بے آواز سندھو ڈیلٹا کے عوام


جولائی کا مہینہ تھا، میں سندھو ڈیلٹا کے تاریخی علاقے کیٹی بندر، جہاں پر ماضی میں کبھی زندگی مسکراتی تھی، کے سمندر کنارے ایک لمبی واک کررہا تھا۔ صبح کا وقت تھا۔ آسماں پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ بھیگی اور نمکین ٹھنڈی ہوائیں میرے چہرے کو چھو کر گزررہیں تھیں۔ سمندر کنارے کے کچھ فاصلے پر کشتیوں پر ماہی گیروں کی آوازیں آرہی تھیں، شاید مچھلی کے شکار پر جانے کی تیاریاں کررہے تھے۔ چند ساعت کے بعد ہلکی پھووار گرنے لگی۔ جب بارش کے پانی کی چادر سمندر کے اوپر حد نظر تک پھیل جاتی ہے۔ میں بھی اپنے آپ کو بارش کی چادر میں لپٹا ہوا محسوس کرتا ہوں، تو میں حیرت میں پڑجاتا ہوں کہ یہ پانی کونسی حقیقت ہے اور یہ کیسی مقدس ہستی ہے جو ہمیں بہت کچھ دیتی ہے اور دے سکتی ہے۔ پانی ماتا کے ذریعے ہم بہت ساری نعمتیں حاصل کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے گہری سوچ میں پڑجاتا ہوں کہ پانی کیسی پراسرار ہستی ہے جس کے ساتھ ہم پتہ نہیں کیا کیا کرتے ہیں، پانی ہمیں کس طرح معاف کر ےگا؛ اس کے باوجود پانی ہماری پیاس بجھاتا ہے، ہماری آلودگی کو صاف کرتا ہے، زندگی دیتا ہے اور زندگی پیدا بھی کرتا ہے۔ میں ابھی پانی کی پر اسرار اور مقدس حقیقت کو دل و دماغ کی اتھا گہرایوں میں تلاش کررہا تھا کہ اچانک میرے کان میں گانے کی آواز گونجتی ہے، ہیا اہ، ہیا اہ۔ دیکھا تو کشتی مچھلی کے لئے روانہ ہوچکی تھی، اور تھوڑی دیر کے بعد بارش کے پانی چادر میں گم ہوگئی۔

فزکس ہمیں سکھاتی ہے کہ ” ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے“۔ دھرتی کے سینے پر انسان یا فطرت کے ذریعے ہر طرح کی تبدیلی اور ردوبدل کرنا، جس سے دھرتی کے ماحولیات میں ردعمل ہوگا۔ اگر ہم دریا پر ڈیم تعمیر کرتے ہیں تو ڈاؤن اسٹریم کی کئی نامیاتی حیات مُرجھا جائیں گی اور مرجائیں گی، واٹرٹیبل تبدیل ہوجائے گا، بخارات کی شرح میں ردوبدل ہوجائے گا، سمندر اور اس کے کنارے اپنی غذا کھو دیں گے۔

میرا خیال ہے کہ ’’پانی جیون ہے‘‘، زمین پر پانی کے بغیر جاندار اور بے جاندار اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ پانی ایک ایسہ تحفہ ہے جس نے اس زمین پر زندگی کو تخلیق دی ہے اور ان تمام زندگیوں کو پانی کی ضرورت ہے۔ پانی کو خطرہ مطلب تمام حیات کو خطرہ ہے۔ ہم جو پانی کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں وہ اصل میں ہم خود کے ساتھ کرتے ہیں، جبکہ کہتے ہیں کہ پانی زندگی ہے تو اسے ایک تجارتی جنس نہیں سمجھنا چاہیے۔

دریا ہماری زمین کی شہ رگ (Artery) ہے، جو زمین کو پانی کی صورت میں زندگی بخشتی ہے۔ متعدد پودوں اور جانوروں کی زندگی کا دارومدار دریاؤں کے پانی پر ہوتا ہے۔ یہ دریا لوگوں کو پینے، آبپاشی، صفائی، کھانا بنانے، ادویات، تعمیرات اور متعدد دیگر کاموں کے لئے پانی مہیا کرتے ہیں۔ دریا آلودگی، سیلاب اور قحط سالی کے خطرات کو کم کرتے ہیں، زیرزمین پانی کے ذخائر کو بڑھاتے ہیں اور ماہی گیری کو برقرار رکھتے ہیں۔ دریا سفری راستوں کے طور پر بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔

دریا صرف پانی کے بہاؤ کا نام نہیں ہیں، مگر زیرزمین پانی، اس کے آس پاس کے جنگلات، کریکس یہ تمام دریاؤں کا حصہ ہیں۔ دریا پانی کے بہاؤ کے ساتھ زمین کو غذائیت مہیا کرنے والی معدنیات و دیگر اہم اجزاء ساتھ لے کر چلتا ہے، جن کے زمین میں شامل ہونے سے زمین کو بہت زیادہ زرخیزی ملتی ہے۔ دریا کا آخری حصہ جہاں میٹھا پانی سمندر کے نمکین پانی سے ملتا ہے وہ دریا سمیت زمین کا سب سے زیادہ پیداوارِ حیات کا حصہ ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ مچھلی کی اقسام دریا کے ٹیل والے حصہ میں پائے جاتے ہیں۔

ڈیم کے ماحولیات اور دریاؤں پر اثرات:

دریاؤں پر ڈیم بنانا انسانوں کی طرف سے قدرتی ماحول پر ایک ڈرامائی اور مصنوعی اثر ڈالنا اور اسے تباہ کرنا ہے۔ دنیا کے طاقتور لوگ دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر کے دریاؤں پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں، لیکن کبھی بھی ایک دریا کو مکمل طور پر ڈیم میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ڈیم سیلاب اور کم بہاؤ والی موسم میں دریا کو کنٹرول کرنے کے لئے تعمیر کیے جاتے ہیں، ڈیم دریاؤں کی سلٹ (Silt) و دیگر قدرتی اجزاء کو روکتا ہے، جس سے دریا کے درجہ حرارت و دیگر عنصروں میں تبدیلی آتی ہے اور دریاؤں کا تمام ارضیاتی عمل متاثر ہوتا ہے، کنارے ختم ہوجاتے ہیں اور ان کے آسپاس کی زمین بھی متاثر ہوتی ہے۔

ڈیموں کی عالمی سیاست:

دنیا میں چھوٹے بڑے ہزاروں دریا ہیں، لیکن اس دنیا میں ایک ہزار کلومیٹر سے بڑے تقریباً 292 دریا موجود ہیں، جن میں سے اب صرف 21 دریا ایسے ہیں جو اپنی منزل تک یعنی سمندر تک پہنچ سکتے ہیں، باقی تمام دریا ڈیموں کی تعمیر کی وجہ سے اپنے قدرتی بہاؤ کھو بیٹھے ہیں۔ پورے دنیا میں ریاستوں، حکومتوں اور عالمی مالیاتی اداروں نے ترقی کے نام پر ڈیم بنائے، دریاؤں کے رخ تبدیل کیے اور دریاؤں کی ماحولیات کو تباہ کردیا۔ زراعت کو ترقی دلانے کے لئے آبپاشی نظام لایا، جس کے ذریعے حد سے زیادہ آبپاشی کی گئی، بجلی پیدا کرنے کے بہانے ہائڈرو پروجیکٹس لگائے گئے۔

دیکھا جائے تو سب سے زیادہ ڈیموں کا شکار عام طور پر سب سے پسماندہ غریب کسان، ماہی گیر اور علاقے کے اصل مکین ہوتے ہیں، نہ صرف یہ لیکن ان کی ثقافت پر بھی بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، بڑی بیماریوں اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں، ڈیم متاثرین لوگوں سے اکثر ان کی زندگی میں بہتری لانے کے بڑے وعدےکیے جاتے ہیں، جن میں بجلی کی فراہمی، ہسپتالیں اور اسکول قائم کرنا شامل ہیں، لیکن ان پر مکمل طور پر عمل شاید ہی کبھی ہوا ہو۔

اس کے علاوہ دنیا میں دریاؤں کے ٹیل کے علاقے میں رہنے والے کم سے کم 50 کروڑ انسان ڈیموں کے منفی اثرات کا شکار ہوئے ہیں، دریاؤں کے ڈیلٹا اور جنگلات کو تباہ کیا گیا ہے، ڈیلٹا میں دریاؤں کا پانی نہیں جانے کی وجہ سے سمندر آگے بڑھ کر تیزی سے زرخیز زمین نگل رہا ہے۔ ورلڈ کمیشن آف ڈیم (WCD) سمیت پانی اور دریائی ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بڑے ڈیم ماحولیات اور دریاؤں کے لئے نقصاندہ ہیں، لیکن اس کے باوجود ڈیم تعمیر کرنے کی حوس میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کی یہی وجہ ہے کہ اس وقت ڈیم بننے کا کاروبار ڈیم انڈسٹری میں تبدیل ہوچکا ہے، جس میں عالمی ڈیم بنانے والی کمپنیاں، مفاد پرست سیاستدان اور بیوروکریٹس، عالمی مالیاتی ادارے اور ماحولیاتی کنسلٹنٹ شامل ہیں۔ دنیا کے ممالک میں ڈیم قومی مفاد اور ترقی کے نام میں تعمیرکیے جاتے ہیں، بالکل ایسے جیسے ایٹم بم بھی قومی مفاد میں بنایا جاتا ہے۔ ’’ڈیم اور نیوکلیئر بم دونوں عوام کو تباہ کرنے کے ہتھیار ہیں، جو حکومتوں کی طرف سے عوام کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں‘‘۔

دریائے سندھ کا پانی ڈیلٹا میں نہ پہنچنے کی وجہ سے ڈیلٹا کے تین اضلاع ٹھٹہ، سجاول اور بدین کی 35 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر نگل چکا ہے، 7 سے 8 لاکھ ڈیلٹائی لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور دریا سندھ پر ڈیم اور بیراج تعمیر ہونے اور کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے تقریباً 20 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ دریائے سندھ پرکالاباغ اور بھاشا ڈیم سمیت تمام ڈیم تعمیر ہونے سے دریائے سندھ کی ماحولیات مزید خراب ہوگی، سیاسی بنیادوں پر کیے گئے ایسے فیصلے اور پالیسیاں بے آواز اور ڈیلٹائی عوام کے لئے سنگین اور نقصاندہ ثابت ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).