار کی طرف رکھیں تاکہ نظر ہی نہ پڑے۔ بستر میں دوبارہ اُسی وقت جائیں جب نیند آنا شروع ہو جائے۔

اس کے علاوہ اگر کوئی اور عادت آپ کی نیند میں مُخل ہو رہی ہے تو اُس پر کنٹرول کریں۔ یاد رہے کہ سگریٹ، شراب اور ڈرگز بھی نیند کے لیے بہت مضر ہیں۔ اگر آپ نیند کی گولی کے بغیر نہیں سو سکتے تو بھی آپ CBT کے اصولوں پر عمل کر کے اپنی نیند کی کوالٹی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اگرآپ نیند کی گولی کو بالکل چھوڑنا چاہیں تو ایک دم مت چھوڑیں۔ اس ہر ہفتے بیس پچیس فیصد کم کرکے چھے سات ہفتوں میں اپنے ڈاکٹر سے مشورے کے بعد چھوڑیں۔ ان سب باتوں کے باوجود اگر آپ کی نیند کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ آپ کی نیند نہ آنے کی دوسری وجوہات کی تشخیص کر سکے۔

CBT کو اُس وقت تک جاری رکھیں جب تک آپ کو نیند خود بخود، قدرتی طور پر نہ آنے لگے۔ اس کے بعد اگر پھر پٹڑی سے اتر جائیں تو دوبارہ CBT کو شروع کر دیں۔ اگرایک دفعہ نیند قدرتی طور پر آنے لگے تو اُس کو ڈسٹرب کرنے والے عوامل سے حتیٰ المقدور دور رہیں۔ یہ سبق ہمیں مرزا سودا نے بھی تقریباً 300 سال پہلے اپنی شاعرانہ تعلی کو خوبصورتی سے استعمال کرتے ہوئے دیا تھا۔

سودا کے جو بالیں پہ ہوا شورِ قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے​

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر غزالہ قاضی

Dr. Ghazala Kazi practices Occupational Medicine (work related injuries and illnesses) in USA. She also has a master’s degree in Epidemiology and Preventive Medicine.

dr-ghazala-kazi has 35 posts and counting.See all posts by dr-ghazala-kazi