صوفیانہ واردات کی تفہیم (1)


(ولیم جیمز (January 11, 1842 – August 26, 1910) ایک معروف امریکی فلسفی اور ماہر نفسیات تھے۔ ولیم جیمز نے Gifford Lectures کے عنوان سے the University of Edinburgh میں  The Varieties of Religious Experience (1902) کے لیکچرز کا ایک سلسلہ دیا تھا۔ ہم سب کے ساتھی جمشید اقبال نے اس اہم تحریر کو اردو کا جامہ پہنایا ہے جسے قسط وار پیش کیا جائے گا)

٭٭٭  ٭٭٭

میرے خیال میں مذہبی تجربے کا سرچشمہ صوفیانہ شعور ہے اور مذہبی واردات کا مغز صوفیانہ شعور کی حالت ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں آج تک میں اُس لطف و انبساط سے محروم ہوں جو لطف اورمستی صوفیائے کرام کو ملی ہے۔ اس لئے میری بات میرے ذاتی تجربے کا نچوڑ نہیں ہے اس کے باوجود میں کوشش کروں گا کہ معروضیت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دوں۔ مجھے یقین ہے کہ میں صوفیانہ واردات کی حقیقت اور اہمیت کو واضح کرنے میں کامیاب رہو ں گا۔

 پہلے پہل ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہے کہ ”صوفیانہ شعور کی حالت ” سے کیا مراد ہے۔ ہم صوفیانہ شعور کی حالت کا شعور کی دیگر حالتوں سے تقابل کس طرح کر سکتے ہیں؟

عام طورپر یہ د و الفاظ۔۔ تصوف اور صوفیانہ۔۔ مبہم ، دقیق ، وسیع اور جذباتی مطالب کے حامل الفاظ سمجھے جاتے ہیں۔ اس لئے لوگ اس غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں کہ صوفی ہونے کا مطلب حقیقت اور منطق سے منہ موڑ لینا ہے۔ بعض لکھاریوں کے نزدیک صوفی وہ ہے جو خیال رسانی کے عمل میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ ارواح کو حاضر کر لیتا ہو۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو اِن تجربات کی اہمیت صرف فسانہ گروں کے ہاں باقی رہے گی۔ اس کے علاوہ اِن الفاظ کے بے شمار مترادفات ایسے ہیں جو اِن الفاظ سے کم مبہم نہیں ہیں۔ اس لئے اِن الفاظ کے علمی افادے کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں اِن کے مطالب کو محدود کرنا ہوگا۔ لہٰذا تصوف کی تعریف وضح کرتے وقت بھی میں وہی کچھ کروں گا جو کچھ میں نے مذہب کی تعریف مرتب کرتے وقت کیا تھا۔

میں اس لیکچر کے دوران صوفیانہ شعور کی مخصوص چار خصوصیات کا ذکر کروں گا جنہیں ہم خالص صوفیانہ تجربے کے اجزائے ترکیبی کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف ہم اُس لفظی و لسانیاتی حجت ونزع اور الزام تراشی سے پہلو بچا پائیں گے جس سے بچ کر گذر جانا عام طورپر مشکل سمجھا جاتا ہے۔ صوفیانہ شعور واردات کی چار مخصوص کیفیات کچھ یوں ہیں۔

1۔ورائے سُخن (ناقابل ِ بیان ہونے کی حالت )

2۔ مدرکاتی ( جومحسوسات کے بغیر ذہن میں ابھرے)

3۔ زوُد گذار (جو زیادہ دیر تک قائم نہ رہ پائے )

4۔انفعالی (جو بلا مزاحمت تاثرات قبول کرے )

ورائے سُخن

صوفیا کا کہنا ہے کہ اُن کی روحانی واردات ماورائے کلام ہے۔ اُس کا تجربہ ممکن ہے لیکن بیان ممکن نہیں۔ اس لئے میں اِسے سلبی حالت کہوں گا۔ صوفیانہ واردات کے بعد ہر ایک نے یہی کہا ہے کہ اُس کا تجربہ ماورائے کلام ہے۔ اس تجربے کو قبائے لفظی کا ملبوس عطا کرنا ناممکن ہے۔ اس واردات سے گذرا جا سکتا ہے لیکن لسانی ذرائع کی مدد سے روداد اور انتقال ناممکن ہے۔ اس لئے یہ سلبی کیفیت فکری واردات کے برعکس گہرے جذبات اور احساسات کا تجربہ ہے۔ کیونکہ آج تک کوئی بھی شخص اپنی خاص جذباتی کیفیات سے دوسروں کو کماحقہ آگاہ نہیں کر پایا۔ کوئی بھی جذباتی تجربات کی قدر اور ماہیت کو دوسروں تک منتقل نہیں کر پایا۔

گیت کی جذباتی قدر (emotional value) سے واقف ہونے کے لئے کانوں کا سُر شناس ہونا لازم ہے۔ محبت کے سوزوگداز سے ناواقف لوگ عاشق کے جذبات کو نہیں سمجھ سکتے۔ عاشق کے جذبات کو سمجھنے کے لئے عاشق کی ذہنی و جذباتی کیفیات کا تجربہ لازم ہے۔ جو لوگ سننے والے کانوں اور محبت سے دھڑکتے ہوئے دلوں سے محروم ہیں وہ موسیقی پر جھومنے والوں اور عشق میںتڑپنے والوں کی کیفیات نہیں جان سکتے اور انہیں بے معنی قرار دیتے ہیں۔ موسیقی پر جھومنے والوں اور عاشقوں کی طرح صوفی بھی یہ سمجھتا ہے کہ بہت سے لوگ اُس کی حالت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

مدرکاتی کیفیت (Noetic Quality)

اگر چہ صوفیانہ تجربہ ، علمی تجربے کی طرح ، مدرکاتی نوعیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مخصوص جذباتی کیفیات سے مماثل ہے۔ قوت ِ فکر کی ٹوٹ پھوٹ اور عدم تسلسل کے برعکس صوفیانہ بصیرت اس قدر سریع الرفتار اور مہین ہے کہ حقیقت کے بطن البطون تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔ صوفیانہ ادراک سب روشن کر دیتا ہے۔۔ حقیقت کے علم کا قلوبِ انسانی پر نزول کو ممکن بناتا ہے۔ صوفی خاموش رہتا ہے لیکن اُس کا علم آنے والے ہر دور میں خود ہی اپنی سند بنتا ہے۔

 متذکرہ بالا کیفیات صوفیانہ تجربے کی کسوٹی ہیں۔ دوسری دو کیفیات، جن پر ہم اب بات کریں گے، صوفیانہ واردات کے لئے لازم نہیں ہیں لیکن اکثر صوفیا روحانی واردات کا احوال بیان کرتے وقت ان پر بھی بات کرتے ہیں۔

زود گزارتجربہ

صوفیانہ شعور کی حالت دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور کچھ دیر بعد کائناتی شعور میں تحلیل ہوجانے والا شعور مادی سطح پر آجاتا ہے۔ واپس آنے کے بعد صوفی کا حافظے میں اُس آفتاب کی بمشکل چند کرنیں باقی بچتی ہیں جسے اُس نے شعور کی خالص آنکھ سے دیکھا تھا۔ لیکن جونہی صوفی کا شعور دوبارہ اُس حالت کو پہنچتا ہے۔۔ وہ اِس مقام کو پہچان سکتا ہے۔ ایک واردات سے دوسری واردات تک ایک صوفی کا شعور مسلسل ارتقاء پذیر رہتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھ پایا ہے اُس بے مثل تجربے کی رفعت اور خلوص اس بار صوفی کے شعور کا حصہ ہوتا ہے۔

انفعالی کیفیت (Passivity)

اگرچہ صوفیانہ شعور کی منزل تک پہنچنے سے قبل ایک صوفی کومراقبے ، استغراق اور ارتکاز کی ریاضتوں سے گذرنا پڑتا ہے لیکن صوفیانہ شعور میں داخل ہوتے ہی وہ انفرادی مشیت سے آزاد ہوجاتا ہے کیونکہ اب وہ اپنے ارادے اور اختیار کی دنیا سے دُور نکل آیا ہے۔ اُسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی عظیم و کریم طاقت کے رحم و کرم پر ہے۔ صوفیانہ تجربے کی یہ خصوصیت ثانوی یا متبادل شخصیت جیسے نفسیاتی مظاہر کے قریب تر ہے جن کا اظہار عام طورپر پیش بینی ، خود نویسی یا حاضراتی جذب و استغراق (mediumistic trance)کی صورت میں ہوتا ہے۔ آنیوالے واقعات کی دُرست پیشگوئی ، خودبخود لکھنے لگنا اور جسم سے الگ ہو کر عالم ِ رویا میں پہنچ جانا عام آج کل کی نفسیات کے عام مشاہدوں میں شامل ہے۔ عام نفسیاتی مظاہر کی صورت میں ثانوی یا متبادل شخصیت اختیار کر نے کی واردات سے گذرنے والے شخص کو کچھ یاد نہیں رہتا اور اُس شخص کی ظاہری اور باطنی زندگی میں اس قسم کے واقعات کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ اس قسم کے واقعات کسی بھی عام شخص کی معمول کی زندگی میں خلل ڈالتے ہیں۔

اس کے برعکس صوفیانہ واردات کے لمحات کا کام محض خلل اندازی نہیں ہے۔ متبادل یا ثانوی شخصیت کے نفسیاتی عارضوں کے برعکس صوفیانہ واردات سے گذرنے والوں کے ذہن پر یہ بے مثل واردات کچھ گہرے اور انمٹ نقوش ضرور چھوڑ جاتی ہے۔ صوفی کو اپنی واردات کی باقیات کی اہمیت اور تقدس کا احساس بھی اسی واردات سے عطا ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں۔ صوفیانہ واردات کے اس تجربے سے گذرنے والوں کی زندگیوں میں یہ تجربات خارجی اور داخلی انقلابات کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس واردات سے گذرنے کے بعد انسان وہ کچھ نہیں رہتا جو کچھ وہ اس واردات سے قبل تھا۔ یہ واردات اس کی داخلی اور خارجی زندگی پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے اس سوال کا جواب نہایت مشکل ہے۔

ہمارا اگلا قدم چند نوعی یا اشاراتی مثالوں سے آگاہ ہونا ہے۔ صوفیاکے ایک مخصوص گروہ نے روحانی بالیدگی کی بلندیوں کو چھونے کے بعد اپنے تجربات کی بنیاد پر، دیدہ ریزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، روحانی فلسفے کی بنیاد رکھی ہے۔ لیکن میں اپنے پہلے لیکچر میں آپ کو بتا چکا ہوں کسی بھی مسئلے کو سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ ہم اُس کا بالترتیب مطالعہ کریں۔ یعنی کسی بھی موضوع کا گہرا مطالعہ کرتے وقت یہ لازم ہے کہ ہم اُس کی تمام موجودہ اور ناپید اشکال پر نظر ڈالیں، اُس کی بنیادوں اور مبادیات کو سمجھتے ہوئے مبالغہ آمیز انحرافی صورتوں کا بھی جائزہ لیں۔

صوفیانہ تجارب کا سلسلہ بہت طویل ہے۔ اس قدر طویل کہ ہم اِس مختصر وقت میں اُن پر بات نہیں کر پائیں گے۔ تاہم بالترتیب مطالعے کا طریقۂ کار کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس لئے سب سے پہلے میں اُن لوگوں کے تجربات پر بات کروں گا جو اپنی واردات کی مذہبی اہمیت کے دعویدار نہیں ہیں تاہم اُن تجربات کی مدد سے ہم کسی نتیجے پر ضرور پہنچ سکتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کے تجربات غیر یقینی حقائق پر زور دے کر مذہبی زعم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔

صوفیانہ تجربے کی ابتدائی اور غیر ترقی یافتہ شکل ایک گہرے احساس کا تجربہ جس کے بعد اس تجربے سے گذرنے والا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ ”آج سے قبل میں نہیں جانتا تھا کہ زندگی اس قدر پُر مغز اور بامعنی بھی ہو سکتی ہے ”۔

 جب سولہویں صدی کے جرمن الٰہیات دان مارٹن لوتھر نے کہا :

”ایک دن جب میں یہ الفاظ دہرارہا تھا ، ” مجھے یقین ہے کہ میرا رب میرے تمام گناہ بخش دے گا ”۔۔مُقدس صحائف ایک نئی روشنی سے دھل کر واضح ہوگئے۔ مجھے یوں لگا جیسے مجھے نیا جنم ملا ہو۔ جیسے مجھے جنت کا کھلا دروازہ دکھائی دیا ہو۔۔

جس گہرے احساس کی بات مارٹن لوتھر کر رہے ہیں اس کا دائرہ عقلی قضایہ جات تک محدود نہیں۔ اگر انفرادی شعور کے سُر اور لے کائناتی سُروں سے ہم آہنگ ہوجائے تو کچھ الفاظ ، کچھ مرکبات ، روشنی ، ہوااور سمندر جیسے عظیم مظاہر کے اثرات ، خوشبو ، موسیقی سب اس قسم کا گہرا احساس پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 وہ لوگ جو حرف و صوت کا جمالیاتی گیان رکھتے ہیں اور جنہوں نے ادب ِ عالیہ کے مطالعے کے لئے وقت نکالا ہے اس بات سے ضرور واقف ہونگے عظیم ادبی شاہ پارے کس قدر وجد آور ہوتے ہیں۔ بعض نظمیں غیر منطقی مگر جمالیاتی دریچے وا کرتی ہیں اور احباب ِ ذوق کو ہستی کے مراکز کا پتہ ملتا ہے۔۔ ایسے شاہکار ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو شوریدہ سری ، جنون ، عشق اور درد کی دنیا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو عقلی دنیا کی نسبت پُر اسرار اور ٔ جلال و جمال کا سرچشمہ ہے۔

 تاہم خدایان سخن کے یہ الفاظ حقیقت کی ظاہری چمک دمک سے زیادہ کچھ نہیں دکھا پاتے۔ اسی طرح غنائیہ شاعری اور موسیقی کی دنیا ایک متحرک اور سانس لیتا دائمی حسن و جمال ہے۔ غنائی موسیقی اور شاعری حقیقت کی اُن پُراسرار پرتوں کی خبردیتی ہے جو عقل کی آنکھ سے ہمیشہ اوجھل رہ کر بھی ہمارے تحت الشعور کو ہر وقت دعوت ِ نظارہ دیتے ہیں۔ حرف و صوت کی یہ دنیاایک اور دنیا کی طرف اشار ہ کرکے ہماری رہنمائی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اگر ہم حرف و صوت کی جمالیاتی بھول بھلیوں میں کھوجائیں تو منزل دُور ہی رہتی ہے لیکن ہمیں اُس کے قرب کا دھوکہ مسلسل  رہتا ہے۔ فنون کی دنیا ہمارے باطن میں صوفیانہ تاثر پذیری کی دنیا کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔ یہی وہ دنیا ہے جہاں ہمیں جہان ِ باطن سے مسلسل پیغامات وصول ہورہے ہیں۔ ہماری داخلی زندگی اور موت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم داخلی دنیائوں سے یہ پیغامات وصول کر پا رہے ہیں کہ نہیں۔ ہم صوفیانہ اثرات قبول کر پا رہے ہیں یا نہیں۔

باطنی پائیدان پر اگلا قدم ایک خاص قسم کا زودگذار احساس ہے۔ ایک ایسا قوی احساس کہ ہم کسی عظیم بلند طاقت کے رحم و کرم پر ہیں۔ مثال کے طورپر کسی مقام پر پہنچ کر ہم پر یہ احساس غالب آجاتا ہے کہ ”ہم اس سے پہلے بھی یہاں موجود تھے ”۔۔ ماضی کے کسی انجان لمحے میں ہم یہیں موجود تھے۔عین اسی مقام پر۔ انہی لوگوں کے ساتھ ہم یہی باتیں کر رہے تھے۔

(ترجمہ جمشید اقبال )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).