سیاحتی مقامات پر جنسی ہراسانی کا الزام محض ایک پبلسٹی اسٹنٹ ہے


عید کے بعد سیاحتی مقات پر جانا ایک روایت اور دستور سا بن گیا ہے، اور کچھ دہائیوں سے اس میں بڑی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ زیادہ لوگ پہلے مری، سوات کے علاقوں میں جاتے تھے، کیونکہ ان علاقوں کے لئے سڑکیں اچھی تھیں۔ دیگر سیاحتی مقامات لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے، نہ میڈیا اتنی تیز تھی کہ لوگوں کو پتہ چل سکے، اور نہ ہی وہاں تک سڑکیں بنی تھیں، یہ تو سڑکوں کی تعمیر اور میڈیا پر پروجیکشن کے بعد بہت سے علاقے لوگوں کی نظروں میں آگئے، جس میں، کاغان، ناران، ہنزہ، خنجراب، گلگت بلتستان، کمراٹ، بدین، بحرین، گلیات، چترال کے کچھ علاقے شامل ہیں جہاں چھٹیوں اور گر میوں کے مہینوں میں ایک جم غفیر امڈ جاتا ہے، خاص کر عید کے مواقع پر لوگ ان مقامات کا رخ کرنے لگتے ہیں، میرے اپنے بہت سے دوست ہر سال عید پر سیاحتی علاقوں میں جاتے ہیں اور میں ایسے دوستوں کو بھی اپنی علاقے میں جانتا ہوں جو عید کے بعد سے ہر مہینے کچھ نہ کچھ رقم بچا کر رکھتے ہیں اور اگلی عید تک وہ وہ ایک بڑی رقم بن چکی ہوتی ہے جس پروہ پھر ان سیاحتی مقامات کی سیر کرتے ہیں اور وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے سار ے علاقے دیکھ چکے ہیں۔ ان لوگوں کے جانے کی وجہ سے سیاحت کو فروغ ملتا ہے اور وہاں کے مقامی لوگوں کے لئے کاروباری مواقع پیدا ہوجاتے ہیں اور عوام کو تیز ترین زندگی سے کچھ دنوں کے لئے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ کیونکہ دوستوں کا ساتھ بزی شیڈول کی وجہ سے ہر وقت میسر نہیں آتا۔

سوات میں طالبان کی موجودگی کے باعث سوات اور شمالی علاقی جات کی سیاحت مکمل طور پر ختم ہوگئی تھی۔ کالام، مدین، بحرین، مالم جبہ اور دیگر سیاحتی مقامت تک جانا ایک خواب بن گیا تھا۔ مینگورہ کی خوبصورتی، خوازہ خیلہ کی خوبصورتی ماند پڑگئی تھی۔ وہاں خوف کے سائے پڑگئے، چوکوں پر انسانی جسموں کو لٹکایا جانے لگا۔ اور سوات جس کو ایشیا کا سوئزرلینڈ کہا جاتا ہے، وہاں سیاحت ختم ہوگئی، ہوٹل مالکان نے ہوٹل ختم کرکے متبادل کاروبار دیگر شہروں میں منتقل کردیے اور دیگر معاشی سرگرمیاں بھی ماند پڑگئی۔ اس حوالے سے اس وقت ایک سازشی تھیوری میدان میں آئی کہ سوات میں حالات کی خرابی میں پنجابی استعمار کا بڑا ہاتھ ہے، کیونکہ لوگ مری کی بجائے سوات سیاحت کے لئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مری کی انڈسٹری تباہی سے دوچار ہوگئی ہے اس لئے سوات میں حالات خراب کر دیے گئے۔ مگر اس میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ اور یوں سیاحت کی انڈسٹری سوات میں ختم ہوکر رہ گئی، جب سوات میں حالات اپنے نہج پر آگئے تو سوات یونیورسٹی میں ہوٹلنگ کے حوالے سے ایک ڈیپارٹمنٹ کھول دیا گیا تاکہ یہاں ہوٹلنگ اور سیاحت کو فروغ ملے مگر وہ شعبہ نہ چل سکا۔ پی ٹی آئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سیاحت کے فروغ کے لئے اقدامات اٹھائے گئے، اور بہترین سڑکیں تعمیر کی گئی جو 2012 میں آنے والے سیلاب کے باعث خراب ہو چکی تھیں۔ گزشتہ سال کی نسبت اس سال ایک حکومتی اندازے کے مطابق عید کے موقع پر 25 لاکھ سیاح خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقات پر آئے۔

ایسے موقع پرسیاحتی مقام خنجراب میں لڑکی کے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے اسٹیسٹس پر ہونے والے واویلے نے نئی بحث شروع کردی ہے کہ ان سیاحتی مقامات میں لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور پنجاب سے آنے والے ٹولے نے اسے کافی ہراساں کیا۔ جس کی پھر تصویر نکال کر سوشل میڈیا پر وائر ل کر دی۔ جس سے یہ تاثر پیش کیا جانے لگا کہ ان سیاحتی مقامات پر جنسی درندے دندناتے پھرتے ہیں جس سے لڑکیوں کی عزتیں وہاں محفوظ نہیں۔ ایک تو وہاں چیزیں اتنی مہنگی ہوتی ہیں دوسری جانب وہاں جنسی درندوں نے اودھم مچا دیا ہے کیونکہ وہاں بڑے بڑے درختوں اور پہاڑوں کے درمیاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہا کہ اس دفعہ ہوٹلوں میں لوگوں نے لڑکیوں کی بھی ڈیمانڈ کی، اور وہاں شراب پی کر تیز موسیقی میں ناچنا عام سے بات ہے۔

اگر لڑکی کی اس بات کو سچ مان لیا جائے تو کیا یہ سب کچھ دیگر شہروں میں نہیں ہوتا۔ رمضان کے آخری عشرے میں جب عورتوں کے بازاروں میں بھونڈی شروع ہوجاتی ہے تو وہاں ایسے واقعات نہیں ہوتے کیا؟ لڑکی کی یہ بات کہ اس نے بہت شور مچایا مگر کوئی مدد کو نہیں آیا، آپ کسی بازار میں لڑکی پر آواز کس لیں یا چھیڑ کر دیکھ لیں دیکھتے ہی دیکھتے کتنے خدائی خدمتگار آپ کی دھنائی کرنے پہنچتے ہیں۔ اور پھر ایسے سیاحتی مقامات پر جہاں لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور علاقہ بھی پنجاب کا کوئی علاقہ نہیں بلکہ گلگت بلتستان کا علاقہ ہے جہاں عورت کی عزت کی جاتی ہے کیونکہ وہ علاقے اب بھی اپنے روایات اپنائے ہوئے ہیں۔ جہاں اس بات کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔

ہم اس سوشل میڈیا کی وائرل تصویر اور اسٹیٹس کی مکمل نفی کرتے ہیں کیونکہ 25 لاکھ افراد نے سیاحتی مقامات پر گئے ہیں اور صرف ایک لڑکی کے الزام کو مان لینا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ میں نے اپنے بہت سے دوستوں سے رابطے کیے جو ان سیاحتی مقامات پرعید کے بعد گئے تھے۔ ان کے بقول لڑکیوں کو چھیڑنے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اکادکا واقعات تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ مری میں تو ہر دن بلکہ ہر گھنٹے میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام باد کے لوگ تو ہر ویک اینڈ پرمری جاتے ہیں۔ خیبر پختونخوا ہ کے سیاحتی مقامات پر تو صرف گرمیوں میں یا پھر عید کی چھٹیوں میں جایا جاتا ہے۔ اور وہاں شراب وشباب کی محفلیں بھی ہوٹلوں میں جمتی ہیں کسی نے اس جانب کوئی نظر نہیں ڈالی نہ ہی کسی نے اس پر قلم اٹھانے کی جسارت کی ہے۔ یہ خود کو مشہور کرنے کے اسٹنٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).