مرد کبھی روتا نہیں


آج کا بلاگ کہئے یا کالم  کچھ مختلف ہے۔ اور ہو بھی کیوں نہ؟ اتنی تاویل غیر حاضری کا خراج بھی تو دینا ہو گا۔ جانتے ہیں کہ ہمارے بغیر بھی دنیا چل ہی جاتی ہے لیکن دل کے بہلانے کو یہی سمجھنا چاہیں گے کہ آپ نے بہت بےچینی سے اپنی محبوب لکھاری کا انتظار کیا۔ خیر ہمارا ذکر چھوڑئیے۔ آتے ہیں حقیقی مدعے کی طرف۔ پہلے ہی ہم پر لمبی تمہید کے لمبے مقدمے قائم ہیں۔ سب ہی پڑھنے اور جاننے والے رقیب و حبیب ہمیں حقوق نسواں پر اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے حوالے سے ہی یاد کرتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ وہی مہیلائیں جو ہماری آہ و بکا کو اپنی آواز جانتی ہیں۔ ان کے مجازی خداؤں کو ہم ایک آنکھ نہیں بھاتے۔

لیکن آج تو بات ہو گی مردوں کے حقوق پر۔ جی، نہ ہی آپ کو کسی قسم کا مغالطہ ہوا ہے اور نہ ہی یہ کالم  کچھ خاص طنز و مزاح سے مزین ہے۔

باوجود اس کے کہ تہذیب کا ارتقا مادر شاہی نظام سے ہوا۔ مرد کا  وہی کردار رہا جو آج عورت کا ہے یعنی بچے پیدا کرنے کا۔ یہاں رحم کی جگہ نطفہ لے لیتا ہے۔ انڈس ویلی سے بھی جو مورتیاں ملی ہیں وہ کچھ یہی داستان سناتی ہیں۔ دیویوں کی پوجا ازل سے جاری تھی۔ خاندانی نام ماں کا ہی کہلاتا تھا۔ خاندان کی سربراہی عورت کے حصے آتی تھی۔ خدا کی آخری کتاب میں بھی انسانوں کو روز محشر ماؤں کے نام سے پکارے جانے کا ذکر ہے۔ لیکن کیا کہئے کہ وقت کے ساتھ اس نظام کی جگہ پدر شاہی نے لے لی اور اب تقریبا پوری دنیا میں یہی رائج ہے۔

اس نظام کی رو سے مرد و عورت کی کچھ مخصوص عادات و رویے مرتب کے گئے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایک بارڈر وجود میں آ گیا۔  جو لکیر کے سے پیچھے ہوا وہ تمغہ مردانگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ جی ہاں، اس قدر ہی کٹھن ہیں راہیں عشق کی۔ مرد کبھی روتا نہیں/ مرد کو درد نہیں ہوتا۔ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ مرد اپنے جذبات و احساسات کااظہار  کھل کر نہیں کرتا۔ آواز بھی بھاری ہو اور ہاتھ بھی۔ مردوں کے پیشے بھی مخصوص ہیں۔ جسمانی قوت کا مظاہرہ کرنے والے تمام شعبے معتبر ہیں۔ جنگ و جدل سر فہرست ٹھہرا۔ یہاں تک کہ رنگ بھی مخصوص  ہیں۔ کالا، بھورا، نیلا، سرمئی، سفید۔۔۔ باقی مرضی ہے کہ انہی کو ملا کر جتنے مرضی ریمکس تخلیق کے جائیں۔ لباس بھی یوں گردن کی طرح اکڑا  ہوا، کسی قسم کی آرائش سے مبرا۔ خبردار جو کس نے کھاتا خانے کے بارے میں سوچا بھی۔ یہاں پہنو بھی جگ بھاتا اور کھاؤ  بھی۔ ہر قسم کے لطیف احساس اور جذبے سے اجتناب، اجتناب۔

یہ نظام  عورت سے یکسر مختلف مانگیں رکھتا ہے۔ سوال پوچھنے کا اختیار بھی اپنے پاس ہی محفوظ رکھتا ہے۔  ایک مثالی عورت کی خصوصیات ازبر تو ہوں گی ہی آپ کو بھی اور ہمیں بھی۔ نزاکت، نفاست، دھیما لب و لہجہ، امور خانہ داری پر مہارت، سلائی کڑھائی پر عبور، وفا کا پیکر، مجسم صبر، ہلکی سی آہٹ پر ڈر جانے والی، ہوا کے ہلنے سے چونک جانے والی۔ یعنی مثالی مرد اور عورت شمال جنوب جتنے ہی ملتے جلتے  ہیں۔ ان دونوں صنفوں کو ایک دوسرے سے اتنا ہی دور رہنا چاہئے جتنا دودھ سے بال کو۔

بنیادی مسئلے کی شروعات بھی یہیں سے ہوتی ہے جب ان خصوصیات کو لازم ٹھہرایا گیا اور ان کے انسان ہونے کو ہی خارج الامکان سمجھ لیا گیا۔  اگر علم نفسیات اور قدیم لٹریچر کو حق مانا جائے تو ہر مرد میں ایک عورت چھپی ہے اور ہر عورت میں ایک مرد۔ ایک مکمل انسان انہی دونوں صنفوں کے توازن کا نام ہے۔ ہم نے ان دونوں سے ان کے انسان ہونے کا احساس ہی ہہیں لیا۔ خاص طور پر مرد سے۔ یہ بات یکسر بھلا دی کہ درد تو ہر انسان کو ہوتا ہے۔ پھر انسان کا دل بھر آتا ہے۔ ہر انسان کو بوڑھا ہونا ہے۔ ہر انسان کا بنیادی حق اور ضرورت ہے اپنے جذبات کو نہ صرف پہچاننا بلکہ کھل کر ان کا اظہار بھی کرنا۔ حس لطیف اور رنگ و بو پر صرف عورتوں کی اجارہ داری ہی کیوں؟ مرد کو خود کو سنوارنے کا حق کیوں نہیں؟ رونے کی آزادی کیوں نہیں؟

ہم مانتے ہیں کہ کہ مضبوطی ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کی بقا کی ضامن ہے۔ لیکن جذبات کو چھپا کر ناسور بنانا بھی کہاں کی انسانیت ہے، صاحب؟ اگر آپ کا بیٹا کھانا بنانے یا سلائی کڑھائی میں دلچسپی رکھتا ہے تو خاندان کی عزت پر حرف کیسے آ جاتا ہے؟ آنسو بہاتے آدمی کو تمسخر کا نشانہ کیوں بنایا جائے ؟ اپنے نازک جذبات کو جاننے اور پہچاننے والا انسان حقیقی مرد ہے یا نامرد ؟ اگر دل کا غم آنسوؤں کے راستے بہ نکلا تو کسی کا کیا بگڑا ؟ کسی مذہب اور قانون کی رو سے اسے جرم ثابت کر دیجئے۔ اگر ہو گیا تو جو چھوڑ کی سزا وہ ہماری۔

حضور، مرد بھی انسان ہے اور مناسب یہی ہو گا کہ اسے مردانگی کے تمغے نوازنے کے بجائے انسان ہی رہنے دیں۔ ہر اس مرد کی قدر کیجئے جو اپنے اندر کی نزاکت اور نفاست سے آگاہ ہے۔ آگہی تو روشنی ہے، بلند بختی ہے۔ جئیں اور جینے دیجئے بھی۔ خود کو بھی اور اپنے ارد گرد رہنے والے مرد و زن نما انسانوں کو بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).