خواتین حقوق کا بل اور مردانگی کا ٹوٹتا بھرم


 ساجد ناموس

 \"namoos\"خواتین کے  حقوق کا بل پنجاب اسمبلی میں آیا اور منظور بھی ہوگیا ، اس دوران میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ  مولانا فضل الرحمان نے ماحول کو اپنے بیانات سے گرم رکھا ۔  دفتر میں اس ساری صورتحال پر میرے ایک کولیگ نے اس بل  کو معاشرے سے مطابقت نہ رکھنے اور سماج کا تار پود پکھیرنے کی ایک مغربی سازش قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کردینے کے بعد مجھے سے میری رائے جاننی چاہی، ایسے میں میری رائے جو بھی ہو انہوں نے اپنی حتمی رائے دے کر اور فیصلہ سنا کر مجھے سے رائے مانگی تھی ، اس کا واضح مطلب ایک تھا کہ میں ان کے موقف کی دلالت  کروں ، اور  اگر میری  رائے ان  کے موقف سے متصادم ہوئی تو اختلافات کا پیدا ہونا حتمی اور یقینی امر تھا ۔ ایسے میں میں نے انہیں ایک واقعہ سنایا اور کہا کہ اس میں سے میری رائے اخذ کر لیں ۔

 

لاہور میں ایک پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں ، اور ایک سرکاری کالج میں لیکچرار بھی ،جن کی شادی کو ہوئے بمشکل چھ ماہ ہوئے ہوں گے ۔  شادی کے ایک ماہ بعد ہی شوہر نامدار نے آگاہ کردیا کہ میری جاب اور میری کوششوں کے باوجود میری انکم سے گھر نہیں چل سکتا اس لیے آپ تعاون کریں ، دو ماہ خاتون نے تعاون کیا ، تو شوہر نامدار کو کام کرنا بوجھ لگنے لگا اور جو معاشی مصروفیات تھیں وہ بھی ترک کے گھر میں آبیٹھے ، اور مکمل طور پر اپنی بیوی کے محتاج ہوگئے ، لیکن روایتی مردوں والی اکڑ نہ گئی ، اب شوہر کا معاشی بوجھ ، گھر کے اخراجات، اور گھریلو کام کاج  سب کچھ بیوی کے ذمے تھا کہ تین ماہ بعد ہی شوہر اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ ہی رکھ لیا اور اس کے اخراجات اور کام کاج بھی بیوی کے ذمہ ڈال دئیے ، تین ماہ بعد جب بیوی نے شوہر کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ کے اخراجات اور کام میں بغیر کسی تردد کے کرسکتی ہوں لیکن آپ کے بھائی کو اپنا بوجھ خود اٹھانا چاہیے ،بس پھر کیا تھا اندر کا روایتی مرد بیدار ہوگیا اور بولے اگر گھر بسانا ہے تو میرے بھائی کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہوگے ورنہ آپ کی مرضی ہے ۔

 

ایسے میں جب مکمل ایثار ، اور اخلاص کے ساتھ آپ کے نباہ کیا جا رہا ہو اور مرد ہونے کے ناطے آپ کی عزت نفس کا بھرم بھی رکھا گیا ہو ، اور شوہر نامدار اپنی مرادنگی کے زعم سے باہر نکلنے کو تیار نہ ہو ۔۔۔ تو یقینا ایسے  قانون کے ہونے سے خواتین کو حوصلہ ملا ہوگا ،اور اگر وہ چاہیں گی کہ ان کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتی کا سلسلہ تھم جائے تو ان کے پاس ایسا مؤثر قانون موجود ہے جس کے ذریعے وہ اپنے دکھوں کا مدوا کر سکتی ہیں ۔

 میرے کولیگ نے  آخری جملہ سنے بغیر ہی اللہ حافظ کہہ کر  اجازت چاہی کیونکہ انہیں میری رائے کا اندازہ ہو چکا تھا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments